Ad

جنوبی ہند کے چند اہم رباعی گو شاعر حصہ الف

 

جنوبی ہند کے چند اہم رباعی گو شاعر حصہ الف


جنوبی ہند کے چند اہم رباعی گو شاعر


 ولی اورنگ آبادی (ولی دکنی)

Wali aurangabaadi

     دکن میں جو سب سے اہم رباعی گو شاعر ملتا ہے وہ ولی ہے ۔ ولی اورنگ آبادی کو اردو شاعری کا باوا آدم کہا جاتا ہے کیونکہ ان ہی کی وجہ سے شمالی ہند کے علما و فضلا کو معلوم ہوا کہ اردو زبان میں تخلیقی اظہار کی صلاحیت بے پناہ ہے ۔ ولی نے رباعیاں بھی کہی ہیں۔ جن پر آگے ایک اکائی میں مفصل گفتگو کی گئی ہے۔ یہاں صرف ایک رباعی درج ہے۔

مئے خانہ جگ کا مئے سر جوش کیا

اس ہاتھ سوں عالم نے قدح نوش کیا

اس سید عالم کوں جوں دیکھا یک بار

یک بارگی عالم کوں فراموش کیا

UGC net urdu syllabus

سراج اورنگ آبادی

Siraj aurangabaadi

      ولی اورنگ آبادی کے انتقال ( 1154 ھ مطابق 1741 ء ) سے قبل ہی سراج اورنگ آبادی شاعر کی حیثیت سے دکن اور شمالی ہند میں شہرت پاچکے تھے ۔ سراج بنیادی طور پر صوفی تھے ۔ پچاس سال کی عمر میں ( 1177 ھ م 1763 ء ) انتقال کیا ۔ ان کی کلیات مرتب ہوچکی ہے ۔ ان کی  رباعیوں میں تصوف نمایاں ہے لیکن کہیں کہیں عاشقانہ جذبات بھی ملتے ہیں۔ ان کی دو رباعیاں درج کی جاتی ہیں۔

ہر آن ترے خیال میں ہوں مشغول 

یک بار نگاہ مہربانی سیں نہ بھول

بندہ ہوں ترا ہمیشہ جان و دل سیں

اے قادر بے نیاز کر مج کو قبول


اس شام جدائی میں مجھے آ دیکھو

انصاف و کرم کو کار فرما دیکھو

خورشید ڈبا شفق کے لوہو میں تمام

ٹک اپنے شہید کا تماشا دیکھو


     سراج کے بعد کے دور میں پروانہ ، شاہ عظیم ، شہ میر ، عزلت ، مفتون ، عشق ، آزاد ، عبرت ، تمنا ، آگاہ ، شاہ کمال وغیرہ کئی رباعی گو شاعر گزرے ہیں جن کے نمونۂ کلام سے یہاں بخوف طوالت گریز کیا جا رہا ہے.


نواب مرزا داغ دہلوی

Nawab Mirza daagh dahelvi

      نواب مرزا خاں داغ دہلی کے رہنے والے تھے۔ کچھ عرصے تک نواب رام پور کے دربار سے وابستہ رہے پھر حیدرآباد چلے آئے اور نواب میر محبوب علی خاں آصف کے دربار سے وابستہ ہوئے ۔ 1905 ء میں حیدر آباد میں انتقال کیا ۔ زبان و بیان پر انھیں بے پناہ قدرت حاصل تھی۔ اور ان کے سینکڑوں شاگرد تھے ۔ علامہ اقبال بھی ابتدائی زمانے میں داغ سے اصلاح لیا کرتے تھے۔ داغ نے رباعیاں بھی لکھی ہیں۔ ایک رباعی درج کی جاتی ہے :

دنیا میں کب انسان کی حاجت نکلی

حسرت ہی رہی کوئی نہ حسرت نکلی

جیتے تھے قیامت کی توقع پر ہم

خود وقت کی محتاج قیامت نکلی


میر محبوب علی خاں

Mee mehboob Ali khan

      میر محبوب علی خاں ( وفات 1329 ھ م 1911 ء ) آصف جاہی سلطنت کے چھٹے فرماں رواں گزرے ہیں۔ آصف تخلص تھا۔ نہایت پر گو شاعر تھے اور داغ دہلوی سے اصلاح لیا کرتے تھے۔ نمونے کے طور پر ایک رباعی درج ہے :


بے جا ہے بے وفا کو اچھا کہنا

زیبا نہیں بد عہد کو سچا کہنا

انسان تو وہ ہے جسے دشمن بھی کہے

اے مرد وفادار ترا کیا کہنا 


عبد الغفور شہباز

Abdul gafoor shehbaaz 

     عبد الغفور شہباز ، بابائے اردو مولوی عبد الحق سے قبل اورنگ آباد میں اردو کے استاد تھے۔ ان کی رباعیوں کا ایک مجموعہ رباعیات شہباز 1891ء میں کلکتہ سے شائع ہوا ، جس میں 160 رباعیات ہیں۔ ایک رباعی درج کی جارہی ہے :


خوبی کا ثبوت ہر طرح خوش خوش دے

گو لاکھ بڑے خطاب اسے بد خو دے

گل چینِ معانی نے کہا ہے کیا خوب

جو نام گلاب کا رکھو خوشبو دے


میر کاظم علی برق

Meet Kazim Ali barq

     میر کاظم علی برق موسوی 1916ء میں حیدر آباد میں تولد ہوئے ۔ اردو اور فارسی میں شعر کہتے تھے۔ ان کی اردو رباعیات کا ایک مجموعہ " مغز ادب و فرتاب " شائع ہوا ہے۔ اس کے علاوہ فارسی رباعیوں کا مجموعۂ نغمہ و الہام کے نام سے شائع ہوا ۔ اردو رباعی کا ایک نمونہ پیش ہے :


میت تھی کل ایک سر راہ گذار

تابوت کو دیکھا تو ہوا میں ہوشیار

اے برق حقیقیت ہے یہ افسانہ نہیں

اک خفتہ نے خفتہ کو کیا ہے بیدار


آزاد توکلی

Aazad tawakkali

     آزاد توکلی کا پورا نام گورسرن بلی آصف جاہی تھا۔ انھوں نے منتخب رباعیات عمر خیام کا اردو میں ترجمہ رباعی ہی کی شکل میں کیا۔ الخیام کے نام سے شائع شدہ اس کتاب پر ڈاکٹر زور نے مقدمہ لکھا جو 1348 ھ م 1929 ء میں چھپی۔

ایک مترجمہ رباعی پیش ہے :

اک فاحشہ زن سے کسی عابد نے کہا

افعال سے شرم اپنے نہیں تجھ کو ذرا

اس نے کہا جس طرح کی ہوں میں ہوں ہی

باطن بھی تمہارا کیا ہے ظاہر کا سا


خیام کی فارسی رباعی یہ ہے :

شیخے بہ زن فاحشہ گفتا مستی

ہر لحظہ بہ دام دگرے پا بستی

گفتا شیخا ہرانچہ گوئی ہستم

اما تو چنانکہ می نمائی ہستی


نظم طباطبائی

Nazam taba tabai

     نظم طباطبائی کا اصل نام سید حیدر علی تھا ۔ 1863ء میں لکھنؤ میں تولد ہوئے اور 1938 ء میں انتقال کیا ۔ نظم تخلص کرتے تھے ۔ انھیں میر عثمان علی خاں نے حیدر یار جنگ کے خطاب سے سرفراز کیا تھا۔ نظام کالج میں اردو کے پروفیسر تھے۔ 1933 ء میں ان کا دیوان " صوت غزل " کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ مرزا غالب کے کلام کی شرح اور گرے کی ایلچی کا اردو ترجمہ " گور غریباں " کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ نظم طباطبائی کے دیوان میں 20 رباعیاں بھی ہیں جن میں سے ایک یہاں پیش ہیں :

دل کی حرکت کو اضطراری سمجھو 

یہ طائر جاں کی بے قراری سمجھو

ہے عمر بشر چند نفس کی میعاد

جینے کو فقط نفس شماری سمجھو


مہاراجہ سر کشن پرشاد شاد

Maharaja sar Kishan parshaad

     مہاراجہ سر کشن پرشاد شاد کائستھ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔ 1280 ھ م 1864ء میں تولد ہوئے ۔ 1939ء میں انتقال کیا ۔ شاد کی شاعری اور نثری کارناموں پر مشتمل زائد از چالیس کتابیں ہیں جن میں رباعیات کے تین مجموعے ہیں۔ نظامی پریس بدایوں سے شائع شدہ ' رباعیات شاد " میں چار سو سے زیادہ رباعیاں ہیں ۔ " رباعیات شاد " کے نام سے ہی ایک مجموعہ عہد آفریں پریس حیدرآباد سے شائع ہوا جس میں " رباعیات شاد " مطبوعہ بدایوں سے منتخبہ رباعیوں کے علاوہ کچھ اور رباعیاں شامل کی گئی ہیں۔ اس مجموعے میں 190 رباعیاں ہیں۔ حیدرآباد ہی سے ان کی رباعیوں کا ایک اور مجموعہ " آئینہ عقیدت " کے عنوان سے شائع ہوا ۔ شاد کی ایک رباعی یہاں درج کی جاتی ہے :


اپنوں کی بھی، غیروں کی بھی، حالت دیکھی

شاہوں کی فقیروں کی بھی، صحبت دیکھی

پرسان نہیں کوئی کسی کا بھی شاد

دنیا میں عجب ہم نے قیامت دیکھی


جلیل مانک پوری

Jalil manak poori

     حافظ جلیل حسن جلیل مانک پوری 1283 ھ میں تولد ہوئے اور 1365 ھ میں انتقال کیا ۔ امیر مینائی کے شاگرد تھے اور انہی کے ہمراہ حیدرآباد آئے۔ نواب میر عثمان علی خاں نے انھیں اپنا استاد مقرر کیا اور فصاحت جنگ جلیل کے خطاب سے نوازا۔ ' معراج و سخن ' اور ' سلام و رباعیات ' اور صرف رباعیوں کا مجموعہ ' گل صد برگ ' شائع ہوئے۔ ان کی رباعیوں میں سے ایک یہاں درج کی جاتی ہے :

پھولوں میں ترا رنگ مہک تیری ہے

آنکھیں ہوں تو ذروں میں چمک تیری ہے

بجلی ہے نہ تارے ہیں نہ ذرے ہیں نہ چاند

کچھ بھی نہیں صرف ایک جھلک تیری ہے


دوارکا پرشاد افق

Dawarka parshad aufaq

     دوارکا پرشاد افق کا ریاست حیدرآباد سے تعلق رہا ہے۔ ان کا کلام لمعاتِ افق ان کے فرزند بشیشور پرشاد منور لکھنوی نے مرتب کرکے شائع کیا۔ ایک رباعی درج ہے :

پتھر سے بھی بدتر ہے جو دل نرم نہیں

اندھا ہے کنواں جس آنکھ میں شرم نہیں

ہے دور سیہ جو ابر برسے نہ افق

انسان حیوان ہے اگر دھرم نہیں


محمد باقر آگاہ

Mohammed bawar aagah

     محمد باقر آگاہ مدراس کے رہنے والے تھے۔ جنوبی ہند کے جید عالموں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ان کی ایک رباعی یہاں پیش کی جاتی ہے :


یارب مجھے عافیت دے در ہر دو جہاں

آفات و بلیات سے دے امن و اماں

جینے تلک اپنے دین اُپر ثابت رکھ

کر خاتمہ آخر کو مرا بر ایماں


رائے منوہر لال

Raye Manohar lal

     رائے منوہر لال بہار قوم کے کائستھ گھرانے سے تھے۔ 1913ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے دو مجموعے شائع ہوئے جن میں رباعیاں بھی شامل ہیں۔ ایک رباعی درج کی جاتی ہے :

نفرت کو محبت کی جلا دیتا ہوں

تکلیف کوئی دے تو دعا دیتا ہوں

میں فرض محبت کی اذاں دے کے بہار

انسان کو غفلت سے جگا دیتا ہوں


تسلیم گلشن آبادی

Tasleem Gulshan aabadi

     تسلیم گلشن آبادی نواب افضل الدولہ کے دور کے شاعر ہیں 63 سال کی عمر میں آپ کا انتقال 1307 ء میں ہوا۔ " رباعیات تسلیم " کے عنوان سے رباعیات کا ایک مجموعہ شائع ہوا ہے۔ جس میں 60 رباعیاں ہیں۔ ایک رباعی پیش ہیں :


تسلیم گجر بج گئی سوتے کیا ہو

پیری کو بھی آرام میں کھوتے کیا ہو

کچھ دل کی سیاہی کی خبر ہے تم کو

آنسو سے فقط آنکھوں کو دھوتے کیا ہو


رگھونندن سکسینہ

Raghunandan saksaina

     رگھونندن سکسینہ الہام کے رباعیوں کا پہلا مجموعہ ' رباعیات الہام ' 1954 ء میں ادارۂ ادبیات اردو کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ امجد حیدرآبادی نے ان رباعیات پر نظر ثانی کی اور رباعیات الہام کا پیش لفظ بھی لکھا۔ دوسرا مجموعہ ' الہام ثانی ' 1971 ء میں شائع ہوا۔ رباعی کا ایک نمونہ پیش ہے :

UGC net urdu syllabus

نوحہ کہیں ہوتا ہے کہیں ماتم ہے

دیکھا جو چپ و راست تو دکھ ہے غم ہے

کیا موت سے گھبرائیں کہ اس دنیا میں

جینے کا عذاب ہم پہ خود کیا کم ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے