Ad

مثنوی : مومن خاں مومن اردو کے اہم مثنوی نگار

 

مومن خاں مومن اردو کے اہم مثنوی نگار


مومن خاں مومن اور انکی مثنوی

مومن اردو کے ایک اہم مثنوی نگار شاعر ہیں۔ کلیات مومن میں بارہ مثنویاں ہیں۔ جن میں سے سات میں عشقیہ آپ بیتی ہے۔ دو عاشقانہ خطوط ہیں۔ ایک جہادیہ مثنوی ہے۔ اور دو تاریخ کی مثنویاں ہیں۔ شکایت ستم ، قصہ غم ، قول غمیں ، تف آتشیں ، حنین مغموم اور آہ و زاری مظلوم مومن کی مشہور مثنویاں ہیں۔ 

اردو کے مثنوی نگاروں میں مومن سب سے بڑے حقیقت نگار ہیں۔ ان کے تجربات عشق ایسے ہیں جو گوشت پوست کے انسانوں کو پیش آتے ہیں۔ انہوں نے سب سے بڑی جسارت کے ساتھ اپنے تجربوں کا انکشاف کیا ہے۔ محبوب سے ملنے کی کوشش ، گھر والوں کا ڈر رسوائی کا اندیشہ اور چوری چھپے ملاقاتیں ان سب کا قرار واقعی بیان کیا ہے۔


مومن کی مثنوی گوئی

" قول غمیں " مومن کی سب سے اچھی مثنوی ہے۔  اس میں صاحب جی اور مومن کے عشق کا قصہ ہے۔ صاحب جی امتہ الفاطمہ بیگم کا تخلص تھا۔ جو کسی ڈپٹی کی ممنوعہ تھی۔ مومن کو اس کے علاج کے لئے بلایا گیا اور اسے دل دے بیٹھے۔ اس مثنوی میں صاحب جی کے علاوہ مومن نے دو اور معاشقوں کا ذکر کیا ہے۔ مثنوی میں ایک مقام پر انہوں نے محبوبہ سے وداعی ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ جو نہایت درد انگیز ہے۔ چند شعر دیکھئے۔ 


مل قمر حسرت زدگان بے بس

دور بیٹھے ہوئے روتے رہے بس

خوں فشاں لب پہ وہ آہیں باہم

حسرت آلودہ نگاہیں باہم

گرچہ ہر گز بھی نہ تھی تاب کلام

پر یہ بولی وہ ذرا جی کو تھام


تم رہو خوش کسی جاں کے ساتھ

ہم چلے حسرت و ارماں کے ساتھ

کام دل رنج و بلا کو سونپا

تم کو تو ہم نے خدا کو سونپا

کہہ کے یہ آٹھ گئی جی کھوتی ہوئی

ہچکیاں لیتی ہوئی روٹی ہوئی


Momin khan momin masnavi

مومن کی مثنویوں میں اخلاقی عناصر کی کمی ہے۔ ان پر خواہشات نفس کا غلبہ نظر آتا ہے جو عشق کی معصومیت اور صحت مندی کے مغائر ہے۔ مثنوی میں مومن نے ثقیل اور فارسی آمیز زبان استمعال کی ہے۔ ان مثنویوں میں جا بجا نجوم و طب کی مشکل اصطلاحات برتی گئی ہے۔ ان مثنویوں کا حسن جذبات نگاری میں ہے۔ مومن نے جذبات کی نہایت موثر ترسیل کی ہے۔ ان کی مثنویوں کو مرزا شوق کی مثنویوں کا نقش اول کہا جاسکتا ہے۔


جاری ہے ۔۔۔

پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی نگاری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے