Ad

امجد حیدرآبادی کی رباعیات تشریح و خلاصہ

امجد حیدرآبادی کی رباعیاں

Amjad Hyderabadi ki Rubaiyat ki tashreeh

امجد کی رباعیاں

Rubaiyaat e amjad


رباعی 1

ہر قطرے میں بحر معرفت مضمر ہے

ہر ذرے میں کچھ نہ کچھ جوہر ہے

ہو چشم بصیرت تو ہے ہر چیز ، اچھی

گر آنکھ نہ ہوتا لعل بھی ، پتھر ہے


رباعی 2

ناحق پھر پھر کے سر پھرایا میں نے

اپنی کوشش سے کچھ نہ پایا میں نے

طوفان میں ہے کشتی امید ، میری

لے تو ہی سنبھال اہتھ اٹھایا میں نے


رباعی 3

کم ظرف، اگر دولت و زر، پاتا ہے

مانند حباب ابھر کے آتا ہے

کرتے ہیں ذرا سی بات پر، فخر خسیس

تنکا تھوڑی ہوا سے اڑ جاتا ہے


ایک رباعی کی تشریح

Rubai ki tashreeh

ویسے تو امجد کی ہر رباعی میں اخلاق ، معرفت اور زندگی کی اقدار کے بارے میں نہایت سادہ اور موثر انداز میں تلقین ملتی ہے لیکن ذیل میں امجد کی ایک رباعی پر گفتگو کی جائے گی


ہر قطرے میں بحر معرفت مضمر ہے

ہر ذرے میں کچھ نہ کچھ جوہر ہے

ہو چشم بصیرت تو ہے ہر چیز ، اچھی

گر آنکھ نہ ہوتا لعل بھی ، پتھر ہے


دنیا کی ہر شئے میں علم پوشیدہ ہے ۔ علم تو محنت کے ذریعے حاصل کرنا ممکن ہے لیکن عرفان تک رسائی غور و فکر سے ہی ہوسکتی ہے ۔ بہ ظاہر کوئی چیز معمولی سی نظر آتی ہے جیسے ایک قطرہ جس کی بادی النظر میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو اس میں معرفت کا ایک سمندر موج زن ہوتا ہے۔ ذرہ بے حقیقت سہی لیکن اس میں بھی کوئی نہ کوئی جوہر ضرور ہوتا ہے۔ جسے دیکھنے کے لئے آنکھ چاہیے ۔ اور اگر چشم بصیرت نہ ہو تو لعل بھی پتھر کے برابر ہوگا۔ صوفیا نے معرفت کو معراج آدم قرار دیا ہے۔ وہ ہر شئے میں جلوہ الہیٰ کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ اسی لئے ماجد کہتے ہیں کہ اگر چہ ایک قطرے کی بہ ظاہر کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو اس میں بھی معرفت کا ایک سمندر پوشیدہ ہے۔ شرط یہ ہے کہ انسان اپنے آپ میں بصیرت پیدا کرے اور ذرے میں چھپے ہوئے جوہر کو پہچانے ورنہ اس کا حال ایسے اندھے کا سا ہوگا جسے لعل مل جائے لیکن وہ اسے پتھر سمجھ کر پھینک دے۔

Ugc net urdu syllabus 

خلاصہ

امجد کا شمار اردو کے اہم رباعی گو شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کا پورا نام ابوالاعظم سید امجد تھا ۔ بچپن ہی میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا اور ان کی پرورش ان کی والدہ صوفیہ بیگم نے کی جو بہت متقی اور پرہیز گار خاتون تھی۔  ان ہی کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ تصوف، قناعت، متانت، پرہیز گاری اور سادگی امجد کے مزاج کا اہم جزو بنے۔ امجد کی ابتدائی تعلیم جامعہ نظامیہ میں ہوئی۔ بعد میں انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل کا امتحان کامیاب کیا۔ چند برسوں تک تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد وہ صدر محاسبی میں ملازم ہوئے اور ترقی کرتے کرتے ڈپٹی اکاونٹنٹ جنرل کے عہدے سے پچپن برس کی عمر میں وظیفے پر سبک دوش ہوئے۔ ان کی کہی گئی رباعیاں ہندوستان بھر میں مقبول ہیں اور زبان زد خاص و عام ہیں۔ انھوں نے اپنی رباعیوں کے ذریعے عوام کے اخلاقی معیار کو بلند کرنے کی کوشش کی اور انسانی قدروں کو نہایت سادہ انداز میں پیش کیا۔ تصوف ، امجد کے مزاج میں داخل تھا اسی لئے ان کی رباعیوں میں تصوف کے نازک نکات بھی نظر آتے ہیں ۔ زبان کی سلاست امجد کی شاعری کا ایک اہم وصف ہے۔ وہ عام زندگی سے متعلق مسائل کو سادگی اور نصیحت آمیز نرم لہجے میں بیان کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ چوں کہ وہ خود اعلی انسانی اقدار پر یقین رکھتے ہیں اسی لئے 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے