Ad

جوش ملیح آبادی کی شاعری میں شراب نوشی کا رنگ

 

جوش کی شاعری میں شراب کا رنگ

جوش کی شاعری میں شراب نوشی کا رنگ 

اردو میں کہی جانے والی بیش تر رباعیوں کا موضوع ہی شراب ، عیش و عشرت اور دنیاوی لذت ہے۔ اردو کے اکثر رباعی گو شعرا نے خمریات کے مضامین کثرت سے باندھے ہیں۔ جوش تو خود مے نوش تھے ، اس لیے کیسے ممکن تھا کہ وہ مزے لے لے کر رباعی میں شراب اور اس کے لوازمات کا بیان نہ کرتے۔ اس موضوع پر ان کی چند رباعیاں ملاحظہ ہوں :


شعر شراب و مستی

کیا شیخ ملے گا گل فشانی کرکے

کیا پائے گا توہین جوانی کرکے

تو آتش دوزخ سے ڈراتا ہے انھیں

جو آگ کو پی جاتے ہیں، پانی کرکے


ہوشیار کہ دل سے تاب و تب جاتی ہے

آغوش سے لیلائے طرب جاتی ہے

ساقی غم صبح و فکر فردا تاکے

دینا ہے تو دے جام کہ شب جاتی ہے


رات گئے عین طرب کے ہنگام

پر تو یہ پڑا پشت سے، کس کا سر جام

یہ کون ہے ؟ جبریل ہوں ، کیوں آئے ہو ؟

سرکار ! فلک کے نام کوئی پیغام ؟


باغوں پہ وہ چھاگئی جوانی ساقی

انکی وہ ہوائے زندگانی ساقی

ہاں جلد انڈیل جلد، بہتی ہوئی آگ

آیا وہ برستا ہوا پانی ساقی


ساقی مجھ کو رواں دواں جانا ہے

اس بزم سے کل کشاں کشاں جانا ہے

بہتر ہے کہ پہلے ہی سے جاتے رہیں ہوش

جب یہ نہیں معلوم کہاں جانا ہے


ساقی ! کوئی اس سے بڑھ کے نہ ہوگی بدی

خود دیکھ کہ حالت ہے مری کتنی ردی

اک آن کو تو نے ہات روکا مے سے

اور غم کی یہاں گزر گئی ایک صدی


یہ ولولہ ، یہ شباب ، اللہ اللہ

یہ نہر ، یہ ماہتاب ، اللہ اللہ

کل تک تو فقط شراب کا بندہ تھا میں

اور آج ہوں خود شراب اللہ اللہ !!


جوش کی بعض رباعیاں بالکل عمر خیام کے رنگ میں ہیں۔ ان رباعیوں کے مضامین عمر خیام کی رباعیوں سے بہت متاثر نظر آتے ہیں۔ ایسی چند رباعیاں ملاحظہ ہوں :

جوش کی رباعی 

کچھ بھی نہیں دنیا میں سوائے دنیا

کہنا نہ پڑے قبر میں ہائے دنیا

دنیا کے مزے اٹھالے اے زمانۂ خراب

قبل اس کے تری لاش اٹھالے دنیا


ساقی غمِ بیش و کم سے مرتا کیوں ہے

میں رندِ بلا نوش ہوں ، ڈرتا کیوں ہے

تو کون و مکاں کو رکھ شانے پہ مرے

اور میں کہوں رکھ ، مذاق کرتا کیوں ہے


رباعیوں میں جوش کا ایک اہم موضوع حسن و عشق بھی ہے۔ جوش کے انداز بیان نے ان رباعیوں کو بہت خوب صورت بنا دیا ہے۔ دو تین رباعیاں ملاحظہ ہوں :


گھیرے رہو میرے غم گساروں مجھ کو

میں ڈوبنے والا ہوں، ابھارو مجھ کو

فرقت کی ابھی ہیں ابتدائی راتیں

خلوت میں نہ بیٹھنے دو یارو مجھ کو


کیا آج تعارف میں لجایا کوئی

کیا جانیے کیوں سنبھل نہ پایا کوئی

میں نے جو کہا ؛ جوش مجھے کہتے ہیں

آنکھوں کو جھکا کے مسکرایا کوئی !


جانے والے قمر کو روکے کوئی

شب کے پیکِ سفر کو روکے کوئی

تھک کر میرے زانو پہ وہ سویا ہے ابھی

روکے ، روکے ، سحر کو روکے کوئی


مرضی ہو تو سولی پہ چڑھانا یارب

سو بار جہنم میں جلانا یارب

معشوق کہیں " آپ ہمارے ہیں بزرگ

ناچیز کو یہ دن نہ دکھانا یارب


جوش نے ایسی بہت سی نظمیں کہی ہیں جن میں اعلی ترین منظر نگاری کی گئی ہے۔ رباعیوں میں بھی جوش نے اپنی منظر نگاری کی صلاحیتوں سے کام لیا ہے۔ برسات کا موسم ہے ، حبس کا عالم ہے۔ اس کی عکاسی جوش اس انداز میں کرتے ہیں :

URDUSYLLABUS

برسات کا حبس ، چمن ہے بے ہوش

شاخوں میں لچک ہے ، نہ ہواؤں میں خروش

آپس میں ہے بات چیت گویا موقوف

اس طرح کھڑے ہیں ، پودے خاموش


سمجھاؤں کن الفاظ میں تم کو ہم راز

اللہ رے سحر کے وقت کا گداز

اس طرح چٹکی ہیں چمن میں کلیاں

اطفال کی ہچکیوں کی جیسے آواز

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے