Ad

امجد حیدرآبادی کی رباعی گوئی

 Ugc net urdu syllabus 2022


امجد حیدرآبادی کی رباعی گوئی


امجد حیدرآبادی کی رباعی گوئی

Amjad haydrabadi rubai goyi 

امجد کی ادبی زندگی کا آغاز پندرہ برس کی عمر میں غزل گوئی سے ہوا

نہیں غم  گر چہ دشمن ہوگیا ہے آسماں اپنا

مگر یارب نہ ہو نا مہرباں وہ مہرباں اپنا


اس زمانے میں حیدرآباد میں داغ دہلوی کا طوطی بول رہا تھا اور ہر کوئی داغ کے رنگ میں شعر کہنا باعث افتخار سمجھتا تھا ۔ اسی لیے ان کی ابتدائی شاعری پر داغ کا اثر محسوس ہوتا ہے مگر آہستہ آہستہ وہ اس سحر سے نکل آئے اور نظم کی'طرف متوجہ ہوئے ۔ ان کی پہلی نظم دنیا اور انسان ہے جو انھوں نے تقریباً بیس برس کی عمر میں لکھی ۔ انکی کئی نظمیں رسالہ مخزن اور زمانہ میں شائع ہوئیں ہیں۔ اور پسند کی گئی۔ چنانچہ ان نظموں کے دو مجموعے ریاض امجد حصہ اول اور ریاض امجد حصہ دوم شائع ہوئے ۔ ان کے علاوہ نثر میں بھی ان کی آٹھ کتابیں شائع ہوئیں ۔


Rubaiyaat e amjad 

رباعیات امجد حیدرآبادی 

اردو ادب میں امجد کی اہمیت ان کی رباعی گوئی کی وجہ سے ہے ۔ ان کی کہی گئی رباعیاں آج بھی زبان زد خاص و عام ہیں۔ ان کی رباعیوں کے تین مجموعے شائع ہوئے

رباعیات امجد حصہ اول 1925

رباعیات امجد حصہ دوم 1935

رباعیات امجد حصہ سوم 1955


امجد کی رباعیوں میں صوفیانہ رنگ غالب پے ۔ زندگی کے اخلاقی پہلوؤں کو امجد نے بڑی خوبصورتی سے اپنی رباعیوں میں پیش کیا ہے۔ معنویت اور اظہار کی قوت سے امجد نے اپنی رباعیوں میں ایک ایسی کیفیت پیدا کی کہ امجد کا نام اردو رباعی کے ساتھ جڑ گیا ۔ انھوں نے اپنی رباعیوں میں انسانی زندگی کے اہم گوشوں کو نہایت سادگی اور چابک دستی سے اس طرح پیش کیا کہ بات سننے والے کے دل میں اتر جائے۔ وہ بے حد منکسرالمزاج بھی تھے امجد حیدرآبادی کی رباعیاں سارے ہندوستان میں مشہور تھیں ، اور انھیں رباعی کا بے تاج بادشاہ تسلیم کیا جاتا تھا لیکن کس قدر انکسار سے وہ کہتے ہیں :

ہم توڑ کے تارے آسماں سے لائے

مضمون بلند لا مکاں سے لائے 

ہر شعر بہ اعتبارِ فن خوب کہا

لیکن کوئی تاثیر کہاں سے لائے


امجد نے اپنی رباعیوں کے ذریعے اخلاقیات کی تعلیم دی اور اس کے ساتھ ساتھ انسانی قدروں کو بھی پیش کیا۔ وہ خود بھی صوفی مزاج تھے اس لئے ان کی رباعیوں میں بھی صوفیانہ رنگ محسوس کیا جاسکتا ہے ۔

amjad hyderabadi information in urdu


ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے انھیں پہلا اور آخری رباعی گو شاعر لکھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یوں تو اردو کے کئی شعرا نے صنف رباعی میں طبع آزمائی کی لیکن کوئی بھی امجد کی بلندیوں کو چھو نہ سکا۔ انھیں رباعی کے فن پر غیر معمولی قدرت تھی۔ عام شعرا رباعی کے وزن کی پیچیدگی کی وجہ سے اس سے گریز بھی کرتے ہیں لیکن امجد کا مزاج رباعی کے وزن سے اس قدر ہم آہنگ تھا کہ انھوں نے سینکڑوں رباعیاں کہہ ڈالیں ۔ عمر خیام فارسی کا ایک اہم شاعر مانا جاتا ہے جس کے یہاں رندی اور سر مستی ، شراب اور اس کے لوازم پر مبنی رباعیاں ملتی ہیں لیکن امجد کے یہاں اس طرح کا کوئی موضوع نہیں ۔ ان کے یہاں اخلاق ، روحانیت اور نصیحت پر مبنی مضامین ہی نظر آتے ہیں ۔ وہ ایک وسیع المشرب اور دردمند شاعر تھے ۔ انسان کے دکھ درد کو سمجھتے تھے ۔ افلاس ، مجبوری اور بے کسی سے وہ خود گزر چکے تھے اس لئے ان کی شاعری میں یہ تمام عناصر عروج پر نظر آتے ہیں۔ کسی کا دل توڑنا ان کے نزدیک گناہ عظیم تھا ۔ ایک رباعی میں انھوں نے دل کو کعبے سے زیادہ اہم بتایا ہے۔ وہ کہتے ہیں ؛

رباعی کے اشعار 

مغموم کے قلبِ مضمحل کو توڑا

یا منزل فیضِ متصل کو توڑا

کعبہ ڈھاتا تو بنا بھی لیتے

افسوس یہ ہے کہ تو نے دل کو توڑا

امجد نام و نمود کے کبھی قائل نہیں رہے۔ انسان کی عموماً خواہش ہوتی ہے کہ اسے عزت و شہرت نصیب ہو اور اس کے لیے وہ کئی جتن کرتا ہے۔ لیکن امجد ہمیشہ ان چیزوں سے بے نیاز رہے ۔ وہ ابدی مسرت کو اہم مانتے ہیں۔ کہتے ہیں :


کیا فکر ہے کوئی قدر داں ہو کہ نہ ہو

جھوٹی دنیا میں عز و شاں ہو کہ نہ ہو

اللہ مسرت حقیقی دے دے

ہم زندہ رہیں نام و نشاں ہو کہ نہ ہو


تصوف امجد کی شاعری کا ایک نمایاں وصف ہے اور یہ پہلو ان کی رباعیوں میں بھی جا بجا نظر آتا ہے ۔ تصوف میں وحدت الوجود کا مسئلہ کافی الجھا ہوا ہے۔ اکثر صوفیا نے اپنے اپنے انداز میں اس کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ امجد نے بھی اس مسئلے کو اپنی ایک رباعی میں نہایت آسان لہجے میں سمجھایا ہے وہ کہتے ہیں :


ہیں مستِ مئے شہود تو بھی میں بھی

ہیں مدعی نمود تو بھی میں بھی

یا تو ہی نہیں جہاں میں یا میں ہی نہیں

ممکن نہیں دو وجود ! تو بھی میں بھی


وحدت الوجود کے بارے میں امجد کی کچھ اور رباعیاں پیش ہیں :


انسان ہزاروں ہیں مگر قسم ہے ایک

الفاظ بہ کثرت ہیں مگر اسم ہے ایک

اس عالم کثرت کا منشا ہے واحد

اعضا ہیں جدا جدا مگر جسم ہے ایک


واجب سے ظہور شکل انسانی ہے

وحدت میں دوئی کا وہم نادانی ہے

دھوکا ہے نظر کا ورنہ ہر شئے ہمہ اوست

گرداب ، حباب ، موج سب پانی ہے 


ذرے ذرے میں ہے خدائی دیکھو

ہر بت میں ہے شان کبریائی دیکھو

اعداد تمام مختلف ہیں باہم

ہر اک میں ہے مگر اکائی دیکھو


امجد نے کوشش کی کہ اپنی رباعیوں کے ذریعے قاری کو سیرت اور اخلاق کی تعلیم دے کر اس کی کردار سازی کریں ۔ وہ خود کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے قائل نہیں تھے۔ شعرا کا عام طریقہ رہا ہے کہ وہ انعام و اکرام کے حصول کے لیے بادشاہوں اور امرا کی مدح میں قصائد لکھتے تھے لیکن امجد نے ایسا نہیں کیا۔ ان کا ایقان تھا کہ دینے والا تو پروردگار ہے اس لیے غیروں کے آگے ہاتھ پھیلانا مناسب نہیں ۔ ذیل کی رباعی میں وہ نہایت سادگی سے تلقین کرتے ہیں کہ کس سے اور کس طرح مانگنا چاہیے :

ہر چیز مسبب سبب سے مانگو


ہر چیز مسبب سب سے مانگو

منت سے ، خوشامد سے ، ادب سے مانگو

کیوں غیر کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہو

بندے ہو اگر رب کے تو رب سے مانگو


آج کا دور مسلمانوں کے لئے بے حد کٹھن ہے ۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کو ذلت کی نظر سے دیکھا جارہا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے سچائی نیکی اور ایمانداری کی راہ اپنانے کی بجائے غلط راہیں اختیار کرلیں جب کہ یہی اوصاف اسلام کی روح ہیں ۔ دیکھیے اس رباعی میں امجد کا دردمندی سے مسلمانوں کی غلط روش کی طرف متوجہ کرتے ہیں :

دل ہے سینے میں ایمان نہیں

کہنے کو تو زندہ مگر جان نہیں

سب کہتے ہیں دنیا میں مسلماں ہیں تباہ

ہم کہتے ہیں دنیا میں مسلمان نہیں


اسلوب بیان کی سادگی اور سلاست سے آراستہ امجد کی رباعیاں ان کے سچے دلی جذبات کی آئینہ دار ہیں ۔ امجد کی رباعیوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امجد زندگی کے نازک مسائل کو نہایت خوش اسلوبی سے پیش کرتے ہوئے ساری انسانیت کے لیے صحیح راہ کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ان کا انداز ایسا ہے کہ بات دل میں اتر جاتی ہے ۔ اقبال نے کہا تھا :


دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

Ugc net urdu 2022 syllabus 

امجد نے بھی یہ باتیں اپنے دل کی گہرائیوں سے ادا کی ہیں۔ انھوں نے وہی کہا جس پر وہ خود پورا یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امجد کی آواز میں تاثیر ہے اور یہی تاثیر ان کو ایک عظیم رباعی گو بناتی ہے ۔ اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب بھی رباعی کا ذکر آئے گا امجد حیدرآبادی کے نام کے بغیر اردو رباعی کی تاریخ نا مکمل رہے گی۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے