Ad

مثنوی : میر اثر اور میر حسن کا دور

میر اثر اور میر حسن کا دور


میر اثر اور میر حسن کا دور

خواجہ میر اثر 1209 ھ 1794 ء

Khawaj meer asar 

خواجہ میر اثر اردو کے مشہور صوفی شاعر خواجہ میر درد کے چھوٹے بھائی تھے میر اثر کی بنیادی اہمیت ایک مثنوی نگار کی ہے۔ ان کی مثنوی خواب و خیال کا شمار اردو کی اہم مثنویوں میں ہوتا ہے۔ خواب و خیال میں کوئی قصہ نہیں پیش کیا گیا ہے۔ اس میں ہجر و مفارقت ، تمنائے ملاقات ، وصل محبوب ، راز و نیاز اور عشق و محبت کی کیفیات و واردات کا بیان ہے۔

     یہ مثنوی چونکہ ایک عاشق کے ہر طرح کے جذبات و کیفیات اور اس کے سوانح کا سچا اور بے باکانہ اظہار ہے اس لئے اس میں وہ سب کچھ آگیا ہے جو عام طور پر بیان میں نہیں آتا۔ میر اثر کے ہاں اس بیان میں اس لئے وحدت اور شدت ہے کہ وہ خود اپنی آپ بیتی سنارہے ہیں ۔ یہ بیان وصل اس لئے واقعاتی ہے کہ وہ مثنوی لکھتے وقت آرزوئے وصل کی آگ میں جل رہے تھے۔ ان کا عشق خالصا مجازی اور جسمانی نوعیت کا ہے۔ اس کا سراپا خیالی نہیں ہے بلکہ اثر کا دیکھا بھالا ہے اس لیے ان کے بیان میں بے ساختگی، والہانہ پن، اور سرشاری کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ہییت ، ترتیب اور تکنیک کے اعتبار سے خواب و خیال میں کئی کھانچے اور کمزوریاں ہیں۔ لیکن اس کی زبان بڑی ستھری ہے ۔۔ مولوی عبد الحق کے خیال میں " شاید ہی کوئی مثنوی زبان کی سیاست اور روانی ، فصاحت اور شیرینی ، روزمرہ کی صفائی ، قافیوں کی نشست اور مصرعوں کی برجستگی ، زنانے اور مردانے محاوروں کے بے تکلف استمعال میں مثنوی " خواب و خیال " کا مقابلہ کرسکتی ہے " ۔


میر حسن 1201 ھ 1786 ء

Meer hasan

میر حسن اردو کے سر کردہ مثنوی نگار تھے۔ انہوں نے مثنوی کو فرجہ کمال تک پہنچایا۔ میر حسن نے چھوٹی پڑی بارہ مثنویاں لکھیں جن میں سے چند یہ ہیں : مثنوی شادی آصف الدولہ ، مثنوی رموز العارفین ، مثنوی گلزار ارم ، مثنوی در وصف قصر جواہر اور مثنوی سحر البیان وغیرہ۔

میر حسن کی مثنویوں میں سحر البیان نہ صرف ان کی شاہکار مثنوی ہے بلکہ اردو مثنویوں کی بھی سرتاج ہے۔ یہ ان کی آخر عمر کی تصنیف ہے جو 1199 ھ 1784-85 ء میں مکمل ہوئی۔ یہ مثنوی 2179 اشعار پر مشتمل ہے۔ اس میں وہ ساری خصوصیات یکجا ہوگئی ہیں جو ایک بہترین مثنوی کے لئے ضروری ہیں۔ 

مثنوی سحر البیان میں میر حسن نے جزئیات نگاری ، منظر نگاری ، جذبات نگاری ، تہذیب کی ترجمانی اور کردار نگاری ہے بے مثال نمونے پیش کیے ہیں۔ کردار نگاری کا شاہکار نجم النساء کا کردار ہے جو نہایت جاندار اور زندگی سے بھر پور ہے۔ 

اردو کی مشہور مثنویاں 

سحر البیان میں منظر نگاری کے نہایت لطیف اور خوبصورت نمونے ملتے ہیں۔ میر حسن نے سحر البیان میں ایسی زبان استمعال کی ہے۔ جو قصے کو نکھارتی اور اس میں دلکشی پیدا کرتی ہے۔ ان کے بیان میں تکلف و تصنع نہیں ہے۔ ان کی زبان عام بول چال کی زبان ہے۔ زبان کے استمعال میں انہوں نے موقع و محل کا لحاظ رکھا ہے۔ انہوں نے ہر طبقے اور کردار کی زبان میں اس طبقے کے مخصوص لہجے اور مزاج کو شامل کیا ہے۔ انہوں نے صنائع و بدائع کا بھی استمعال کیا ہے۔ تشبیہات ، ایہام اور رعایت لفظی کو برتنے میں انہوں نے اعتدال اور توازن کا خیال رکھا ہے۔ مختصر یہ کہ فنی خوبیوں اور زبان و بیان کی لطافتوں کی وجہ سے سحر البیان اردو مثنویوں میں گل سر سبد کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور اس مثنوی کی وجہ سے میر حسن کا نام اردو ادب کی تاریخ میں بقائے دوام حاصل کر چکا کے۔


میر حسن کے معاصرین میں متعدد شاعروں نے مثنویاں لکھیں۔ میر حسن کی تقلید میں جعفر علی حسرت نے طوطی نامہ کے نام سے ایک طویل مثنوی لکھی جس میں راجہ آنند کے بیٹے طوطی اور بھیجوں کے راجہ دھنی کی بیٹی شکر پارس کے عشق کا قصہ نظم کیا۔ راسخ عظیم آبادی بھی اس عہد کے ایک اچھے مثنوی نگار شاعر تھے۔ ان کے کلیات میں چھوٹی بڑی سترہ مثنویاں ہیں جو عشقیہ ، مدحیہ ، معاشرتی ، اخلاقی اور ہجویہ موضوعات پر ہیں۔ کشش عشق ، جذب عشق اور اعجاز عشق ان کی اہم مثنویاں ہیں۔ نور النہار صوفیانہ مضامین پر مشتمل ہےم جو مولانا جامی کی فارسی مثنوی سجقہ الابرار کے طرز پر لکھی گئی ہے۔ مصحفی اس دور کے ایک اہم مثنوی نگار شاعر تھے ۔انہوں نے مختصر اور طویل بیس مثنویاں لکھیں۔ جو مختلف موضوعات پر ہیں۔ چند مثنویوں کے نام اس طرح ہیں۔ " در ہجو چار پائی ، در افراط سرما ، مرغ نامہ اور طفل ہجام " ۔ ان کے علاوہ جذبۂ عشق ، شعلۂ شوق ، گلزار شہادت ، اور بحرالمحبت عشقیہ مثنویاں ہیں جو مصحفی نے میر کے رنگ میں لکھی ہیں۔ بحرالمحبت ان کی سب سے اچھی مثنوی ہے۔ جس میں انہوں نے میر کی مثنوی دریائے عشق کا قصہ نظم کیا ہے۔ جعفر علی حسرت کے شاگرد جرات بھی اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اکتیس مثنویاں لکھیں ۔ ان کی چند مثنوی کے عنوانات یہ ہیں۔ بحر الفت، عشق راجہ وچیری، شعلہ شوق ، کارستان الفت ، اور حسن و عشق وغیرہ۔ ان کے علاوہ انہوں نے ہجویہ اور موسم سے متعلق مثنویاں بھی لکھیں ہے۔ جرات کی مثنویوں میں حسن وعشق سب سے اہم ہے۔ اس کے ہیرو خواجہ حسن ہیں جو مشہور شاعر اور درویش تھے۔ مصحفی کے ہم عصر انشا نے کوئی طویل مثنوی نہیں لکھی گیارہ مختصر مثنویاں لکھیں ۔ جیسے کھٹمل نامہ ، مرغ نامہ ، اور مثنوی فیل وغیرہ ۔ اس دور میں سعادت یار خاں رنگیں نے سب سے زیادہ مثنویاں لکھیں۔ ان کی مثنویوں کی تعداد 43 ہے۔ ان میں عشقیہ ، ہجویہ ، حکایتی اور مذہبی کے علاوہ ساقی نامہ اور بہ طور خط لکھی ہوئی مثنویاں بھی شامل ہیں۔ مثنوی دل پذیر ( 1213 ھ ) ان کی سب سے عمدہ مثنوی ہے۔

اس مثنوی میں رنگین نے یلغار کے بادشاہ خاور شاہ کے بیٹے مہ جبین اور کشمیر کی رانی نازنین کا قصہ بیان کیا ہے۔ پلاٹ ، تکنیک اور زبان کی خوبی کے اعتبار سے یہ اردو کی چند بہترین مثنویوں میں سے ہے۔ 


میر حسن کے معاصرین میں نظیر اکبر آبادی ، مرزا علی لطف ، شیر علی افسوس ، تجلی اور عبرت و عشرت بھی قابل ذکر مثنوی نگار شعرا گزرے ہیں۔


جاری ہے۔۔۔۔

مومن خان مومن ایک اہم مثنوی نگار

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے