Ad

ناصر کاظمی کی غزل گوئی

 
ناصر کاظمی کی غزل گوئی


ناصر کاظمی کی غزل گوئی

Nasir kazmi ghazal goyi

       ناصر کاظمی کے زندگی کے ان صبر آزما واقعات نے ان کی تخلیقی شخصیت کو گہرے طور پر متاثر کیا اور انھوں نے ایسے اشعار لکھے ، جو اس دور کی سماجی دہشت خیزیوں اور انتشار کا پتہ دیتے ہیں :
انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ 
یہاں جو حادثے کل ہوگئے ہیں 

رفتگاں کا نشاں نہیں ملتا 
اُگ رہی ہے زمیں پہ گھاس بہت 

بازار بند ، راستے سنسان ، بے چراغ
وہ رات ہے کہ گھر سے نکلتا کوئی نہیں 
     اپنے عہد کے حالات و واقعات کا ان پر گہرا دباؤ تو رہا لیکن انھوں نے اپنی شعری قوت کو ان سے مغلوب نہ ہونے دیا۔ اگر وہ ایسا کرتے تو ان کی تخلیقی حیثیت مشکوک ہو جاتی ۔ انھوں نے ان واقعات کو اپنے تخلیقی ذہن کو فعال بنانے کے لیے استعمال کیا ، یہی کام میر تقی میر اور غالب نے انجام دیا غالب نے غدر کے تاریخی آشوب سے اثر تو لیا مگر اپنی شاعری کو دوسرے معاصرین کی طرح شہر آشوب نہیں بنایا ۔
      ناصر کاظمی کی تخلیقی قوت کے بارے میں دو رائیں نہیں ہوسکتیں، ان کا سارا کلام پانچ مجموعوں "برگ نے" ، "دیوان" ، "نشاط خواب" ، "پہلی بارش"
ناصر نے خارجی زندگی کا سامنا کر کے خیلی طور پر اپنے تجربات کو لفظ و پیکر میں ڈھال دیا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ دوسرے معاصرین کی طرح خارجیت پسند نہ تھے ۔ وہ دروں بیں شاعر ہیں ۔ریستورانوں اور ہوٹلوں میں اپنے دوستوں سے گفتگو کرنے ، راتوں کو آوارہ پھرنے ، سماجی اور سیاسی حالات پر رائے زنی کرنے اور راہ چلتے لوگوں سے باتیں کرنے کے باوجود وہ ذہنی خلوت میں وقت گزارتے تھے اور فکر شعرِ میں گ
محو رہتے تھے۔ شاعری میں ان کی شخصیت کی جو پہچان ہے وہ ان کی سوانحی شخصیت سے الگ ہے ۔ ایلیٹ نے اس لیے کسی شاعر کی حقیقی شخصیت کو کوئی اہمیت نہ دی ہے ۔ شاعری میں جو شخصیت ابھرتی ہے ، وہ تنقید شعر کے حوالے سے قابل توجہ ہو جاتی ہے ۔ ناصر کاظمی کی شاعری میں جوشخصیت ابھرتی ہے ، وہ ایک نرالی اور منفرد شخصیت ہے ۔ یہ یکسانیت ، اکتاہٹ ، محروی اور یک رنگی سے ماورا ہے ، یہ ایک پہلودار ، متنوع اور حرکی شخصیت ہے ، یہ جذباتیت ،جمالیات ، تفکر اور خوابنا کی سے تشکیل پاتی ہے ۔ 
      بنیادی طور پر ناصر کی شعری شخصیت کی رنگارنگی اور تب و تاب کا محرک عشق ہے ۔ عشق ان کی تخلیقی قوت کو متحرک کرتا ہے ۔ وہ جذبۂ عشق سے سیراب ہیں مگر اس کو اپنے مخصوص تہذیبی اور سماجی ماحول سے الگ نہیں کرتے ، آسمانوں میں پرواز کرنے کے باوجود ان کے قدم زمین پر رہتے ہیں ۔ وہ جس محبوب کو چاہتے ہیں اس کی دوری کے شکوہ سنج اور اس کی قربت کے آرزو مند ہیں لیکن وہ قرب محبوب سے محروم ہیں ۔ اس کے نتیجے میں وہ دکھ اور کرب سے گزرتے ہیں اور جگر سوز کیفیت کو محسوس کر تے ہیں اس تناظر میں ان کا عشق جسمانی وصل کی آرزو تک محدود نہیں رہتا بلکہ ان کی شخصیت کی گہرائیوں میں اتر کر انسان کی ازلی خواہش یعنی طلب و آرزو میں ڈھل جاتا ہے ۔ اس طرح عشق ان کے ہاں ہمہ رنگ ہو جاتا ہے ۔ حسرت اور فراق کے یہاں عشق ، محبوب سے ہجر و وصال تک محدود رہتا ہے ، ناصر کے یہاں عشق انسانی رشتوں کی سچائی ، دل آویزی اور جذب و کشش کے ساتھ ساتھ شکست دل کے المیے میں ڈھل جاتا ہے۔

 
      ناصر کی عشقیہ شاعری جمالیاتی حس کی تشفی کرتی ہے ۔ قاری نسوانی حسن کی دل آویزی ، رنگ ، خوشبو اور لطافت کو محسوس کرتا ہے ، یہ ہوس پرستی کے بجائے حسیاتی لذت کا موجب بنتا ہے ، ساتھ ہی محبوبہ سے قرب یا دوری ہو ، معصومیت ، پاکیزگی اور جانثاری سے عاری نہیں ۔ در اصل ناصر کی شعری شخصیت مخصوص تہذیبی اور معاشرتی حالات کی پروردہ ہے ۔ عشقیہ رویے میں یہ اپنے مخصوص کلچر سے آب و رنگ حاصل کرتی ہے ۔ ذیل کے اشعار دیکھیے ، ان میں سماجی اور تہذیبی اقدار کا احساس ہوتا ہے :
یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آ رہی ہے ابھی 

آج تو وہ بھی کچھ خموش سا تھا 
میں نے بھی اس سے کوئی بات نہ کی 

آنکھ کھلی تو تجھے نہ پاکر
میں کتنا بے چین ہوا تھا 
     مندرجۂ بالا اشعار میں یاد کے بے نشاں جزیروں سے محبوب کی آواز سنائی دینا ، محبوب سے ملاقات ہونے پر دونوں کا خاموش رہنا ، آنکھ کھلنے پر محبوب کو نہ پانا جیسے واقعات مخصوص تہذیبی فضا کا احساس دلاتے ہیں۔ 
     عشق کا یہ تصور فطرت کی اشیا یعنی موسموں ، پرندوں ، پھولوں اور آنگنوں اور دیوار کے توسط سے نمایاں ہوتا ہے :
پھر ساون رُت پون چلی تم یاد آئے 
پھر پتوں کی پا زیب بجی تم یاد آئے
پھر کاگا بولا گھر کے سونے آنگن میں 
پھر امرت رس کی بوند پڑی تم یاد آئے
اردو میں بعض شعرا ایسے ہیں جو ہندستانی کلچر سے گہرے طور پر وابستہ رہے ہیں ان میں محمد قلی قطب شاہ ، نظیر اکبر آبادی اور فراق گورکھپوری نمایاں ہیں۔ ناصر کے معاصر شاعر میراجی نے ہندوستانی کلچر اور دیو مالا کے ساتھ ساتھ موسموں ، جنگلوں اور لوگوں سے رشتہ قائم رکھا تھا۔ ناصر کی شاعری کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ بر صغیر ہند و پاک کی مٹی سے جڑے ہوئے ہیں ، وہ زمین پر رہ کر موسموں ، رنگوں ، آوازوں اور خاموشیوں سے پیار کر تے ہیں ۔ وہ دوہوں ، بھجن ، گیت کے ساتھ ساتھ ، سماجی تہواروں اور تہذیبی رشتوں سے منسلک ہیں ۔ ذیل کے اشعار میں گلی ، دیا ، خالی کمرہ ، جنگل ، پیڑ اور پتے ایک دلچسپ تہذیبی فضا کو پیش کرتے ہیں۔
تیری گلی میں سارا دن
دکھ کے کنکر چنتا ہوں

میرا دیا جلاۓ کون
میں ترا خالی کمرہ ہوں

تو جیون کی بھری گلی
میں جنگل کا رستہ ہوں

ہم جس پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھا کرتے تھے
اب اس پیڑ کے پتے ، جھڑتے جاتے ہیں
       جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ، ان کے عشق کا ایک پہلو جمالیاتی نوعیت کا ہے ۔ یہ حسن ، دل کشی اور رنگینی کا مظہر ہے ۔ انتظار حسین کے ایک سوال کے جواب میں ناصر کہتے ہیں کہ ان کی طبیعت شروع سے عاشقانہ تھی:
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ناصر کاظمی کا عاشقانہ مزاج

      " میرے سارے ہی شغل کام بچپن سے ایسے ہی تھے جن کا تعلق تخلیق سے اور فون لطیفہ سے ہیں ، موسیقی ، شاعری ، شکار ، شطرنج ، جانور چرندوں پرندوں سے محبت کرنا یہ سب جو ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ میرا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ تھا۔‘‘
ان کے عاشقانہ مزاج نے شروع ہی سے ان کی حسیات کو متحرک کیا کے ہے ان کے نزدیک بقول کیٹس حسن مسرت کے مترادف ہے۔ ناصر کہتے ہیں :
      " شاعری میں نے شروع اس لیے کی کہ لگتا تھا کہ جو چیزیں میں فطرت میں خوبصورت دیکھتا ہوں وہ میرے اختیار میں یا بس میں نہیں آتیں اور نکل جاتی ہیں۔ " میں ان کو شاعری میں زندہ کرتا ہوں ، اس لیے عشق انھیں زندگی ، حسن اور مسرت سے آشنا کرتا ہے۔ اس طرح سے ان کا جمالیاتی احساس تب و تاب کرتا ہے :
چاند کی دھیمی دھیمی ضو میں 
سانولا مکھڑا کو دیتا ہے 

اک رخسار پہ زلف گرہ تھی
اک رخسار پر چاند کھلا تھا 

چندر کرن سی انگلی انگلی
ناخن ناخن ہیرا سا تھا
 

ماضی کی یادیں شاعری

    ناصر کاظمی کی شاعری کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ ماضی کی یادوں کو بھلا نہیں سکتے ۔ کئی شعر ایسے گزرے ہیں جو ماضی سے ذہنی اور جذباتی رشتہ رکھتے ہیں اور حال کے انتشار اور درد و کرب سے نجات پانے کی سعی کرتے ہیں۔ اقبال کے یہاں ماضیت " کھائیں ہوؤں کی جستجو " بن جاتی ہے۔
کیٹس عہد وسطی کے رنگین محلوں اور خوب صورت عورتوں کی طرف مراجعت کرتا ہے۔ غالب کو بھی ماضی سے لگاؤ ہے ۔
یاد تھی ہم کو بھی، رنگا رنگ بزم آرائیاں،

وہ بادۂ شبانہ کی سر مستیاں کہاں،
ناصر کے یہاں " پرانی صحبتیں " احساس زیاں کو جنم دیتی ہیں :
پرانی صحبتیں یاد آرہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے

آنکھوں میں چھپائے پھر رہا ہوں 
یادوں کے بجھے ہوئے سویرے 


ناصر کاظمی اداس شاعری

Nasir kazmi sad poetry

       ناصر کے یہاں " پرانی صحبتیں " احساس زیاں پر منتج تو ہوتی ہیں مگر وہ مکمل طور پر مایوسی کے شکار نہیں ہوتے وہ " اداس اداس " تو پھرتے ہیں مگر اس امید سے دست بردار نہیں ہوتے کہ کبھی نہ کبھی رفتگاں کا سراغ مل ہی جائے گا ، یہ رویہ رومانی آرزو مندی کو جنم دیتا ہے ۔
مل ہی جائے گا رفتگاں کا سراغ 
اور کچھ دن پھرو اداس اداس 
       " غور سے دیکھیں جائے تو یہ رومانوی آرزو مندی ہے جو کبھی اداسی تو کبھی جستجو ، کبھی مہم پسندی تو کبھی خواب آفرینی ، کبھی محبوب سے ملاقات اور کبھی شہر نگاراں کی تلاش کی صورت اختیار کرتی ہی۔ " ( حامد کاشمیری "ناصر کاظمی کی شاعری" )
یہاں اک شہر تھا شہر نگاراں 
نہ چھوڑی وقت نے جس کی نشانی

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے

کرن پریاں اترتی ہیں کہاں سے
کہاں جاتے ہیں رستے کہکشانی

خوشبوؤں کی اداس شہزادی
رات مجھ کو ملی درختوں میں 
      لیکن ناصر کاظمی کی رومانیت دیر پا ثابت نہ ہوئی ۔ وہ اختر شیرانی کی طرح دور افتادہ بستیوں میں آسودہ نہ رہے ۔ وہ عصری آشوب کا سامنا کرتے رہے۔ ان کے شعور میں بیداری ہے ۔ وہ رومانی قدروں کے زوال سے آشنا تھے۔ وہ انتشار ، تنہائی اور محرومی کا سامنا کرتے رہے ۔ انھیں احساس تھا کہ شہر سنسان اور بے چراغ ہوگئے ہیں ، دیواریں خون سے شفقی ہوگئی ہیں ، خالی کمرے چیخ رہے ہیں :
شہر سنسان میں کدھر جائیں 
خاک ہوکر کہیں بکھر جائیں 

شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی

شفقی ہوگئی دیوار خیال
کس قدر خون بہا ہے اب کے

چیخ رہے ہیں خالی کمرے 
شام سے کتنی تیز ہوا ہے
    محرومی کا احساس اپنی شدید صورت میں خوف و دہشت کی کیفیت پیدا کرتا ہے ۔ ناصر کی شاعری میں خوف کی ایک پر اسرار فضا ملتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :
آج تو یوں خاموش ہے دنیا
جیسے کچھ ہونے والا ہے 

!کھٹکا ہے جدائی کا ، نہ ملنے کی تمنا
دل کو ہیں مرے وہم و گماں اور زیادہ 
      اس میں شبہ نہیں کہ ناصر کاظمی کو جدید غزل کے ارتقا میں ایک اہم مقام حاصل ہے ، ان کا شعری اسلوب ایک جدا گانہ رنگ رکھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تخلیقی شاعری میں ان کی الگ پہچان ہے ۔ ان کا اسلوب سادگی ، خلوص اور تازگی سے پہچانا جاتا ہے ۔ ان کے اشعار بجلی کی طرح کوندتے ہیں اور آس پاس کی فضا کو منور کرتے ہیں :
اے فلک بھیج کوئی برق خیال
کچھ تو شامِ شب ہجراں چمکے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے