Ad

الطاف حسین حالی کے حالات زندگی

الطاف حسین حالی کے حالات زندگی


تمهید

اس اکائی میں ہم آپ کو مولانا الطاف حسین حالی کی حیات اور ان کی رباعی گوئی کے متعلق واقف کرائیں گے ۔ حالی اردو کے ایک ممتاز نقاد ، بلند پایہ شاعر اور اہم سوانح نگار ہیں ۔ تینوں حیثیتوں سے وہ ایک نمایاں مقام و مرتبے کے مالک ہیں ۔ ان کے فکر و نظر کی جولانیاں عمر بھر خوب سے خوب تر کی جستجو میں سرگرداں رہیں ۔ انھوں نے نہ صرف قوم کے اقبال کا ماتم کیا بلکہ قوم کو محو نالۂ جرس کارواں رہنے کے بجائے یاران تیز گام سے قدم ملا کر نئی منزلوں کی طرف گام زن ہونے کا درس بھی دیا ہے۔ اپنی تخلیقات کے ذریعے ادب کو نئی جہت اور نئی سمتوں سے روشناس کرایا۔


مولانا الطاف حسین حالی کے حالات زندگی

Khaja Altaf Hussain Hali information in Urdu

حالی نے جس دور میں آنکھیں کھولیں وہ تاریخ کا ایک پر آشوب دور تھا۔ اس دور کو غالب کے الفاظ میں زمین سے آسماں تک سوختن کا باب کہا جاسکتا ہے ۔ ایک طرف انگریزوں کا اقتدار بہ تدریج بڑھتا جارہا تھا تو دوسری طرف مغلیہ سلطنت کے اقبال کا آفتاب نہایت سرعت کے ساتھ غروب ہوتا جارہا تھا۔ مشرقی تہذیب کا ایوان متزلزل ہور ہا تھا۔ مغرب کا نیا نظامِ زندگی مستقبل کے لیے نئے امکانات لیے آگے بڑھ رہا تھا۔ قدیم و جدید میں کشمکش کا سلسلہ جاری تھا۔


1857ء میں ملک نے ایک قیامت خیز کروٹ لی جس نے سیاسی و سماجی نظام کے ساتھ شعر وادب کو بھی بے حد متاثر کیا۔ 1857 ء کا سانحہ در اصل کھوئے ہوئے اقتدار کو حاصل کرنے کی ایک ناکام کوشش تھی ۔ اس کی بہت بڑی قیمت مسلمانوں کو ادا کرنی پڑی ۔ اس واقعے سے جول غلط فہمیوں کا غبار تھا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹ گیا۔ پورے ملک پر افسردگی کی گھٹا چھا گئی ۔ مسلمانوں کی پستی اور زبوں حالی اپنے شباب پر تھی ۔ ان حالات میں سرسید نے ملک کی فلاح و بہبود کے لیے ایک اصلاحی تحریک کی بنیاد رکھی جسے دنیا علی گڑھ تحریک یا سرسید تحریک کے نام سے جانتی ہے ۔ یہ تحریک زندگی کے ہمہ جہت پہلوؤں پر محیط تھی۔ سرسید کے خیالات کو عملی جامہ پہنانے اور اردو شاعری کو نئی وسعتوں سے ہم کنار کرنے میں حالی کا اہم حصہ ہے ۔


حالی کا خاندان

Hali ka khandan

الطاف حسین حالی کا شجرہ نسب بیالیس واسطوں سے صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری سے ملتا ہے ۔ حالی کی والدہ سیدانی تھی حضرت ابو ایوب کے ایک صاحب زادے حضرت عثمان غنی کے عہد میں ایک مہم پر خراساں آئے اور ہرات میں سکونت اختیار کرلی ۔ اس خاندان کی نویں پشت میں شیخ الاسلام خواجہ عبداللہ انصاری گزرے ہیں جو اپنے عہد کے ممتاز صوفی ، فن حدیث کے امام اور جید عالم تھے ۔ ان کی اٹھارویں پشت میں خواجہ ملک علی،دولت و حکومت کو خیر آباد کہہ کر سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد میں ہرات سے ہندوستان آئے غیاث الدین نے ان کے علم و فضل سے متاثر ہوکر انھیں پانی پت میں بہت سی جائیداد اور زمین ، رہائش اور بہ طور مدد معاش عنایت کی ۔ خواجہ صاحب کو پانی پت کا ماحول بےحد پسند آیا ۔ 1726 ء میں وہ اس قصبے میں آباد ہوئے ( یادگار حالی صفحہ 25 ) اور اپنی عمر کا بقیہ حصہ یہیں بسر کیا۔ انھوں نے جس محلے میں قیام کیا تھا وہ ان کے خاندان کی نسبت سے انصار مشہور ہوگیا۔ خواجہ ملک علی کی پندرھویں پشت میں حالی پیدا ہوئے 


نام اور ولادت

Altaf Hussain Hali date of birth

الطاف حسین نام تھا پہلے تخلص خستہ تھا بعد میں حالی اختیار کیا ۔ حالی 1837 ء مطابق 1253 ھ پانی پت کے محلہ انصار میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد خواجہ ایزد بخش سرکار انگریز کے سر رشتۂ پرمٹ میں ملازم تھے۔ حالی کی ولادت کے بعد ان کی والدہ کا دماغ مختل ہو گیا ۔ بدقسمتی سے حالی بچپن ہی میں ماں کی آغوش محبت سے محروم ہو گئے ۔ جب وہ نو سال کے ہوئے تو باپ کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا ۔ انھیں داغ یتیمی سہنا پڑا۔حالی کی تعلیم و تربیت ان کے بڑے بھائی خواجہ امداد حسین اور بہنوں نے بڑے پیار اور محبت سے کی، کبھی انھیں ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت سے محرومی کا احساس ہونے نہیں دیا۔ صالحہ عابد حسین لکھتی ہیں:


’’ماں کے دماغ کی خرابی اور باپ کی بے وقت موت سے الطاف حسین کے ننھے سے دل پر جو چوٹ لگی اس کی بہت کچھ تلافی بھائی بہنوں کی محبت نے کر دی ۔ بڑے بھائی خواجہ امداد حسین نے چھوٹے بھائی کو اپنے سایۂ شفقت میں لے لیا اور بہنوں نے بھی اس در یتیم کی پرورش میں اپنی جان لڑادی ۔‘‘ ( یادگارحالی صفحہ 26)


تعلیم

عام رواج کے مطابق حالی کی بسم اللہ ساڑھے چار سال کی عمر میں ہوئی ۔ انھیں پانی پت کے مشہور قاری حافظ ممتاز حسین کے پاس قرآن کی تعلیم کے لیے بھیجا گیا۔ حالی نے قوی حافظہ پایا تھا۔ وہ بہت جلد حافظ ہو گئے ۔ قرآن شریف حفظ کر لینے کے بعد فارسی کی ابتدائی تعلیم مشہور شاعر میرمنون دہلوی کے بھتیجے اور دامادسید جعفرعلی سے حاصل کی ۔ سید صاحب کے فیض تربیت میں حالی کو فارسی زبان و ادب سے ایک خاص لگاؤ پیدا ہو گیا ۔ فارسی کے ساتھ ساتھ حالی کوعربی پڑھنے کا شوق بھی پیدا ہوا۔ انھوں نے عربی کی تعلیم حاجی ابراہیم حسین سے حاصل کی ۔ حاجی ابراہیم حسین لکھنؤ سے تحصیل علم کے بعد امامت کی سند کے کر پانی پت واپس آۓ تھے ۔ ان سے حالی نے صرف وٹو کی کچھ ابتدائی کتابیں پڑھیں ۔ حالی کوتعلیم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھامگر بدقسمتی سے انھیں اس کا موقع نہیں ملا۔ وہ خود لکھتے ہیں ۔ اگر تعلیم کا شوق خود بہ خود میرے دل میں حد سے زیادہ تھامگر مجھے با قاعدہ اور سلسل تعلیم کا موقع نہ ملا۔ 


مولوی نوازش علی کے علاوہ مولوی فیض الحسن سہارنپوری ، مولوی امیر احمد ، شمس العلما مولانا میاں سید نذیر حسین جیسے اساتذہ سے بھی فیض حال کیا۔ غالب کی خدمت میں بارہا گئے۔ فارسی اور اردو کے جو اشعار سمجھ میں نہیں آتے ، غالب سے ان کے معنی دریافت کرتے . غال۔ کے چند فارسی قصیدے بھی سبقتاً سبقتاً انھیں سے پڑے -

حالی جس ماحول کے پروردہ تھے وہاں انگریزی تعلیم کا ذکر تک نہ تھا۔ انگریزی پڑھنے کو عیب اور کالج کے تعلیم یافتہ لوگوں کو جاہل سمجھا جاتا تھا۔ انگریزی تعلیم کو سرکاری نوکری کا ایک ذریعہ سمجھ جاتا تھا۔ یہی بات تھی کہ حالی نے ڈیڑھ برس تک دلی میں قیام کے باوجود کبھی کالج کا رخ نہیں کیا۔ اس کا اظہار خود حالی نے کیا ہے :

" ڈیڑھ برس دلی میں رہنا ہوا ۔ اس عرصے میں کبھی کالج کا جاکر آنکھ سے دیکھا تک نہیں اور نہ کبھی ان لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا جو اس وقت کالج میں تعلیم پاتے تھے جیسے مولوی ذکاء اللہ، مولوی نذیر احمد ، محمد حسین آزاد وغیرہ " ( مقالات حالی صفحہ 264 )


حالی کی تعلیم کا سلسلہ دلی میں ڈیڑھ برس سے زیادہ جاری نہ رہ سکا۔ ان کے گھر والوں کو پتہ چلا تو ان کے بڑے بھائی اور دوسرے عزیز آئے اور حالی کو تعلیم منقطع کرکے پانی پت واپس جانا پڑا۔ وہ 1855 میں پانی پت واپس آئے۔


شادی

1853 میں حالی کی شادی سترہ سال کی عمر میں ان کی ماموں زاد بہن میر قربان کی صاحبزادی اسلام النساء کے ساتھ ہوئی ۔ یہ رشتۂ ان کے بڑے بھائی خواجہ امداد حسین اور بہنوں نے حالی بہ منزلہٰ والدین سمجھتے تھے طے کیا تھا۔ وہ ابھی شادی کے چکر میں پڑنا نہیں چاہتے تھے بلکہ تعلیم کو جاری رکھنا چاہتے تھے۔ مگر بزرگوں کی رائے سے اختلاف کرنا ان کی سعادت مندی کے خلاف تھا۔


ملازمت

شادی کے بعد بھی حالی کو فکر معاش کی ضرورت پیش نہیں آئی ۔ سسرال کی آسودہ حالی نے انھیں فکر معاش سے بے نیاز رکھا۔ جیسا کہ آپ کو بتایا جا چکا ہے کہ حالی شادی کے بعد کسی کو اطلاع دیے بغیر تحصیل علم کے لیے دلی چلے آئے اور ڈیڑھ برس تک رہے ۔ 1855 ء میں انھیں پانی پت دائیں آنا پڑا۔ یہاں فکر معاش سے بے نیاز ہوکر مطالعے میں مصروف ہو گئے ۔1856ء میں تلاش معاش میں پانی پت سے باہر نکلنا پڑا۔ انھیں حصار میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں قلیل تنخواہ پر ملازمت مل گئی ۔ ابھی ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ 1857ء کا ہنگامہ شروع ہوا۔ حالی نے یہ قیامت خیز سانحہ اپنی آنکھوں سے دیکھا سارے ملک میں ایک قیامت بپا ہوگئی ۔ حصار میں بھی قیامت کا عالم تھا۔ حالی نے پریشانی کے عالم میں حصار سے پانی پت کا رخ کیا۔ راستے میں ان پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا وہ بڑے خطروں کو مقابلہ کرتے ہوئے کسی نہ کسی طرح پانی پت پہنچ گئے۔ اس سفر نے ان کی صحت کو بری طرح متاثر کیا ۔ چار سال تک حالی پانی پت میں رہے۔ وہ لکھتے ہیں :


" قریب 4 چار برس، پانی پت میں بیکاری کی حالت میں گزارے ۔ اس عرصے اور وقت میں، پانی پت کے مشہور عالم فضلا مولوی عبدالرحمن، مولوی محب اللہ، اور مولوی قلندر علی  سے بنا کسی ترتیب کے کبھی منطق یا فلسفہ ، کبھی حدیث کبھی تفسیر پڑھتا رہا اور ان میں سے جب کوئی پانی پت میں نہ ہوتا تھا تو خود بغیر پڑھی کتابوں کا مطالعہ کرتا اور خاص کر علم و ادب کی کتابیں شرح اور لغات کی مدد سے اکثر دیکھتا تھا اور کبھی بھی عربی نظم اور نثر بھی کسی کی اصلاح یا مشورے کے لکھتا تھا مگر اس پر بھی اطمینان نہ ہوتا تھا۔ میری عربی اور فارسی کا منتہا صرف اسی قدر ہے جس قدر اوپر ذکر کیا گیا ہے " ( مقالات حالی ۔حصہ 265 )


1861 میں تلاش معاش میں دوبارہ دلی پہنچے جو تباہی شدہ حالت میں بھی علم و فن اور شعر و سخن کا بازار گرم کیے ہوئے تھی۔ قیام دلی ان کی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔ یہاں انکی ملاقات جہانگیر آباد کے رئیس نواب مصطفی خان سے ہوئی جو اردو میں شیفتہ اور فارسی میں حسرتی تخلص کرتے تھے۔ شیفتہ نے حالی کو اپنے بچوں کا اتالیق مقرر کیا۔ حالی ان کے ساتھ سات آٹھ برس گزارے ۔ 1869 میں شیفتہ کا انتقال ہوا تو انہیں فکر معاش دامن گیر ہوئی۔ وہ ملازمت کی تلاش میں لاہور پہنچے ۔ لاہور میں انہیں گورمنٹ بک ڈپو میں ملازمت مل گئی۔ یہاں ان کا کام ان اردو کتابوں کی اصلاح کرنا تھا جو انگریزی سے اردو میں ترجمہ کی جاتی تھی۔ اس طرح حالی بلواسطہ ہی سہی انگریزی ادبیات سے وابسطہ ہوگئے ۔ اگر چہ لاہور میں ان کا قیام مختصر سا رہا لیکن انھیں ایک ایسا ماحول میسر آیا جس نے ان کے شعور پر اور جلا کی اور ان کے نقدِ شعر کو نئی سمت عطا کی۔


لاہور میں حالی کا قیام ان کی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔ یہ قیام انکی ادبی زندگی میں زبردست تبدیلیوں کا باعث بنا۔ وہ تقریباً چار برس لاہور میں رہے ۔ یہاں انھیں مغربی ادبیات سے واقف ہونے کا موقع ملا ۔ مغربی ادبیات نے ان کے افکار و خیالات میں بڑا انقلاب برپا کردیا۔ غالب اور شیفتہ کی صحبتوں سے اگر حالی کے نظریۂ شعری میں تبدیلی پیدا ہوئی تو قیام لاہور میں نظریہ شعر کا ایک پیمانہ ، ایک کسوٹی اور ایک معیار ہاتھ آیا۔

 

کرنل ہالرائڈ کی ہمت افزائی، پیارے لال آشوب کے مشورے اور آزاد کی رفاقت نے حالی کے نقد شعر اور مذاق سخن کو نئی منزل عطا کی ۔ 1874 میں مولانا محمد حسین آزاد نے کرنل ہالرائڈ کے ایما پر جس طرز کے مشاعرے کی بنیاد ڈالی وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل نیا تھا۔ اس میں غزلوں کے موضوع کی مناسبتوہ جو چاہیں زمین ، اور بحر اور قوافی اختیار کرسکتا تھا۔  یہ مشاعرہ پرانے دبستان شاعری کے خلاف بغاوت کا ایک پہلا قدم تھا۔ ان مشاعروں نے جدید شاعری کے لیے راہیں ہموار کر دیں ۔ اگر چہ ان مشاعروں کے انعقاد اور کامیابی میں آزاد کی کوششوں کو بڑا دخل تھا مگر ان میں حالی کا بھی اہم حصہ ہے ۔ ان مشاعروں کے لیے حالی نے اپنی مشہور مثنویاں حب وطن، برکھارت ، نشاط امید اور مناظر رحم و انصاف لکھیں ۔ حالی کی یہ مثنویاں بہت مقبول ہوئیں مثنویات حالی کا مطالعہ کیجے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ حالی نے اپنی مثنویوں میں قومی مسائل اخلاقی پہلوؤں اور نیچرل مضامین کو جگہ دی ۔ ان میں قافیوں سے زیادہ مضمون کا خیال رکھا گیا۔ نفس مضمون اور اسلوب بیان کی سادگی کے اعتبار سے یہ مثنویاں بڑی اہم ہیں اور روایتی شاعری سے مختلف ہیں ۔ قیام لاہور میں حالی کے طرز سخن میں جو تبدیلیاں آئیں ان کا اندازہ حالی کی مثنویات سے لگایا جا سکتا ہے ۔


لاہور کی آب و ہوا حالی کو راس نہ آئی ۔ جب دلی کے اینگلو عربک کالج میں مدرسی کی جگہ خالی ہوئی تو وہ دلی آگئے ۔ یہاں وہ بڑی دل سوزی اور مستعدی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے لگے ۔ وہ تقریباً بارہ برس تک درس و تدریس میں مصروف رہے ۔ جنوری 1887 ء میں ان کا تبادلہ لاہور ہوگیا وہ کرسچین کالج لاہور کے بورڈنگ ہاؤس میں طلبہ کے اتالیق مقرر ہوئے مگر بہت جلد اس کام سے دل برداشتہ ہو گئے ۔ جون 1987ء میں دلی واپس آگئے۔ 1889 اپنے عہد سے مستعفی ہو گئے ۔


حالی نے جب تلاش معاش میں دلی کا رخ کیا تو حسن اتفاق سے ان کی ملاقات نواب مصطفی خاں شیفتہ سے ہوئی ۔ حالی نے تقریبا آٹھ سال شیفتہ کے ساتھ گزارے ۔ شیفتہ اردو عربی و فارسی کا عمدہ ذوق رکھتے تھے ۔ وہ ایک اچھے شاعر اور اعلی درجے کے سخن فہم تھے ۔ اپنی سخن سنجی اور سخن فہمی کی بدولت اپنے معاصرین میں قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے ۔ وہ جھوٹ اور مبالغے سے پر ہیز کرتے تھے ۔ ان کی تنقیدی صلاحیتوں کا اندازہ ان کے تذکرے گلشن بے خار سے لگایا جاسکتا ہے ۔ شیفتہ کی صحبت حالی کے حق میں بہت مفید ثابت ہوئی ۔ یہیں ان کے مذاق سخنن کو جلا ملی ۔ اسی زمانے میں غالب کی عقیدت حالی کے دل میں بڑھی۔ وہ لکھتے ہیں۔


’’نواب صاحب جس درجے کے فارسی اور اردو زبان کے شاعر تھے اس کی بہ نسبت ان کا مذاق شاعری بہ مراتب بلند اور اعلی تر واقع ہوا تھا انھوں نے ابتدا میں اپنا فارس

ی اور اردو کلام مومن خان مومن کو دکھایا تھا مگر ان کے مرنے کے بعد وہ غالب سے مشورہ سخن کرنے لگے ۔میرے وہاں جانے سے ان کا پرانا شعر و سخن کا شوق جو مدت سے افسردہ ہوگیا تھا، تازہ ہوگیا ، اور ان کی صحبت میں میرا طبعی میلان جو اب تک مکروہات کے سبب اچھی طرح ظاہر نہ ہونے پایا تھا چمک اٹھا۔ اسی زمانے میں اردو اور اکثر فارسی غزلیں نواب صاحب مرحوم کے ساتھ لکھنے کا اتفاق ہوا۔ انھیں کے ساتھ میں بھی جہانگیر آباد سے اپنا کلام غالب کے پاس بھیجا کرتا تھا۔ مگر در حقیقت مرزا کے مشورے و اصلاح سے مجھے چنداں فائدہ نہیں ہوا جو فائدہ نواب صاحب مرحوم کی صحبت سے ہوا۔ وہ مبالغے کو نا پسند کرتے تھے اور حقائق و واقعات کے بیان میں لطف پیدا کرنا اور سیدھی سادی اور سچی باتوں کو محض حسن بیان سے دل فریب بنانا اسی کو منتہائے کمال شاعری سمجھتے تھے۔ چھچھورے اور بازاری الفاظ و محاورات اور عامیانہ خیالات سے شیفتہ اور غالب دونوں متنفر تھے ۔‘‘ ( مقالات حالی حصہ اول )

حالی کے ایک شعر میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :

حالی سخن میں شیفتہ سے مستفیض ہوں

شاگرد ہوں مرزا کا مقلد ہوں میر کا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے