Ad

میر انیس کے حالات زندگی

 

میر انیس کے حالات زندگی

میرانیس کے حالات زندگی

Meer Anees ke halat e zindagi

میر ببر علی نام انیس تخلص 1802 ء میں بہ مقام فیض آباد پیدا ہوئے والد کانام میرمستحسن خلیق اور دادا میر حسن دہلوی (مثنوی سحر البیان کے شہرت یافتہ ) جومیر ضاحک کے صاحبزادے تھے گویا سارا خاندان علم و فضل کا حامل تھا۔ میر حسن نے اپنے دیوان ( فارسی ) کے مقدمے میں سلسلۂ خاندان کا اظہار یوں کیا ہے کہ ان کے جد اعلی میر امامی موسوی، یہ عہد شاہ جہاں ہرات سے آئے اور پرانی دلی میں آباد ہوئے ۔ انھیں سہ ہزاری منصب حاصل تھا ۔

" مخفی نماند کہ اصل این مولف ابن میر غلام حسین ابن میر عزیز اللہ ، ابن میر برات اللہ ابن میرامامی موسوی از شاہ جہاں آباد است کہ میر امامی موسوی در وقت شاہ جہاں بادشاہ از ہرات آمده بہ منصب سہ ہزاری ذات بین الاقران ممتاز گردیدند " ( واقعات انیس سید مہدی حسن احسن صفحہ 20 )


انیس کے والد فیض آباد سے عہد امجد علی شاہ میں لکھنو آئے ۔ اس زمانے میں میر خلیق مرثیہ گوئی میں میر ضمیر کے ہم رتبہ تھے۔ انہی کے مشورے پر انیس نے مرثیہ گوئی کی جانب خصوصی توجہ کی ۔ انیس کو بچپن ہی سے شاعرانہ ماحول ملا ، ابتدائی تعلیم لکھنو میں ہوئی ، عربی و فارسی درسیات فیض آباد میں میر نجف علی سے اور لکھنؤ میں مولوی حیدر علی اور مفتی میر عباس سے پڑھیں ۔ بعد ازاں شاعری میں اپنے والد سے ضروری معلومات حاصل کیں ۔ شروع شروع میں غزل گوئی کا شوق رکھتے تھے ۔انھوں نے صرف ونحو ، معنی و بیان، عروض ومنطق ، تاریخ اسلام ، طب اور رمل کا مطالعہ کیا۔ گھوڑے کی سواری ، فن سپہ گری شمشیر زنی اور بنوٹ میں مہارت حاصل کی ۔


واقعات انیس میں میرانیس کا حلیہ اس طرح ملتا ہے :

’’سانولا رنگ، قد مائل بہ درازی ، چہرے کے نقش و نگار مجموعی طور پر خوش نما تھے ، ورزشی جسم ، ظاہر میں ایسے قوی اور فربہ نہ معلوم ہوتے تھے مگر دراصل چوڑا سینہ اورسڈول بازو جسم کی کساوٹ پر دلالت کرتے تھے ۔ علاوہ ورزش کے دیگر فنون سپہ گری سے بھی باخبر تھے داڑھی باریک کتر واتے تھے۔ عموما ڈھیلی مہری کا پاجامہ اور بارہ کلی کا کرتہ پہنتے تھے اس پر انگرکھا پہننے کی ضرورت نہ تھی ۔ کرتے کے دونوں آستینیں بہت بار یک چنی جاتی تھیں جو لچھے دار ہوکر کہنیوں تک خود بخود چڑھ جاتی تھیں ۔ پنچ گوشہ ٹوپی پہنتے تھے جس کے ہر گوشے میں صراحی اور کنٹھا یا پان بنے ہوتے تھے ۔ سادہ اور سفید لباس سے زیادہ شوق تھا ۔ کاندھے پر ایک رومال لنکلاٹ کا پڑا رہتا تھا۔ ہاتھ میں ہروتی کی جریب ، خوش مزاجی اور بذلہ سنجی میں تنک مزاجی بھی شامل تھی۔ غیور اور صاحب ہمت تھے ۔‘‘ (صفحہ 33)


میرانیس لکھنؤ کے علاوہ کچھ عرصہ بنارس میں بھی رہے ۔ پٹنہ (عظیم آباد) سے واپسی کے بعد اپریل میں 1871ء میں حیدرآباد دکن کاسفر کیا۔ حیدرآباد پہنچ کر وہ بیمار پڑ گئے اس کے باوجود مجالس پڑھتے رہے ۔ ان کی مجالس میں ہزاروں سامعین موجود ہوتے تھے ضعیفی میں کوئی ایک ماہ درد سر اور تپ میں مبتلا رہے اور اسی مرض میں 29 شوال روز دوشنبہ 1291 ھ مطابق 10 ستمبر1874ء پنچھتر برس کی عمر میں وفات پائی اور اپنے باغ واقع سبزی منڈی لکھنو میں دفن ہوئے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے