Ad

جوش کی منتخب رباعیاں تشریح و خلاصہ


جوش کی منتخب رباعیاں

URDUSYLLABUS

جوش کی منتخب رباعیات

JOSH KI MUNTAKHIB RUBAIYAN


کاکل کھل کر بکھر رہی ہے، گویا

نرمی سے گزر رہی ہے ، گویا

آنکھیں تری جھک رہی ہیں مجھ سے مل کر

دیوار سے دھوپ اتر رہی ہے گویا


جوش ملیح آبادی کی انقلابی نظمیں 

آغاز ہی آغاز ہے اور کچھ۔ بی نہیں

انجام بس اک راز ہے اور کچھ بھی نہیں

کہتی ہے جسے نغمۂ شادی دنیا

اک کرب کی آواز ہے اور کچھ بھی نہیں


اے عمر رواں کی رات آہستہ گزر

اے ناظر کائنات آہستہ گزر

اک شئے پہ بھی جمنے نہیں پاتی ہے نظر

اے قافلۂ حیات آہستہ گزر


ایک رباعی کی تشریح

RUBAI KI TASHREEH

کاکل کھل کر بکھر رہی ہے، گویا

نرمی سے گزر رہی ہے ، گویا

آنکھیں تری جھک رہی ہیں مجھ سے مل کر

دیوار سے دھوپ اتر رہی ہے گویا


یہاں جس واقعے پر شاعر نے رباعی کی عمارت کھڑی کی ہے وہ اس رباعی کا تیسرا مصرع ہے یعنی :

آنکھیں تری جھک رہی ہیں مجھ سے مل کر

ترقی پسند اور انقلابی شاعر 

شاعر کا محبوب اس کے سامنے آیا تو شرم و حجاب کے سبب محبوب، شاعر سے آنکھیں نہیں ملا سکا اور اسکی آنکھیں جھک گئیں۔ شاعر کو محبوب کے آنکھیں جھکانے کا یہ منظر اتنا حسین لگا کہ اس نے اس منظر کو تین مختلف تشبیہات کے ذریعے رباعی کے پہلے ، دوسرے اور چوتھے مصرع میں بیان کر دیا ۔ ان تینوں مصرع میں ' گویا ' کی ردیف اسی بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔

رباعی کا چوتھا مصرع عام طور پر اس کی جان ہوا کرتا ہے ۔ اس اعتبار اس رباعی کا سب سے خوبصورت مصرع تو ' دیوار سے دھوپ اتر رہی ہے گویا ' ہی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شاعر نے دیوار سے آہستہ آہستہ دھوپ اترنے کے پر کیف منظر کو اکثر دیکھا ہو اور آپ ے ذہن میں اس پر کیف منظر کو تشبیہہ کے طور پر محفوظ کر لیا ہو تا کہ وہ ااس تشبیہ کو کسی حقیقی واقعے پر منطبق کر سکے اور اس رباعی میں شاعر کا یہ خواب پورا ہوگیا۔


خلاصہ


دوسری اصناف سخن کی طرح رباعی بھی فارسی ہی سے اردو میں آئی ۔ اردو میں رباعی گوئی کو وہ اہمیت نہیں دی گئی ، جس کی وہ مستحق ہے۔ اگر چہ دکنی ادب میں بھی رباعیاں مل جاتی ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ شمالی ہندوستان میں رباعی گوئی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ خواجہ میر درد، مرزا محمد رفیع سودا، میر انیس اور مرزا دبیر نے خاصی تعداد میں رباعیاں کہیں اور اس فن میں کمال حاصل کیا۔ رباعی گوئی کی طرف ہمارے بڑے شاعروں نے توجہ کی لیکن اردو کی دوسری اصناف سخن مثلا غزل، قصیدہ، مثنوی، مرثیہ وغیرہ صنف رباعی کے راستے میں ہمیشہ رکاوٹ بنی رہیں۔ 

بیسویں صدی میں اردو شاعروں نے خاصی تعداد میں رباعیاں کہیں۔ بعض شاعروں نے اتنی تعداد میں رباعیاں کہیں کہ وہ کتابی صورت میں شائع ہوئیں۔ جوش کی رباعیوں کے دو مجموعے ' جنون و حکمت ' اور ' نجوم و جواہر ' شائع ہوئے۔ فراق گورکھپوری کی رباعیاں ' روپ ' اور جاں نثار اختر کی رباعیاں ' گھر آنگن ' اور امید حیدرآبادی کی رباعیاں ' رباعیات امجد ' کے نام سے شائع ہوئیں۔ ان شاعروں کے علاوہ جگت موہن لعل رواں ، افق لکھنوی ، یگانہ چنگیزی ، سیماب اکبر آبادی اور فانی بدایونی اور کئی شاعروں نے رباعیاں کہی ہیں۔

جوش کی بیشتر رباعیاں فکر انگیز و بصیرت افروز ہیں اور زنگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتی ہیں۔ زبان پر جوش کی غیر معمولی قدرت نے ان رباعیوں کو بہت خوب صورت اور دل آویز بنادیا ہے۔۔

جوش کی رباعیوں کو اردو شاعری میں ایک اہم اضافہ سمجھا جاتا ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے