Ad

ولی دکنی کی رباعی گوئی

ولی دکنی کی رباعی گوئی

 

ولی دکنی کی رباعی گوئی

Wali dakkani ki rubai goyi

ولی صرف اپنے عہد کے ہی اہم شاعر نہیں ہیں بلکہ ان کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ انھوں نے شمالی ہند کے شعرا کو ریختہ یا اردو میں شعر کہنے کی طرف راغب کیا۔ مولوی نجم الغنی ولی کو اردو کا چاسر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :


... ولی نے دہلی میں آ کر اس فن ( شاعری ) کو رونق بخشی اور ہندوستان میں تخم شاعری کا بویا ۔ اسے نظم اردو میں وہی رتبہ حاصل ہے جو انگریزی نظم میں چاسر کو اور فارسی میں رودکی کو اور عربی میں مہلہل کو۰۰۰‘‘


( مولوی نجم الغنی ۔ بحرالفصاحت صفحہ 31 مطبع نول کشور لکھنو 1926 ء)


حضرت شاہ سعد اللہ گلشن اس دور کے ایک مشہور بزرگ تھے۔ ان ہی کے مشورے پر ولی نے فارسی میں کہے گئے موضوعات پر طبع آزمائی کی اور یہ ثابت کیا کہ اردو میں اعلی شاعری ممکن ہے۔ غزل ولی کا خاص میدان ہے لیکن رباعی میں بھی ولی نے اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کو نمایاں کیا۔


ولی کی رباعیوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ نور الحسن ہاشمی کے مرتبہ کلیات ولی میں صرف 26 رباعیاں ملتی ہیں۔ لیکن اتنے کم سرمائے کے باوجود اردو رباعی گوئی میں اہم مقام رکھتے ہیں ۔ ولی کی رباعی گوئی کے بارے میں ڈاکٹر سیدہ جعفر لکھتی ہیں :


" ان کی رہاعیوں میں فنی رچاؤ ، پختگی ، ادبی لطافت اور حسن بیاں سب ہی خصوصیات ملتی ہیں ۔ ولی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے حسن حقیقی کو حسن مجازی کے استعاروں میں بڑا دل فریب اور تیکھا بنا کر پیش کیا ہے ۔ ولی کی اکثر رباعیاں متصوفانہ رنگ میں ڈوبی ہوئی ہیں لیکن ان کے دل کش انداز نے ان رباعیوں کو بڑا حسین اور پراثر بنا دیا ہے

(دکنی رباعیاں ص159)

ولی دکنی کی رباعیاں تشریح و خلاصہ

ولی بنیادی طور پر دکنی زبان کے شاعر ہیں لیکن انھوں نے دکنی شاعری کو ایک نیا آہنگ دیا ۔ دکنی کوشمالی ہند میں بولی جانے والی ملی جلی زبان ریختہ سے آمیخت کر کے اپنے شعری اظہار کا وسیلہ بنایا جس کے بعد شمالی ہند کے فصحا نے بھی اس زبان میں اپنے کمالات دکھائے ۔ حالاں کہ وہ دکن میں بولی جانے والی زبان کو لچر اور پوچ سمجھتے تھے ۔ ولی کے بارے میں ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:


" ولی نے شمال اور جنوب کی زبان کو ملا کر ایک ایسا ادبی روپ دیا جو بہ یک وقت دونوں کے لیے قابل قبول تھا۔ اظہار کے اس روپ نے اردو کو فارسی کی جگہ بٹھا دیا ۔ یہ اس وقت سارے معاشرے کی شدید خواہش اور ضرورت تھی "

( تاریخ ادب اردو جلد اول ص 541 - 540 )


اکثر ناقدین کے مطابق ولی کی شاعری میں اگر چہ ارضیت نمایاں طور پر محسوس ہوتی ہے لیکن تصوف کے عناصر بھی ان کے ہاں نظر آتے ہیں اور ان کا کمال یہ ہے کہ سادہ الفاظ اور آسان تراکیب کے استعمال سے وہ تصوف کے مشکل مسائل کو قابل فہم بنادیتے ہیں ۔ وحدت الشہود کے قائل صوفیا کے مطابق اللہ کُل ہے اور ساری کائنات اس کُل کا جزو ہے جب کہ کچھ صوفیا کے مطابق یہ تصور یونانی اور ہندوستانی عقائد سے متاثر ہے جس سے اسلام کی روح مسخ ہوتی ہے۔ ولی کے ہاں وحدت الشہود کا تصور ان کی اس رباعی میں دیکھیے :


رکھ دھیان کوں ہر آن تو معبود طرف

رکھ سیس ہوں ہر حال میں مسجود طرف


معدوم کوں موجود سوں نسبت کیا ہے

اولی ہے کہ مائل ہو توں موجود طرف


جب انسان کو ذات ربانی کا عرفان حاصل ہو جائے تو اس کے آگے ساری کائنات ایک حقیر شئے بن جاتی ہے ۔ ولی نے اپنی ایک رباعی میں اس پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ وہ عرفان کو جام حقیقت سے استعارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر کسی کے دل کو حقیقت کا ادراک ہوجائے اور اسے ذات الہی کا عرفان حاصل ہو جائے تو پھر اس کا رتبہ بلند ہو جاتا ہے ۔ معمولی شراب استعمال کرنے کے بعد کوئی شخص مست ہوسکتا ہے لیکن شراب معرفت کی بدولت جو مستی کی کیفیت طاری ہوتی ہے وہ اسے عرفان کی منزل سے ہم کنار کرتی ہے ۔ شراب معرفت کا جام پی کر انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اسے یہ ساری دنیا اور یہاں کی نعمتیں ایک تنکے سے بھی کم نظر آتی ہیں اور عرش عظیم اس کے پیروں تلے آجاتا ہے ۔ اسی طرح ایک اور باعی میں ولی زندگی کی بے ثباتی کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔ ریگستان میں سفر کرتے ہوئے مسافر کو چمکتی ہوئی ریت سے یہ دھوکا ہوتا ہے کہ آگے پانی ہے جب کہ حقیقت میں وہ نظروں کا دھوکا ہوتا ہے ۔ انسان کی ہستی کا عالم بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔ جس طرح پانی کے اوپر بے حد خوب صورت نظر آنے والے بلبلے کی حیثیت اصل میں کچھ نہیں ہوتی اور چند ہی لمحوں میں وہ فنا ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح ہستی کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ حیات انسانی بھی چند لمحوں کی ہوتی ہے ۔ اس لیے ایسی بے ثبات شئے سے دل کو لگانا مناسب نہیں کیوں کہ ہستی سے دل لگانے کا مطلب ہے بربادی۔  


ہر مسلمان رسول کریم کی محبت سے متّصف ہوتا ہے ۔ ولی کے ہاں بھی محبت دل کی گہرائیوں سے کارفرما ہے ۔ رسول اکرم کی ذات اقدس کی شان میں ان کی یہ رباعیاں دیکھیے :


اے جیو دو عالم کا ترے مکھ پہ فدا

محتاج تری ذات سوں سب شاہ و گدا

مج عاجزِ و بیکس پی نظر رحم سوں کر

اے منظرِ ہر ناظر و منظور خدا


مئے خانہ جب کا جس نے سر جوش کیا

اس ہاتھ سوں عالم نے قدح نوش کیا

اس سید عالم کوں جو دیکھا یک بار

یک بارگی عالم کوں فراموش کیا


تجھ مکھ کا ہے یو پھول چمن کی زینت

تجھ شمع کا شعلہ ہے لگن کی زینت

فردوس میں نرگس نے اشارے سے کہا

یہ نور ہے عالم کے نین کی زینت


ولی فلسفی نہیں ہے۔ ان کے ہاں زندگی کی فلسفیانہ توجیہہ نہیں ہے۔ وہ زندگی کو اپنے ذوق جمال کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ ان کے جمالیاتی احساس نے زندگی کو اس کے اصلی رنگ میں سمجھنے کی طرف مائل کیا۔ محبوب کی بے التفاتی ان کے لیے سوہان روح ہے۔ کہتے ہیں :


رکھتا ہوں میں دل میں درد جاں کاہ ہنوز

اے شوخ نہیں ہوا تو آگاہ ہنوز

تجھ غم سوں ہیں گرچہ چشم پر آب ولے

سینے میں بجا ہے آتش آہ ہنوز


ولی کو زبان پر زبردست عبور حاصل تھا۔ اپنے کمال فن، سلاست بیان اور ندرت اظہار کے ذریعے انھوں نے دقیق مضامین کو سادہ اور آسان زبان میں پیش کیا۔ ولی کی شاعری میں الفاظ اور تراکیب کا بر محل اور بے ساختہ استعمال ان کی زبان و بیان پر قدرت اور سلیقہ مندی پر دلالت کرتے ہیں ۔ ولی کو ایک جمال پرست شاعر کہا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے حسن کی ابدیت کو محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے ارضی پہلو پر بھی توجہ کی ۔ وہ عشق کے والہانہ جذبات کو لفظوں میں ڈھالنے کے ہنر سے بخوبی واقف تھے۔ ولی کے ہاں ان کے عہد کے اعلی ادبی و فکری معیارات کا پر تو دیکھا جاسکتا ہے۔


تصوف اور اخلاق کے ساتھ ساتھ ان کے ہاں عاشقانہ جذبات اور شوخی آمیز بیباکانہ کیفیت بھی موجود ہے ۔ ایک رباعی میں وہ اپنے محبوب سے بوسے کی درخواست کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ تو اپنے حسن کی دولت کی زکوۃ کے طور پر مجھے ایک بوسہ دے۔ تیرے حکم پر ہی اس دادو دہش کا انحصار ہے۔ اب اس میں تاخیر نہ کر ۔ رباعی یوں ہے:

Ugc net urdu syllabus

منگتا ہے مرا دل کہ اپس لب کے ہات

اس حسن کی دولت سوں دے یک بوسہ زکات


تجھ حکم پر یو داد و دہش ہے موقوف

تاخیر نہ کر اس منے ، ہے بات کی بات


یہ شوخ ولی کا خاص انداز ہے جو ان کی دوسری شعری تخلیقات میں بھی نظر آ تا ہے ۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے