Ad

جوش کی رباعی میں حقیقت نگاری


جوش ملیح آبادی کی رباعی میں حقیقت نگاری

جوش ملیح آبادی کی رباعی میں حقیقت نگاری

Josh malih aabadi ki rubai 

جوش کا تعلق ایک غیر معمولی دولت مند خاندان سے تھا۔ جوش کے پر دادا نواب محمد احمد خاں احمد کی حالت یہ تھی کہ بقول جوش ان کی پچیس تیس بیویاں تھیں۔ ان میں سے چار نکاحی تھیں اور باقی سب لونڈیاں باندیاں تھیں۔ جوش نے ان کی عیاشی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دادا میاں کو عورتوں سے فرصت ہی کب ملتی تھی کہ وہ اپنے علاقے کی نگرانی اور ضلع داروں سے حساب فہمی کرتے، اس لیے تمام کارندوں نے خوب جی بھر کر جاگیر کو کوٹا۔ جوش کے والد اپنے باپ یعنی جوش کے دادا پر نہیں گئے۔ وہ بہت خدا پرست، نیک، شریف اور مہذب انسان تھے۔ ان کی سرکار سے سیکڑوں بیواؤں، یتیموں اور بوڑھوں کو ماہانہ وظائف ملا کرتے تھے۔ جوش کو وراثت میں اپنے دادا اور والد دونوں کی خوبیاں اور خصوصیت ملی تھیں۔ جب تک جوش کے پاس دولت تھی، وہ بہت فیاض اور غریب نواز رہے اور ان کی زندگی عیش و عشرت میں گزری لیکن جب ان کے پاس دولت ختم ہوگئی تو ان کی غریب نوازی کا اظہار ان کی شاعری میں ہونے لگا۔ ان کا تعلق جاگیرداری خاندان سے تھا۔ ان کی پرورش جاگیرداری ماحول میں ہوئی۔ انہوں نے اس ماحول میں غریبوں پر ظلم و ستم ہوتے دیکھا تھا، اس لئے وہ جاگیرداری نظام کے سخت مخالف ہوگئے۔ ان کے اس ذہنی رویے کا بھرپور اظہار ان کی نظموں اور رباعیوں میں ہوا ہے۔ اس موضوع پر جوش کی چند رباعیاں ملاحظہ ہوں :

جوش کی رباعی

ہر صبح ہے شام، بے نوا کے آگے

ہر نغمہ ہے فریاد گدا کے آگے

مفلس کا وہی حال ہے بندوں کے حضور

مشرک کی جو حالت ہے خدا کے آگے


جوش کا خیال ہے کہ اگر غریبی اور مفلسی مسلسل جاری رہے تو انسان تمام اخلاقی قدروں کو چھوڑ دیتا ہے۔ اعلی ترین اخلاقی خوبیوں کے مالک انسان کی فطرت میں بھی ذلالت اور کمینگی آجاتی ہے۔ اگر غریبی ہو تو انسان خدا کے قریب آنے لگتا ہے اور اگر یہ مسلسل ہو جائے تو خدا سے قریب آنا تو کیا انسان خدا کی ذات سے بھی منکر ہو کر کافر ہو جاتا ہے۔ اب یہ رباعی ملاحظہ ہو:


ہر صاحب جوہر کو سبک سر کردے

فطرت کو زبوں کرکے زبوں تر کردے

افلاس کو کھینچتا ہے ایماں کی طرف

کم بخت مسلسل ہو تو کافر کردے


ایک اور رباعی میں جوش غربت کا حال پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں اگر غریبی ہو تو صبح کی روشنی بھی رات کی تاریکی میں بدل جاتی۔ غریب کی اپنے سماج کے لوگوں کے سامنے وہی حالت ہوتی ہے جو خدا کے سامنے مشرک کی ہوتی ہے یعنی جس طرح مشرک خدا کے سامنے اپنے گناہوں کے احساس سے شرمندہ رہتا ہے۔ اسی طرح ایک غریب، دولت مندوں کے سامنے شرم سے نگاہیں جھکائے رہتا ہے۔ جوش کہتے ہیں:


کچھ اس کے نہیں خلاف ہونے والا

مطلع یہ نہیں ہے صاف ہونے والا

ہاں مل کر رہے گی تنگ دستی کی سزا

یہ جرم نہیں معاف ہونے والا


جوش غریبوں کی طاقت و توانائی سے خوب واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر ایک دن غریب اپنی ہمت اور حوصلے کے بل پر ظالموں کے خلاف تلوار لے کر کھڑے ہوگئے تو وہ ظالموں کا ستھراؤ کردیں گے۔ جوش کی رباعی ہے:


اس ظاہری صورت پہ غریبوں کی نہ جاؤ

کردیں گے یہ امیروں کا یہ ایک دن ستھراؤ

دل سے جو ٹپکی ہیں لہو کی بوندیں

ہر بوند میں ہوتا ہے سمندر کا ڈباؤ


رباعی میں ظلم و جبر کے خلاف باغیانہ انداز ہے۔ انہوں نے انقلاب کے زبردست نعرے بلند کیے ہیں۔ انگریزوں کے خلاف ایسی انقلابی نظمیں کہی ہیں کہ انھیں سن کر معلوم ہوتا ہے جیسے آگ کے شعلے بلند ہورہے ہیں۔ رباعی میں انہوں نے جہاں ایسے مضامین بیان کیے ہیں ، ان کا لب و لہجہ قدرے نرم ہے۔ یہ رباعی ملاحظہ ہو:


خونیں چشمے ابل رہے ہیں، یارب

خنجر سینوں میں چل رہے ہیں، یارب

تجھ کو بھی خبر ہے کہ تری دنیا میں

چھوٹوں کو بڑے نگل رہے ہیں یارب


جوش نے اردو شاعری کے کچھ روایتی مضامین کو اپنا کر انھیں اپنے مخصوص انداز میں اس طرح پیش کیا ہے کہ ان میں تازگی، جدت اور شگفتگی پیدا ہوگئی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ مضمون خود جوش کی اپنی جدت طبع کا نتیجہ ہے۔ جوش کہتے ہیں:


کھلتے ہی گلاب خار ہو جاتا ہے

ہنستے ہی بس اشک بار ہو جاتا ہے

پیدا ہوتے ہی تیرہ قسمت انساں

اے موت! ترا شکار ہو جاتا ہے

جوش کی نظم نگاری میں حقیقت 

اسی موضوع پر جوش کی ایک رباعی ہے جس میں انھوں نے بے ثباتی دنیا کا مضمون بہت خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے جوش پھول کی کلی سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ اے کلی تری زندگی پر مجھے ہے ترس آتا ہے۔ بس ایک تبسم کے لئے کھلتا ہے یعنی پھول کھلتا ہے اور کچھ دیر کے بعد مرجھا جاتا ہے۔ کلی نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے کہ پھولوں کی زندگی بس ایک تبسم تک ہے یع ی پھول کھلتے ہی مرجھا جاتا ہے۔ مگر چمن میں ایک تبسم بھی کتنی کلیوں کو نصیب ہوتا ہے۔ جوش کہتے ہیں:


غنچے تری زندگی پہ دل ہلتا ہے

بس ایک تبسم کے لیے کھلتا ہے

غنچے نے کہا ہنس کے چمن میں بابا

یہ ایک تبسم بھی کسے ملتا ہے


بے ثباتی حیات پر جوش کی ایک رباعی ہے، جس میں جوش کہتے ہیں کہ زندگی اتنی مختصر ہے اور زندگی کا افسانہ سنانے والے کا اس دنیا میں قیام اتنا مختصر ہے، اس سے پہلے کہ سنانے والا زندگی کا پورا افسانہ سنائے، وہ اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ وہ رباعی ہے:


افسوس کہ کوئی کام ہوتا ہی نہیں

جی بھر کے یہاں قیام ہوتا ہی نہیں

سننے والے تمام ہو جاتے ہیں

افسانہ مگر تمام ہوتا ہی نہیں


جوش نے رباعیوں میں بہت دل چسپ مضامین بیان کیے ہیں۔ مثلا ایک دوست نے شرافت کی تعریف کی تو انھوں نے جواب دیا کہ تم کو مجھ میں جو شرافت نظر آتی ہے، یہ میری اپنی خصوصیت یا خوبی نہیں بلکہ اس شرافت کی وجہ میری ناتوانی اور کمزوری ہے۔ جوش کہتے ہیں:


تعریف نہ کر رفیق جانی میری

پامال بہت ہے زندگانی میری

یہ مجھ میں شرافت جو نظر آتی ہے

بنیاد ہے اس کی ناتوانی میری


اردو کا ایک محاورہ ہے ' نیم حکیم خطرۂ جاں ' مطلب یہ ہے کہ انسان علم حاصل کرے تو پورا۔ ادھورے علم سے علم اور علم حاصل کرنے والے، دونوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ جوش کہتے ہیں کہ عقل و دانش بہکی ہوئی یعنی غلط راستے پر ہوتو ذہانت، غبادت سے بہتر ہے۔ جو لوگ علم کے راستے پر لٹک کر بیٹھ جاتے ہیں یعنی آدھا علم ہی حاصل کرتے ہیں۔ ان کی کم علمی سے جہالت بہتر ہے۔ اب رباعی ملاحظہ ہو:

UGC NET URDU SYLLABUS

۔بہکی ہوئی دانش سے حماقت بہتر

نا پختہ ذہانت سے غبادت بہتر

جو راہ طلب میں بیٹھ جائے تھک کر

اس علم قلیل سے جہالت بہتر




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے