Ad

پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی کی مثنوی نگاری

دیا شنکر نسیم

 

 نسیم لکھنوی کی مثنوی نگاری

Naseem lakhnavi ki masnavi nigari

پنڈت دیا شنکر نسیم خواجہ حیدر علی آتش کے شاگرد تھے۔ 1254 ھ 1838 ء میں انہوں نے گلزار نسیم کے نام سے ایک مثنوی لکھی جو لکھنؤ کی سب سے عظیم اور نمائندہ مثنوی ہے۔ گلزار نسیم سے پہلے اس قصے کو نہال چند لاہوری نے " مذہب عشق " کے نام سے اردو نثر میں لکھا تھا۔ مثنوی گلزار نسیم کا پلاٹ خاصا منظم ہے۔

مثنوی گلزار نسیم ادبی اور فنی خوبیوں سے مالا مال ہے۔ یہ مثنوی صناعی ،حسن کاری ، ستھری گفتگو ، چست بندش ، شکوہ الفاظ ، نادر تشبیہات ، واقعہ نگاری کے تسلسل اور سرعت کی عمدہ مثال ہے۔ نسیم ایک دو شعر میں اتنا قصہ بیان کر دیتے ہیں جس کے لیے صفحات چاہیے ۔ مثلاً ذیل کے اشعار دیکھیے ۔۔

مثنوی گلزار نسیم کے اشعار 

طوطا بن کر شجر پر آ کر

پھل کھا کے بشر کا روپ پا کر

پتے پھل گوند چھال لکڑی

اس پیڑ سے لے کے راہ پکڑی


گلزار نسیم میں جذبات نگاری اور منظر نگاری کے بھی اچھے نمونے ملتے ہیں۔۔ مکالمے بھی نہایت برجستہ اور چست ہیں۔


پوچھا کہ سبب ؟ کہا کہ قسمت

پوچھا کہ طلب ؟ کہا قناعت


ادبی معیارات کے اعتبار سے گلزار نسیم اردو کی دو چوٹی کی مثنویوں میں سے ایک ہے۔۔


جاری ہے ۔۔۔

نواب مرزا شوق اور واجد علی شاہ اختر مثنوی نگاری 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے