Ad

ناصر کاظمی کے حالات زندگی

 

ناصر کاظمی کے حالات زندگی


    فراق گورکھپوری کے بعد ناصر کاظمی نے اردو غزل کو نیا موڑ دیا ۔ اس اکائی میں ناصر کاظمی کے حالات زندگی بیان کیے جائیں گے ۔ ناصر کاظمی کی غزل گوئی کی امتیازی خصوصیات پر روشنی ڈالیں گے ۔ آپ کے مطالعے کے لیے پارنتخب غزلیں پیش کی جارہی ہیں ۔دو اشعار کی تشریح کی جائے گی ۔اس اکائی کا خلاصہ پیش کیا جاۓ گا۔ 


ناصر کاظمی کے حالات زندگی

Nasir kazmi halat e zindagi

      میر کاظم کا نام سید ناصر رضا تھا۔ ان کا سلسلہ نسب امام موسیٰ کاظم کے توسط سے حضرت علی ابن طالب تک پہنچا ہے۔ وہ دسمبر 2005 کو اپنے نانا کے مکان کنیر منزل ، محلہ قاضی واڑہ ۔ انبالہ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے دادا سید شریف الحسن پولس انسپکٹر تھے ۔ نصیر پور ، مگر پورہ اور راج گڑھ میں ان کی زمینداری تھی ۔ ناصر کاظمی کے والد سید محمد سلطان نے اسلامیہ کالج ، لاہور میں بی ۔اے تک تعلیم پائی تھی ۔ تحصیل دار اور سب انسپکٹر پولس ہوئے پھر محکمہ سپلائی فوج میں ملازم ہوئے ۔ جنرل ٹائسن کے دفتر میں صوبہ دار میجر رہے ۔ نمازی ، پرہیز گار اور عابد شب زندہ دار تھے ۔ 29 مئی 1949ء کو جگر اور معدے کی بیماری سے انتقال کر گئے ۔ ناصر کاظمی کی والد کنیر محمدی سینیر جماعت کامیاب کر کے مشن گرلز اسکول میں معلمہ ہوئیں ۔ ادب اور شاعری کا اچھا ذوق تھا ، نمازی اور رحم دل خاتون تھیں ۔ 26 ستمبر 1949 کو دماغ کے عارضے سے وفات پائیں ۔ ناصر کاظمی کے دو بھائی حامد حسین اور عنصر رضا تھے۔

ناصر کاظمی کی تعلیم 

     ناصر کاظمی نے پانچویں جماعت تک والدہ کے زیرِ سایہ مشن گرلز اسکول میں تعلیم پائی ۔ 13 برس کی عمر میں گلستان ، بوستان ، شاہنامۂ فردوسی ، قصہ چہار درویش ، فسانہ آزاد ، الف لیلی ، صرف ونحو اور شاعری کی کئی کتابیں پڑھ لیں ، نیشل ہائی اسکول پشاور میں پانچویں اور چھٹی جماعت کی تعلیم حاصل کی۔ پشاور میں وزیر باغ ، شاہی باغ ، اور قلعہ اکبر ان کی سیر گاہیں تھیں جہاں وہ چڑ یا ، چمونے ، تو تے وغیرہ پکڑا کرتے ۔ ناصر کاظمی کو بچپن سے کبوتر پالنے کا شوق تھا۔ کبوتروں کے بارے میں غیر معمولی معلومات رکھتے تھے ۔ دور دور سے رئیس ان کے کبوتروں کو دیکھنے آ تے ۔ انبالہ سے ہجرت کے وقت ناصر کاظمی نے تمام کبوتر باوا سنت سنگھ رئیس انبالہ کو دے دیے۔ لاہور میں ان کا یہ شوق پھر تازہ ہوا اور تا دمِ مرگ قائم رہا۔ ناصر کاظمی کو گھوڑ سواری کا بھی شوق تھا گھوڑے پر انھوں نے دور دراز شہروں کی سیر کی۔

       ناصر کاظمی نے ساتویں اور آٹھویں جماعت ڈی ۔ بی ۔ مڈل اسکول ڈگشائی سے پاس کیا۔ نویں اور دسویں کی تعلیم مسلم ہائی اسکول انبالہ میں حاصل کی۔ ناصر کاظمی کو اسکول کا طریقہ تعلیم پسند نہ تھا اس لیے اکثر وہ اور ان کے دوست محمد علی اور افتخار اسکول سے بھاگ کر پھلوں کے باغ اجاڑتے پھرتے ۔

     ناصر کاظمی کو موسیقی سے بہت رغبت تھی ۔ ایک دفعہ ستار اور سارنگی سیکھنے کی کوشش کی لیکن کالج میں داخلے کی وجہ سے یہ خواہش پوری نہ ہوسکی ۔

ان کی خالہ صغرا بی بی ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں کھتی ہیں :

" اس ( ناصر ) کو تجربہ کے زریعے بجلی بنانا ، ہوائی جہاز بنانے وغیرہ کا شوق تھا " 

ناصر کو پڑھنے کا زیادہ شوق نہ تھا صغرا بی ہی لکھتی ہیں :

" ہم نے اس کو کبھی نہیں دیکھا کہ وہ پڑھ رہا ہو، اسکول جاتا تو حاضری لگوا لیتا اور دیوار پھاند کر وہ  اور اس کا دوست

افتخار بھاگ جاتے ، کبھی کسی باغ میں جا کر پیر کے درخت پر چڑھ کر بیر تو ڑ تے تو بھی امرود کے درخت پر چڑھ کر امرود کھاتے "

     ناصر بی۔اے میں پڑھ رہے تھے کہ ملک تقسیم ہوا ، تعلیم کے ساتھ ہی ہجرت اور بے گھری کے مسائل پیدا ہوئے ، خوں ریزی اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوا ، ناصر اور ان کے والدین انبالہ میں اپنے گھر بار کو چھوڑ کر آگ اور خون کے دل سوز مناظر سے گزر کر لاہور گئے ، اپنے وطن کی یادوں کو وہ بھلا نہ سکے :

انبالہ ایک شہر تھا ' سنتے ہیں اب بھی ہے 

میں ہوں اسی لئے ہوۓ قربے کی روشنی 

ناصر کاظمی کی غزل گوئی

      ترک وطن کرنے کے ساتھ ہی وہ اپنے بچپن اور لڑکپن کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ۔ ان کے والد فوج میں تھے ، ان کے ساتھ انھیں کئی مقامات اور علاقوں کو دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ بچپن سے ہی انھیں گھڑ سواری ، شکار کھیلنے ، دیہات میں گھومنے ، دریاؤں اور پہاڑوں کی سیر کرنے کا شوق تھا۔ ان مشاغل کے علاوہ ناصر کو فطرت کے نظاروں سے لگاؤ پیدا ہوا۔ وہ پرندوں ، پھولوں اور درختوں کوشوق سے دیکھتے ۔ وہ اپنے معاشرے سے حد درجہ مانوس تھے ۔ یہ معاشرہ گھر ، گھر کے افراد ، سیدھے سادے لوگوں ، دوستوں ، نیک اور دردمند رشتہ داروں پر مشتمل تھا۔ ناصر اس معاشرے کو " سرسوں کے پھول " سے موسوم کرتے تھے ۔ اس لیے کہ یہ ایک موسم ، ایک رنگ اور ایک تہذیب کی نشانی ہے ۔ انبالہ میں انھوں نے لا ابالی زندگی گزاری تھی ، پڑھائی سے دور بھاگتے تھے مگر جب سالانہ امتحان کا نتیجہ نکلتا تو ناصر اول آ تے اور اکثر دوست فیل ہو جاتے ۔

ناصر کاظمی کی ہجرت

      پاکستان میں انھوں نے پھٹے حالوں قدم رکھا ، بقول صغرا بی بی " ایک دو بستر اور بکسوں کے سوا کچھ نہ لا سکے جس تکیے کے غلاف میں نقدی نوٹ سی رکھے تھے ، وہ بھی اس وقت راستے میں گم ہو گیا لاہور میں وارد ہوکر وہ ایک عالیشان کوٹھی میں رہنے لگے لیکن دو ماہ کے بعد حکام نے وہ کوٹھی خالی کروائی ۔ بے سرو سامانی تھی ہی اب بے گھری کا مسئلہ بھی تھا، آخر کافی دوڑ دھوپ کے بعد پرانی انارکلی میں ایک مکان ملا ، والد ہجرت کا صدمہ جھیل چکے تھے ، وہ ریٹائر ہوئے تھے اور جلد ہی وفات پاگئے ۔ ناصر کاظمی کے لیے اب آزمائش کا زمانہ تھا گریجویشن کرنے سے رہ گئے تھے ، مالی دشواریاں بڑھتی جارہی تھیں کچھ دیر تک والدہ کے زیورات بیچ بیچ کر گزرا کرتے رہے ۔ ناصر کاظمی کو پائیلٹ بنے کا شوق تھا۔ اس کے لیے انھوں نے R.I.A.F کا امتحان دیا ۔ وہ امتحان میں کامیاب ہوئے لیکن طبی معائنے کے بعد انھیں رد کر دیا گیا ۔ اس سخت مر حلے پر جب کہ سرکاری ملازمت کا ملنا ممکن نہ تھا ناصر کا ادبی ذوق کچھ کام آیا ، انہیں ریڈیو میں ملازمت ملی اور اور "اوراق نو"، ’’ہمایوں‘‘ اور ’’خیال‘‘ کی ادارت کر تے رہے ۔

ناصر کاظمی کی شاعری کا اسلوب

     29 مئی 1949 ء کو ناصر کاظمی کے والد کا انتقال ہوا۔ 6 ستمبر 1949 ءکوخیال کی ادارت کے بعد ولیج ایڈمیں ملازمت کی ۔ محکمہ ایگریکلچرل انفرمیشن میں ٹریننگ اسپیشلسٹ کی حیثیت سے دو سال کا کیا۔ 22 جون 1964 ء کو ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ پھر یکم اگست 1964 ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے منسلک ہوے ۔ مارچ 1971 ء سے ناصر کاظمی کی صحت بگڑنے لگی۔ کئی بار ہاسپٹل میں شریک ہوئے ۔ آخر 2 مارچ 1972 ء کو روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ ناصر کاظمی کے دو بیٹے ہیں : باصر رضا اور حسن رضا۔ 

       ناصر کاظمی مذہبی آدمی تھے ۔ اپنی ڈائری میں انھوں نے اپنے عقائد کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے :

       " مذہب میرا شاعری ہے اور قبیلہ میرا ہاشمی ہے ۔ دین میرا اسلام ہے اور کتاب قرآن پاک ہے جو میرے جد امجد شافع محشر سرکار رسالت ختمی مرتبت نبی آخرالزماں حضرت محمف مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ پیر طریقت میرا جد اعلی امام اول علی مرتضی ہے اور مورث اعلی میرا علی کا لخت جگر امام ہفتم حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ہیں جن کے خلف حضرت حسن الخاطب میرے جد اعلی ہیں ۔ علی کا شیعہ ضرور ہوں مگر میرے عقیدے میں نہ تبرّے کو کوئی دخل ، نہ تقیے کو۔ میرے دوست وہی ہیں جو خدا کے دوست ہیں ۔انبیا کے دوست ہیں ، حضور پاک کے دوست ہیں ، علی کے دوست ہیں اور ائمہ اطہار کے دوست ہیں ۔‘‘

     ناصر کاظمی رمضان کا پورا مہینہ قرآن پاک کی تلاوت کرٹے تھے ۔

      ناصر کاظمی کی زندگی کے ان چند واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تمام عمر مختلف مصائب کا سامنا کرتے رہے ۔ ایک مخصوص تہذیبی فضا میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے کی بنا پر ان کی ذہنی اور نفسیاتی زندگی ایک خاص رنگ میں رنگی ہوئی تھی ۔ وہ سادہ ، معصومانہ اور تعمیری زندگی گزار نے کے لیے پیدا ہوئے تھے لیکن تقسیم اور فسادات نے ان کے ارمانوں اور خوابوں کو تہس نہس کر ڈالا ۔ انھیں اپنا گھر چھوڑ کے ایک نئے ملک میں اجنبی بن کر جینا پڑا۔ وہ اجڑتے شہروں ، جلتے گھروں اور سڑتی لاشوں سے گزرے اور لاہور میں سنھیں اکیلے پن اور تنہائی کا سامنا تھا۔ انھوں نے زندگی کا بڑا حصہ بے روز گاری ، آورگی اور لاپروائی میں گزارا ۔ شب گردی ان کا خاص مشغلہ تھی ۔ نوجوان ادیب اور شاعر انھیں گھیرے رہتے ۔ 7 جولائی کو ناصر کاظمی کی شادی سید انوار الحق صاحب کی دختر شفیقہ بانو سے ہوئی۔ حفیظ ہوشیار پوری نے تاریخ کہی :

شاعر شہر طرب شاداں شدہ

      ان دنوں ناصر کاظمی رسالہ ہمایوں کے مدیر تھے۔ شادی کے بعد ان کی شب گردی کا سلسلہ کچھ کم ہوا۔ ناصر کاظمی کو مطالعے کا شوق تھا ۔ انھوں نے مغربی زبانوں کے شعر و ادب کے علاوہ نفسیات اور فلسفے کا بھی غائر نظر سے مطالعہ کیا تھا۔ وہ ادب اور فلسفے کے مسائل پر غور و خوض کرتے اور ان کے بارے میں تبادلۂ خیال کرتے ۔ انتظار حسین ،حنیف رامے ، حفیظ ہوشیار پوری، احمد مشتاق ، غالب احمد ، اختر محمود ، شیخ سعید اختر ، سجاد باقر رضوی ، سعید احمد ، مظفر علی سید اور شیخ صلاح الدین ، ناصر کاظمی کے خاص دوستوں میں شامل تھے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے