Ad

شمالی ہند میں اردو مثنوی کا آغاز و ارتقا

شمالی ہند میں اردو مثنوی کا آغاز و ارتقا
 

شمالی ہند میں اردو مثنوی کا آغاز و ارتقا

Shumali Hind mein Urdu masnavi k aaghaz o irteqa

مثنوی اردو کی چار اہم اور مشہور شعری اصناف میں سے ایک ہے۔ یہ خارجی یا بیانیہ شاعری کی نمائندہ صنف ہے جس میں عشقیہ داستانوں کے علاوہ فکر انگیز مضامین بھی بیان کیے جاتے ہیں۔ شاعری کی دیگر اصناف پر مثنوی کو اس کی بعض خوبیوں کی وجہ سے فوقیت اور برتری حاصل ہے۔ چنانچہ حالی کہتے ہیں " مثنوی سب سے زیادہ مفید اور کار آمد صنف ہے " اسی طرح شبلی لکھتے ہیں " یہ صنف تمام انواع شاعری کی بہ نسبت زیادہ مفید ٬ زیادہ وسیع اور زیادہ ہمہ گیر ہے "

مثنوی عربی زبان کا لفظ ہے لیکن یہ فارسی شعرا کی ایجاد ہے۔ عربی میں مثنوی نہیں پائی جاتی۔ اردو کے قدیم دکنی شعرا نے فارسی سے خوشی چینی کر کے دکنی میں مثنوی کی روایت کی داغ بیل ڈالی۔ مثنوی کو دکنی شعرا کا سب سے مرغوب اور محبوب صنف ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دکن کے کر بڑے شعرا نے مثنوی لکھی۔ دکنی دور در اصل مثنوی کا دور تھا۔ اس اکائی میں شمالی ہند میں مثنوی کے ارتقا کا جائزہ لیا جائے گا۔


شمالی ہند میں مثنوی کے اولین نمونے

شمالی ہند میں مثنوی کے آغاز سے بحث کرتے ہوئے بعض محققوں نے بابا فرید گنج شکر اور حضرت امیر خسرو سے منسوب بعض اشعار کو شمالی ہند کی مثنوی کے اولین نمونے قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ان اشعار کی زبان اتنی صاف ہے کہ انھیں بابا فرید اور امیر خسرو کی تصنیف سمجھنا غلط ہے۔ افضل کی " بکٹ کہانی " کو شمالی ہند کی پہلی مستند مثنوی مانا جاتا ہے۔ بکٹ کہانی حقیقت میں بارہ ماسہ ( مہینہ )ہے جس میں ایک بیوی اپنے شوہر کی جدائی میں ہر مہینہ اپنے دل پر گزرنے والی کیفیات کا اظہار کرتی ہے۔ " بارہ ماسہ " مثنوی سے الگ ایک مستقل صنف ہے۔

Masnavi ki tareef in Urdu 

شمالی ہند کی قدیم ترین مثنویوں میں شیخ عبداللہ امین کی مثنوی " فقہ ہندی " اہم ہے۔ امین نے یہ مثنوی اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں لکھی۔ اس کا سن تصنیف ( 1074ھ 1644ء ) ہے۔ اس میں فقہی مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ اسی دور میں محبوب عالم عرف شیخ جیون نے چار مثنویاں لکھیں جن کے نام یہ ہیں 1 محشر نامہ 2 درد نامہ 3 خواب نامہ پیغمبر 4 دھیر نامہ بی بی فاطمہ ان میں درد نامہ طویل مثنوی ہے جو تقریباً پونے تین اشعار پر مشتمل ہے۔ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور وصال کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔۔

شمالی ہند کے قدیم شعرا میں جعفر زٹلی نہایت اہم ہے۔ اس کے کلام میں مثنویوں کی تعداد کافی ہے۔ اس کی ایک طویل مثنوی " ظفر نامہ اورنگ زیب شاہ عالمگیر بادشاہ غازی " ہے جس میں عالمگیر کی فتوحات دکن کا ذکر ہیں۔ ڑٹلی کے کلام میں سیاسی انتشار ، معاشی پریشان حالی اور حکمرانوں کی نا اہلی پر طنز ملتا ہے۔ اس کے ہاں ابتذال اور سوقیت ہے جو کبھی فحش بھی ہو جاتی ہے۔

جعفر ڑٹلی کا ہم عصر اسمعیل آمروہی ہے جس نے دو مثنویاں " تولد بی بی فاطمہ ( 1105 ھ 1694 ء ) اور قصہ معجزہ انار ( 1120ھ 1709 ء ) لکھیں۔ اس کی زبان پر دہن کا اثر ہے۔

اسی دور کے ایک اہم شاعر فائز دہلوی ہیں۔ جنہوں نے سولہ مختصر مثنویاں لکھیں۔ ان کی چند مثنویوں کے نام یہ ہیں۔ مناجات ، در مدح شاہ ولایت ، تعریف پنگھٹ ، تعریف ہولی ، در وصف بھنگیڑن ، تعریف جوگن ، در وصف کاچھن ، تعریف تنبولن مالن اور گوجرہ وغیرہ۔ مثنویوں کے موضوعات سے حسن پرستی کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی مثنویاں توضیحی نوعیت کی ہیں ان میں مقامی رنگ کی جھلک نمایاں ہے۔

فائز کے ہم عصر نجم الدین شاہ مبارک آبرو تھے ۔ آبرو نے آرائش معشوق یا آرائش خوباں کے موضوع پر 225 اشعار کی ایک مثنوی لکھی جس سے اس زمانے کی پوشاکوں اور لوازمات آرائش کا پتہ چلتا ہے۔

شاہ حاتم کا شمار بھی شمالی ہند کے قدیم شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کے مرتبہ " دیوان زادہ " میں پانچ سو مثنویاں شامل ہیں جن کے نام اس طرح ہیں :

1 مثنوی سراپا 2 ساقی نامہ 3 وصف قہوہ 4 وصف تمباکو و حقہ 5 مثنوی بہاریہ مسمی بہ بزم عشرت

UGC NET URDU SYLLABUS

ان مثنویوں کے عنوانات سے ان کے موضوعات کا پتہ چلتا ہے۔ حاتم کی مثنویوں میں بزم عشرت نسبتاً طویل ہے۔ ان میں کئی عنوانات ہیں جیسے حمد ، توحید ، تمہید ، آغاز سخن وصف شاہ جہاں آباد دہلی ، وصف بادشاہ وغیرہ۔


اسی زمانے میں دلی کے ادبی مرکز سے دور پھلواری شریف ( بہار ) میں شاہ آیت اللہ جوہری نے ( 1161 ھ 1748 ء ) میں گوہر جوہری کے نام سے 2304 اشعار پر مشتمل ایک مثنوی لکھی جس میں کچھ قصے اور عشق و معرفت کی باتیں بیان کی گئی ہیں۔ شمالی ہند کے ان اولین شعرا کے کارناموں کی دولت میر و سودا کے عہد کے آنے تک اردو میں مثنوی کی روایت ایک پختہ صورت اختیار کرلیتی ہے ۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

میر و سودا کا دور

Meer o souda ka dor

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے