مثنوی : میر تقی میر
Masnavi : meer taqi meer
میر تقی میر غزل ہی کے نہیں مثنوی کے بھی مثنوی کے بھی مسلم الثبوت استاد ہیں۔ انہوں نے کل 38 مثنویاں لکھی ہیں۔ میر کی ان تمام مثنویوں کو موضوع کے اعتبار سے چار عنوانات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
عشقیہ : جیسے خواب و خیال، شعلۂ شوق، دریائے عشق اور اعجاز عشق وغیرہ
واقعاتی : جیسے در بیان مرغ بازاں، در بیان کتخدائی آصف الدولہ، دربیان ہولی ، ننگ نامہ اور شکار نامہ وغیرہ
مدحیہ : جیسے در تعریف سگ و گربہ ، در تعریف بز وغیرہ
ہجویہ : در ہجو خانی خود، در ہجو نا اہل، اژدر نامہ ( اجگر نامہ ) اور در مذمت دنیا وغیرہ۔
دریائے عشق اور شعلۂ عشق میر کی شاہ کار مثنویاں ہیں۔ دریائے عشق ایک صادق کی داستان ہے جو کسی مہ جبین پر فریفتہ تھا۔ دریائے عشق کی ابتدا میں میر نے تصور عشق پر روشنی ڈالی ہے۔ اور عشق کے اوصاف بیان کیے ہیں۔
میر کی دوسری اہم مثنوی شعلہ عشق ہے۔ اس میں پرس رام اور اس کی بیوی کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ اس مثنوی کا واقعی مافوق الفطرت ہے لیکن اس کی وجہ سے مثنوی میں دلچسپی، تحیر اور خوف کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔
میر کی مثنویوں میں ان کی عشقیہ مثنویوں کو زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ ان میں میر کی شخصیت و سیرت کھل کر سامنے آتی ہے۔ میر کو جانوروں کا شوق تھا۔ انہوں نے بلی، کتا، بکری، بندر کا بچہ اور مرغ پر مثنویاں لکھی ہیں۔ میر کی ہجویہ مثنویوں میں " اجگر نامہ " اہم ہے۔ اس میں میر نے خود کو بہت بڑا اژدھا بتایا ہے۔ اور اپنے عہد کے سارے شاعروں کو کیڑے، مکوڑے، چھپکلی، مینڈک اور لومڑی وغیرہ کہا ہے۔ اور دکھایا ہے کہ اژدہا ایک ہی سانس میں سب کو ہڑپ کر جاتا ہے۔
میر کی مثنوی کے موضوعات
میر کی مثنویوں کے موضوعات میں تنوع کا احساس ہوتا ہے۔ ان مثنویوں میں میر کی ذات، ان کا ماحول، ان کی دلچسپیاں، ان کی زندگی کے مختلف پہلو، ان کا رہن سہن، ان کی معاشرت، ان کے تعلقات، ان کے سفر اور ان کا عشق وغیرہ واضح طور پر سامنے آتے ہیں۔ میر کی زندگی کے مطالعے کے لئے ان مثنویوں میں کافی مواد موجود ہے۔ میر شمالی ہند کے چار سر کردہ مثنوی نگاروں میں سے ایک ہیں۔ باقی تین میر حسن، نسیم، اور مرزا شوق ہیں۔ میر کی مثنویاں اپنے زمانے میں اتنی مقبول ہوئیں کہ متعدد شعرا نے ان کا تتبع کیا۔ مثنوی نگاری میں میر کی شہرت عشقیہ مثنویوں کی وجہ سے ہے، جو شدت جذبات اور واردات قلبی کے بہترین مرقعے ہیں۔ ان مثنویوں کی اہمیت قصوں کی وجہ سے نہیں بلکہ تصور عشق، واقعاتی تاثر اور اس مخصوص فضا کی وجہ سے ہے جو میر کی مثنویوں کے علاوہ دوسری مثنویوں
میں نظر نہیں آتی۔
میر و سودا کے معاصرین میں قائم چاند پوری ( 1208ھ 1793-94ء) نے بھی متعدد مثنویاں لکھیں- کلیات قائم کے مختلف قلمی نسخوں میں 29 چھوٹی بڑی مثنویاں ہیں۔ جو ۔ختلف موضوعات پر ہیں ۔ ان میں تین مثنویاں اہم ہیں۔ اول مثنوی رمز الصلٰوۃ ہے جس میں نماز کی حقیقت و ماہیت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور سبق آموز حکایات سے اخلاقی نتائج اخذ کیے ہیں۔ دوئم " قصہ نٹ مسمی بہ حیرت افزا" جس میں ہندوستان کے مشہور رسی کے کرتب( ROPE TRICK ) اور نٹ ونٹی کا قصہ پیش کیا گیا ہے۔ سوم مثنوی جذب الفت یا " درویش و عروس " جس میں ایک درویش اور اس کے تکیے میں ایک برات کے ساتھ قیام کرنے والی دلہن کے عشق کا قصہ نظم کیا گیا ہے۔ قائم کی یہ دونوں مثنویاں قصے کے اعتبار سے دلچسپ اور اس دور کے مزاج سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہیں۔ قائم نے اپنی مثنویوں کے ذریعہ اردو مثنوی کی روایت کو آگے بڑھایا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
میر اثر اور میر حسن کا دور
0 تبصرے