Ad

اکبر الہ آبادی کے حالات زندگی

اکبر الہ آبادی کے حالات زندگی

 

اکبر الہ آبادی کے حالات زندگی

Akbar Allahabadi Ke halat e zindagi in Urdu 

اکبر الہ آبادی کا پورا نام اکبر حسین تھا۔ ان کا تعلق یوپی کے معزز اور خوش حال خاندان سے تھا۔ ان کے دادا بنگال میں صوبہ دار تھے۔ ان کے والد کا نام تفضّل حسین تھا۔ اکبر حسین 16 نومبر 1846ء میں بہ مقام موضع بارہ ، ضلع الہ آباد پیدا ہوئے۔ گھر کا ماحول بہت مذہبی تھا۔ باپ سماع کی محفلوں میں جاتے مجالس عزا میں بھی شرکت کرتے تھے۔ ماں بھی بہت مذہبی اور صوم و صلوٰۃ کی پابند تھیں۔ سامنے کے دستور کے مطابق ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی عربی ، فارسی ، اردو ، انگریزی اور ریاضی کی ابتدائی کتابیں انھوں نے گھر ہی میں پڑھیں تھیں۔ ریاضی سے بہت دلچسپی تھی۔ پھر مشن اسکول میں داخل ہوئے۔ ایک سال ہوا تھا کہ 1857 کا ہنگامہ ہوگیا اور ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ مگر یہ گھر پر برابر پڑھتے رہے۔ عربی فارسی کے ساتھ انگریزی کا بھی مطالعہ کیا۔ ادب ، فلسفہ اور مذہب کی کتابیں پڑھتے رہے ۔

Akbar Allahabadi information in Urdu

1857 کے بعد عام مسلمانوں کی طرح اکبر کے خاندان کو بھی سخت مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے اک ر کو ملازمت کی فکر ہوئی۔ انہوں نے اپنی ملازمت کی ابتدا عرصہ نویسی سے کی محلے کے ایک وکیل سے محرری سیکھتے رہے پھر ان کو سر رشتہ داری کی نوکری مل گئی ۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ وہ برابر آپ ے طور پر تعلیم حاصل کرتے رہے ۔ ان کو قانون سے خاص لگاؤ تھا۔ عدالت میں مسلسل خواں ہوئے پھر وکالت کا امتحان پاس کرکے وکیل بنے، ترقی کرکے منصف اور اس کے بعد سب جج کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ان کا نام ہائی کورٹ کے جج کے لئے زیر غور تھا۔ مگر انہوں نے قبل از وقت پینشن لے لی۔ 1898ء میں ان کو جوڈیشیری خدمات کے خان بہادر ک خطاب ملا۔ اکبر کو اپنے پیشے سے بہت لگاؤ تھا۔ ان کے بعض قانونی فیصلوں کی بہت شہرت ہوئی۔ انہوں نے اپنی ملازمت کے دوران افسروں ، ساتھیوں اور عوام پر اپنی قابلیت کا سکہ بٹھا لیا۔


اکبر کی شادی اس زمانے کے دستور کے مطابق بہت کم عمری یعنی تیرہ چودہ سال کی عمر میں ہوگئی۔ ان کو بیوی پسند نہیں تھی۔ ان کی ازدواجی زندگی ناخوشگوار تھی۔ دو بچے بھی ہوئے مگر اکبر کو نہ بیوی سے دلچسپی تھی نہ بچوں سے ۔ ایک لڑکے کا نام عباد حسین تھا ، ایک کا نذیر حسین۔


اکبر کو موسیقی سے لگاؤ تھا اس لئے وہ اکثر طوائفوں کے کوٹھے پر موسیقی کے شوق کو پورا کرنے جاتے تھے۔ اس زمانے میں یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھیں جاتی تھی۔ انہوں نے ایک کم سن طوائف بوٹا جان سے عقد کر لیا تھوڑے دنوں میں اس کا انتقال ہوگیا۔ اکبر کو اس کا بہت صدمہ ہوا اور انھوں نے فارسی میں اس کا دل دوز مرثیہ بھی لکھا ۔

Akbar Allahabadi Ki shayri in urdu

اس کے بعد انھوں نے ایک معزز خاندان کی بیٹی فاطمی صغری سے شادی کرلی ۔ یہ بیوی ان کو دل سے پسند آئی ۔ ایک بیٹی اور دو بیٹے ہوئے بیٹی اور چھوٹا بیٹا ہاشم نوجوانی میں وفات پا گیا۔ پڑے بیٹے عشرت حسین زندہ رہے جنھیں اکبر نے ولایت بھیجا، اعلی تعلیم دلوائی ۔ وہ ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز ہوئے ۔

اکبر الہ آبادی کی غزل گوئی

اکبر کو شاعری کا ملکہ قدرت سے عطا ہوا تھا ۔ کم عمری سے شعری کہنا شروع کر دیا۔ اس زمانے کے مشہور شاعر غلام وحید سے اصلاح لیتے تھے ۔ اکبر نے اپنی شاعری کی ابتدا غزل گوئی سے کی ۔ ان کے ابتدائی کلام میں رنگینی ہے ، شوخی ہے ، غزل کے روایتی لب و لہجے میں ہجر و وصال کا بیان ہے ، زبان کا چٹخارا ،رعایت لفظی کا اہتمام اور دو راز کار تشبیہات ہیں۔ مگر وقت کے ساتھ ان غزلوں میں اعلی مضامین کے علاوہ گہرائی اور تہہ داری آتی گئی ۔ غزل کا سب سے بڑا وصف تغزل ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اس میں جن جذبات کا اظہار کیا جائے وہ فطری ہوں۔ ان کو بیان کرنے میں شاعر ایک خاص تہذیب اور ضبط و نظم کو ملحوظ رکھے ، شعر میں لطافت اور درد مندی بھی ہو۔ اکبر کی غزلیں ان سب خصوصیات کی آئینہ دار ہیں۔ مگر وقت کے ساتھ اکبر کی شاعری کا رنگ بدلنے لگا۔


چنانچہ وہ کہتے ہیں۔

اکبر الہ آبادی کی حیات و خدمات

غزل ایسی پڑھو مملو ہو جو اعلی مضامین سے

کرو اب دوسرے کوچے میں اے! اکبر گزر اپنا


دوسرے کوچے کی راہ اکبر کو دکھائی اودھ پنچ ۔ 1877 میں لکھنؤ سے " لندن پنچ " کے جوڑ پر نکلنا شروع ہوا تھا ۔ یہ پندرہ روز اخبار تھا اس کا مقصد معاشرے کے غلط رسم و رواج ، کسی حد تک سیاست اور اس دور میں چلنے والی تحریکوں اور رجحانوں کو طنز و مزاح کا نشانہ بنانا تھا۔ اکبر نے اس اخبار میں نظم و نثر میں لکھنا شروع کیا پھر اپنی انفرادی شناخت بنالی اور ان کی طنزیہ شاعری بہت مقبول ہوئی۔


مزاح نگار کسی صورت حال کے مضحک پہلو کو مزاحیہ انداز میں اس طرح ابھارتا ہے کہ بے اختیار ہنسی آ جاتی ہے۔ پھر پڑنے والے اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتا بھی ہے۔ طنز میں تھوڑی سی تلخی اور حزن ہوتا ہے۔ جس کو طنز نگار ہلکی سی ظرافت کی چاشنی کے ساتھ پیش کر دیتا ہے۔ اکبر کے طنز و مزاح کا نشانہ نئی تہذیب ، سر سید اور ان کی تحریک ، حکومت وقت اور سیاسی تحریکیں ہیں۔ اکبر نے ترقی و تہذیب کے غلط تصور اور انگریزوں کی اندھی تقلید پر وار کیے۔ اکبر کی مزاحیہ شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا بہت بڑا حصہ اس زمانے کی سیاست کا آئینہ دار ہے ۔ اکبر نے برطانوی سامراج کو جس طرح اپنے طنز کا نشانہ بنایا وہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ طنز و مزاح میں مبالغے سے کام لیا جاتا ہے۔ مزاح پیدا کرنے کے لیے اس میں شدت ہوتی ہے جس کی وجہ سے عام طور پر لوگ اس کی تہہ تک پہنچ پاتے۔ اس لیے لوگوں نے اکبر کی مزاحیہ اور طنزیہ شاعری کو غلط روشنی میں دیکھا اور اس کی غلط تعبیریں لی گئیں ۔ جس کی وجہ سے اکبر کو بار بار وضاحت کرنی پڑی ۔ اکبر مذہبی ہوتے ہوئے بھی نہایت غیر تعصب اور کھلے ذہن و دماغ کے انسان تھے۔ ان خیالات کا اظہار شاعری کے علاوہ ان کے مضامین اور ان کے خطوط میں بھی ہوا ہے۔ عزیز لکھنوی ، خواجہ حسن نظامی ، مہاراجہ سر کشن پرساد سے اکبر کے بہت گہرے تعلقات تھے ۔


ایک خط میں مہاراجہ سر کشن پرساد کو لکھتے ہیں :


" اپنے نسبی اور قومی بزرگوں سے محبت نیچرل ہے ۔ لیکن بلا کسی قید نسب و قوم ملک کے تمام بزرگان دین اور عارفان الہی کا احترام ، خدا پرستی ، خدا شناسی اور بلندی طبع کی دلیل ہے۔ "..اکبر سیاسی آدمی نہیں تھے مگر ان کو سیاست سے دلچسپی تھی۔ انھیں اس کی تکلیف تھی کہ ہندوستانی ، انگریزوں کی سیاسی ، ذہنی غلامی میں گرفتار ہیں۔ اکبر ، گاندھی جی اور ان کی قیادت میں چلنے والی تحریکوں کے اس لیے حامی تھے کہ وہ انگریز بہادر کے رعب و دبدبے کو ختم کررہی تھیں۔ کبھی کبھی وہ جوش میں یہ بھی سوچتے تھے کہ " میں اپنی پیرانہ سالی اور بڑھاپے کی وجہ سے اتنی سکت نہیں پاتا ہوں کہ ان تحریکوں میں حصہ لوں ۔ " آپ ے زمانے کے لیڈروں سے بھی اکبر کی ملاقاتیں رہتی تھیں جسے مدن موہن مالویہ ، سروجنی نائیڈو۔ موتی لال نہرو کے گھر کا نام " آنند بھون " اکبر نے ہی رکھا تھا جو ان کے اپنے گھر " عشرت منزل " کا ہندی ترجمہ تھا ۔ اکبر نے انگریز سامراج سے لڑائی قلم سے لڑی اور انکی تہذیبی بالا دستی کے خلاف آواز اٹھائی۔

Ugc net urdu syllabus

اکبر کو اپنی آخری عمر میں صدمے اٹھانے پڑے ۔ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوئے ۔ 1910 ء میں ان کی چہیتی بیوی فاطمہ صغری کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد ان کا لاڈلا بیٹا ہاشم ختم ہوگیا ۔ آخری عمر میں وہ آپ ی زندگی سے بیزاری کا اظہار شاعری میں بھی کرتے تھے۔ خطوط اور اپنی نجی گفتگو میں بھی۔ 9 ستمبر 1921 کو ان کا انتقال ہوگیا۔ اکبر نے اپنی شاعری سے قوم کی اصلاح کا کام لیا اور اپنے زمانے میں جو عام روش تھی ، نئی تہذیب اور تعلیم کا چرچا تھا ، اس کے کمزور پہلوؤں کی نشان دہی۔ اکبر کی شاعری سے ہم اپنی تہذیب سے محبت کرنا سیکھتے ہیں۔ 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے