Ad

جوش ملیح آبادی حیات اور رباعی گوئی

جوش ملیح آبادی حیات اور رباعی گوئی


جوش ملیح آبادی حیات اور رباعی گوئی

Josh Malihabadi in hindi rubai goyi

جوش نے شاعری کا آغاز غزل گوئی سے کیا تھا۔ غالب کا ایک شعر ہے :

بہ قدر شوق نہیں، ظرف تنگنائے غزل

کچھ اور چاہیے! وسعت مرے بیاں کے لیے

جوش ملیح آبادی کی شاعری کی خصوصیات

اس شعر میں غالب کہنا چاہتے ہیں میرے شوق کے لیے غزل کا میدان تنگ ہے۔ اپنے فکر و خیال کے اظہار کے لیے مجھے کچھ اور وسیع میدان چاہیے جوش کے پورے کلام کے مطالعے سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جوش کو صنف غزل سے وہی شکایت تھی جو غالب کو تھی یعنی اس صنف میں وہ اپنی فکر و احساس کا پوری طرح اظہار نہیں کر سکتے ، اس لئے جوش اردو شاعری کی روایتی صنف سخن چھوڑ کر نظم ، مرثیے اور رباعی کے میدان میں آگئے جہاں انہیں ایسی کامیابی نصیب ہوئی کہ وہ علامہ اقبال کے بعد بیسویں صدی کے دوسرے بڑے شاعر تسلیم کیے جانے لگے ۔ وہ جنگ آزادی کے سب سے بڑے اردو شاعر ہیں اور بعض نقادوں کا خیال ہے کہ جوش ہندوستان کی تمام زبانوں میں جنگ آزادی کے عظیم ترین شاعر ہیں ۔ جوش نے مختلف موضوعات پر سینکڑوں کی تعداد میں رباعیاں کہی ہے۔ یہ رباعیاں فلسفہ ، اخلاق ، سماجی خرابیوں ، مفلسی و غریبی ، رومان اور مناظر قدرت جیسے موضوع پر کہی گئی ہیں۔


جوش کی رباعی گوئی

Josh ki rubai goyi

دوسری اصناف سخن کی طرح رباعی بھی فارسی سے اردو میں آئی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ خود ہندوستان میں بھی اس سے ملتی جلتی ایک صنف سخن موجود ہے جسے سنسکرت میں ' چار چرن ' اور ہندی میں ' چوپائی ' کہا جاتا ہے۔ پشتو میں بھی تقریبا اسی انداز کی ایک صنف سخن ہے جسے ' چار ہیتہ ' کہا جاتا ہے۔ رباعی کے چوبیس اوزان مقرر کیے گئے ہیں۔ شاعروں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان ہی اوزان میں رباعیاں کہیں۔ اگر چہ بعض شاعروں نے دوسرے اوزان میں بھی رباعیاں کہی ہیں۔ رباعی کے تین مصرعوں میں ردیف اور قافیہ ہوتے ہیں اور اس کے چاروں ہی مصرع ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ رباعی گو عام طور سے پہلے چوتھا مصرع کہہ لیتے ہیں اور بعد میں تین مصرعے کہتے ہیں ۔


فارسی میں کئی شاعروں نے بڑی تعداد میں رباعیاں کہی ہیں اور بعض شاعر تو ایسے ہیں جن کی شہرت کی بنیاد ہی رباعی گوئی پر ہے۔ ان شاعروں میں خیام ، سحابی اور سلطان ابو سعید ابوالخیر خاص پور پر قابل ذکر ہیں۔


اگر چہ اردو میں رباعیاں خاصی تعداد میں کہی گئی ہیں لیکن اس صنف سخن کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کی یہ مستحق ہے۔ دو تین کو چھوڑ کر باقی اردو کے تمام رباعی گو شاعروں کی شہرت کی اصل بنیاد غزل ، نظم ، مثنوی یا مرثیے پر ہے اور ایک خیال یہ ہے کہ انھوں نے منھ کا مزہ بدلنے کے لیے رباعیاں کہی تھیں۔


شمالی ہندوستان میں خواجہ میر درد ، سودا ، میر انیس اور مرزا دبیر نے رباعی رباعی گوئی کے فن میں کمال حاصل کیا لیکن غزل کی غیر معمولی مقبولیت ہمیشہ اس صنف سخن کے راستے میں رکاوٹ بنی رہی۔

بیسویں صدی میں اردو رباعی

دلچسپ بات یہ ہے کہ مرثیہ شعرا نے رباعی کے فروغ میں خاصا حصہ لیا۔ مرثیہ گو شاعر مشاعروں میں پہلے ایک دو رباعیاں پڑھتے تھے، اس کے بعد سلام اور مرثیہ وغیرہ ۔ مرثیوں کی طرح رباعیوں میں بھی مقابلہ ہوتا تھا ۔ اگر کوئی مرثیہ گو رباعی پڑھتا تو اس کا حریف بھی رباعی پڑھتا اور پہلے شاعر کی رباعی کے مفہوم کو بہتر انداز میں کہہ کر دکھانے کی کوشش کرتا ہے ۔ انیس و دبیر کے یہاں ایسی رباعیاں خاصی تعداد میں ہیں جو ایک دوسرے کے جواب میں کہی گئی تھیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ مرثیے سے پہلے رباعی پڑھنے کا طریقہ انیس و دبیر کے عہد میں شروع ہوا تھا یا اس سے قبل۔

۔بیسویں صدی میں بھی اردو شاعروں نے خاصی تعداد میں رباعیاں کہی ہے ۔


جوش کی رباعیوں کے دو مجموعے ٫ جنون و حکمت اور نجوم و جواہر ، شائع ہوئے ۔ فراق گورکھپوری کی رباعیاں ' روپ ' کے نام سے اور جاں نثار اختر کی رباعیاں ' گھر آنگن ' کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئیں ۔ ان کے علاوہ رباعی گو شعرا میں امجد حیدرآبادی، جگن موہن لعل رواں، افق لکھنوی، یگانہ چنگیزی، سیماب اکبر آبادی اور فانی بدایونی کے نام قابل ذکر ہیں۔

۔جوش کی رباعیاں اردو شاعری میں ایک گراں بہا اضافہ ہیں۔ جب بھی اردو میں رباعی گوئی کی تاریخ لکھی جائے گی اس میں جوش کا ذکر ضرور آئے گا اور انہیں رباعی گوئی کی تاریخ میں ممتاز حیثیت دی جائے گی ۔ کہیں کہیں جوش اپنی شاعرانہ مصوری ، فکر و بصیرت رومان پسندی اور زبان و بیان پر قدرت کی وجہ سے دنیا کے سب سے بڑے رباعی گو عمر خیام کے ہم پلہ نظر آتے ہیں۔


تصوف کا ایک فلسفہ ہے " ہمہ اوست " یہ فلسفہ ویدانت سے متاثر ہے۔ ویدانت کا ایک مقولہ ہے " اہم برہم دویتے ناستے " یعنی ہم برہم ہے اور دوسری چیز نہیں ہے اس فلسفے کے مطابق دنیا میں صرف ایک ہستی کا وجود ہے اور کسی دوسری چیز کا وجود ممکن ہی نہیں ۔ ہر شے کے مظاہر صوری مختلف ہیں۔ لیکن ہر شے کی اصل اور عین ایک ہی ہے۔ یہی مضمون غالب نے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے۔

Urdu rubai goyi

ہے مشتمل نمودِ صور پر وجود بحر

یاں کیا دھرا ہے، قطرہ و موج و حباب

یعنی سمندر کے وجود کی بنیاد طرح طرح کے مظاہر پر ہے۔ قطرہ ، موج اور حباب ہی مل کر سمندر کی صورت گری کرتے ہیں۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب پانی ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔

کائنات میں طرح طرح ہے مظاہر اور صورتیں نظر آتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سب کی ایک ہی اصل ہے اور وہ ہے ذات خدا وندی۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے