Ad

جنوبی ہند کے چند اہم رباعی گو شاعر حصہ ب

 

جنوبی ہند کے چند اہم رباعی گو شاعر حصہ ب

جنوبی ہند کے چند اہم رباعی گو شاعر حصہ ب

Junubi hind ke Chand ahem rubai go shayar 

جلال الدین توفیق

     جلال الدین توفیق حیدرآباد کے ایک بے حد منکسر المزاج اور گوشہ نشین شاعر تھے ۔ اٹھاون برس کی عمر میں 1339 ھ میں ان کا انتقال ہوا۔ مجموعۂ کلام ' فانوس خیال ' کے علاوہ ان کی رباعیوں کا بھی ایک مجموعہ چھپا ہے ۔ ایک رباعی درج ہے :

بے تاب ہے عرض داد خواہی میری

مضطر ہے میرے لیے تباہی میری

کہتا ہے دم رقم مرا بخت سیاہ

کچھ مل گئی خامہ کو سیاہی میری


مرزا حبیب علی

     مرزا حبیب 1316 ھ میں حیدرآباد میں تولد ہوئے ان کی رباعیات کا ایک مجموعہ کائنات حبیب 1399 ھ میں شائع ہوا۔ ایک رباعی درج ہے :

بیگا ہ ہے کوئی تو کوئی اپنا

مشکل ہے یہ کہنا کہ یہی ہے اپنا

دم دوستی کا یوں تو سبھی بھرتے ہیں

جو وقت پہ کام آئے وہی ہے اپنا


عبد القدیر حسرت

     مولانا عبد القدیر حسرت صدیقی جامعہ عثمانیہ میں عربی کے پروفیسر اور صوفی مزاج پیر طریقت تھے۔ ان کی اردو رباعی کا ایک مجموعہ 1959 ء میں ' معیار الحق ' کے نام سے شائع ہوا جس میں 85 رباعیاں ہیں۔ ایک رباعی پیش ہے :

مانند نظر نظر سے مستور ہے تو

شہہ رگ سے قریب اور پھر دور ہے تو

وہ آنکھ کہاں جس سے دیکھوں تجھ کو

آنکھیں خیرہ ہوں جس سے وہ نور ہے تو


محمد بہادر خاں

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ محمد بہادر خاں المعروف بہ نواب بہادر یار جنگ قائد ملت نے بھی شعر کہے ہیں ۔ خلق تخلص تھا۔ مولوی نذیر الدین احمد نے ان کا کلام جمع کرکے ' بہادر یار جنگ کا غیر مطبوعہ کلام ' کے زہر عنوان شائع کیا۔ ایک رباعی یہاں درج کی جاتی ہے :

دولت کو جہاں کی آنی جانی سمجھو

عزت کو خدا کی اک نشانی سمجھو

اِتراو نہ اپنی خوش بیانی پر خلق

اس کو بھی خدا کی خوش بیانی سمجھو


امجد حیدرآبادی

     سید امجد حسین امجد حیدرآبادی 1886 ء میں حیدرآباد میں پیدا ہوئے اور 1961 ء میں انتقال کیا۔ اردو رباعی کی تاریخ میں امجد حیدرآبادی کا نام یقیناً سنہرے حرفوں میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ انگلی اکائی میں امجد حیدرآبادی پر تفصیلی گفتگو موجود ہے۔ یہاں انکی صرف ایک رباعی درج کی جارہی ہے :

پابند خیال میری تقریر رہی

آزادی پہ بھی پاؤں میں زنجیر رہی

تھا جتنا خدا کا حکم کوشش کرلی

تدبیر بھی وابستۂ تقدیر رہی


محمد اشرف

     اشرف کا پورا نام محمد اشرف تھا۔ الہ آباد کے رہنے والے تھے ۔ 60 سال کی عمر میں حیدرآباد چلے آئے۔ اخلاق الاشراف ان کی تصنیف ہے۔ جس پر سید مناظر احسن گیلانی ، جلیل مانک پوری اور عبدالقدیر حسرت نے تقریظ اور تعارفی نوٹ لکھے۔ صاحب حیدرآبادی کے مطابق ان کے مجموعے میں پانچ سو کے قریب رباعیاں ہیں۔ ان کی ایک رباعی پیش کی جاتی ہے :


غیرت تری کیا مسلم جانباز ہوئی

بے جہد کوئی قدم ممتاز ہوئی

سو بار گریبگو بہ پستی لیکن

شبنم نہ کبھی تارک پرواز ہوئی


رشید انصاری

     رشید انصاری کا پورا نام عمران احمد انصاری تھا۔ 1917؛ء میں تولد ہوئے۔ 1984 ء میں انتقال کیا۔ صائب شیرازی کے فارسی کلام کا اردو میں منظوم ترجمہ کیا اور خواجہ حافظ شیرازی کے دیوان کا بھی منظوم اردو ترجمہ تفسیر حافظ کے نام سے کیا۔ رباعیاں بھی کہی ہیں۔ ایک رباعی درج ہے :

زندہ تھے مگر ہم اپنے کب جوش میں تھے

دنیا کی ہوا و حرص کے ہوش میں تھے

جب موت کا سامنا ہوا تب سمجھے

اب تک ہم آہ خوابِ خرگوش میں تھے


رشید انصاری مزاحیہ شاعری بھی کرتے تھے اور سرپٹ حیدرآبادی قلمی نام تھا۔ مزاحیہ رباعیاں بھی لکھی ہیں۔ نمونتا ایک مزاحیہ رباعی درج ہے :

ہیں مظطر و بے چین نگہبان بہار

کہتے ہیں کہ چوری گیا سامان بہار

اب دیکھیے کس کس کی گرفتاری ہو

لکھا ہے پولس والوں نے چالان بہار


میر مہدی علی

     میر مہدی علی 1303 ھ میں پیدا ہوئے۔ انھیں نواب میر عثمان علی خاں فرماں روائے حیدرآباد نے شہید یار جنگ کا خطاب دیا۔ شاعری میں پیارے صاحب رشید اور بعد میں نظم طباطبائی سے مشورۂ سخن کرتے تھے۔ ان کی رباعیوں کا ایک مجموعہ تسبیحِ خیال شائع ہوا۔ جس میں 89 رباعیاں ہیں۔ شہید نے اپنی رباعیوں پر عنوان بھی دیے ہیں۔ ایک رباعی درج کی جارہی ہے :

خواب جوانی

بن کر ٹوٹا خواب جوانی حباب دیکھا تو نے

کیا جلد گیا شباب دیکھا تو نے

پیری میں نہ ذکر کر جوانی کا شہید

اب بھول بھی جا جو خواب دیکھا تو نے


فانی بدایونی

     فانی بدایونی ( وفات 1944 ) کا پورا نام شوکت علی خاں تھا۔ غزل گوئی میں فانی کا اہم مقام ہے۔ انہیں ناقدین نے امام یاسیات تسلیم کیا ہے۔ انھوں نے رباعیاں بھی کہی ہیں جو کلیات فانی میں شامل ہیں۔ ایک رباعی یہاں پیش کی جاتی ہے :

دل ہے وہی اضطراب کی خو نہ سہی

غم ہے وہی اظہار کا پہلو نہ سہی

آنسو تھے تو آنسوؤں سے رو لیتے تھے

روتے سب بھی ہیں خیر آنسو نہ سہی


صفی اورنگ آبادی

     صفی اورنگ آبادی کا پورا نام محمد بہبود علی تھا۔ 1310 ھ م 1893 ء میں تولد ہوئے اور 1373 ھ م 1954 ء میں انتقال کیا۔ بہت پر گو شاعر تھے اور محاورہ بندی میں یکتا تھے۔ مرقع سخن اور پراگندہ کے عنوان سے دو مجموعے شائع ہوئے۔ جن میں رباعیاں ملتی ہیں۔ ایک رباعی پیش ہے :

چل جائیں نہ تجھ پر حرص و لالچ کے پیچ

دوزخ کو نہ مول بھائی جنت کو نہ بیچ

اور ایک نہ ایک روز مرنے والے

دنیا ہیچ است و کار دنیا ہیچ


محمد اسمعیل

     محمد اسمعیل ظریف حیدرآباد کے مزاحیہ شعرا میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے مزاحیہ رباعیات بھی لکھیں ہیں۔ ایک رباعی بطور نمونہ درج کیا جاتی ہے :

دیکھا نہ کسی نے در و بامِ غالب

سن رکھا ہے سب لوگوں نے نام غالب

اب آپ میری عمر کا اندازہ کریں

غالب سے سنا میں نے کلام غالب


جذب عالم پوری

     پنڈت رگھوویندر راؤ جذب عالم پوری 1894 ء میں رائچور میں پیدا ہوئے جو اب ریاست کرناٹک میں شامل ہے۔ 1973 ء میں انتقال کیا۔ امجد حیدرآبادی کی صحبت سے فیض یاب تھے اور رباعی گوئی سے دلچسپی رکھتے تھے۔ ا۔ کی رباعیوں کے دو مجموعے ارمغان تہذیب اور آہنگ جذب شائع ہوئے۔ ایک رباعی بطور نمونہ درج ہے :


افلاس سے عزت کا جنازہ اٹھا

تفریق سے وحدت کا جنازہ اٹھا

جب، علم بڑھا لوگوں میں، اور عقل بڑھی

دنیا سے صداقت کا جنازہ اٹھا


عطا کلیانوی

     عطا کلیانوی کا پورا نام محمد عطاء اللہ تھا۔ رباعی گوئی سے خصوصی لگاؤ تھا۔ چنانچہ ان کی رباعیوں کا ایک مجموعہ وجود و شہود 1973 ء میں شائع ہوا، جس میں 286 رباعیاں ہیں ۔ ذیل میں ایک رباعی درج ہے :

انساں کے دل و دیدہ ہیں دشمن دونوں

ہیں باعثِ فتنہ یہ زر و زن دونوں

کیا راستہ دکھلائیں گے یہ دنیا کو

گمراہ ہیں خود شیخ و برہمن دونوں


نجم آفندی

     نجم آفندی کا پورا نام مرزا تجمل حسین تھا۔ 1893 ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ شاعری میں اپنے والد مرزا عاشق حسین بزم کے شاگرد تھے۔حصول علم کے بعد چند سال تک ریلوے میں کام کیا پھر وہاں سے استعفیٰ دے کر حیدرآباد چلے آئے۔ اور پرنس معظم جاہ شجیع کے دربار سے وابستہ ہوگئے۔ پر گو شاعر تھے اور مدحت اہل بیت کے لئے شہرت رکھتے تھے۔ انھوں نے رباعیات بھی کہی ہیں چنانچہ ان کی رباعیوں اور قطعات کا مجموعہ اسرار و افکار کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔ ذیل میں ایک رباعی درج کی جاتی ہے :


حیرت ہے اگر تجھے یہ ادراک نہیں

جامے کی بساط کیا جو دل پاک نہیں

تو رونق منبر ہو کہ خاک نشین

کردار اصل چیز پوشاک نہیں


میر ثامن علی نسیاں

     میر ثامن علی نسیاں حیدرآباد کے اساتذہ سخن میں شمار کیے جاتے تھے۔ نسیاں 1897 ء میں تولد ہوئے اور 1973 ء میں انتقال کیا۔ سبھی اصناف میں شعر کہتے تھے۔ شعری تخلیقات پر مشتمل کئی مطبوعات منظر عام پر آئیں جن میں صد گوہر کے عنوان سے 100 رباعیوں کا انتخاب بھی شامل ہے۔ ایک رباعی یہاں درج ہے :


بیکاری میں بھی کام کر لیتا ہوں

بد نامی میں بھی نام کر لیتا ہوں

دیوانوں کی طرح رو کے ہنس نسیاں

کچھ زیست کا دن تمام کر لیتا ہوں

جنوبی ہند کے چند اہم رباعی گو شاعر حصہ الف

صاحب حیدرآبادی

     صاحب حیدرآبادی کا پورا نام سید مظفر الدین خاں ہے۔ 1917 ء میں تولد ہوئے اور 1987 میں انتقال کیا۔ 1971 ء میں سخن ور سخن کے عنوان سے رباعیات اور قطعات کا ایک مجموعہ شائع ہوا اور 1979 ء میں افق در افق کے عنوان سے رباعیات اور قطعات کا دوسرا مجموعہ بھی منظر عام پر آیا۔ رباعی اور اس کے فن سے انھیں گہری دلچسپی تھی۔ چنانچہ جنوبی ہند میں رباعی گوئی کے عنوان سے تقریباً 200 رباعی گو شعرا کا تذکرہ مرتب کیا۔ ان کی رباعی کا ایک نمونہ درج کیا جا رہا ہے :

جو نقش ہے وہ خاک کی ایک صورت ہے

ہر جلوہ میں ادراک کی اک صورت ہے

گلگشت میں کھلتا ہوا ہر ایک گلاب

میرے دلِ صد چاک کی ایک صورت ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے