Ad

ذوق کے قصائد

 

ذوق کے قصائد


قصیدہ ہماری کلاسیکی شاعری کی ایک اہم صنف ہے۔ قصیدہ کے ابتدائی نمونے ہمیں دکنی میں ملتے ہیں۔ شمالی ہند میں سودا نے قصیدے کی صنف کو بامِ عروج پر پہنچایا ۔ سودا کے بعد غالب اور مومن کے ہم عصر شعر شیخ محمد ابراہیم ذوق ( 1788 - 1854 ) نے اس میدان میں سودا کی ہم سری کی۔ کئی قصیدے لکھے ۔ ان میں سے بہت کچھ تلف ہوگئے جس میں وہ قصیدہ بھی شامل ہیں جس میں ذوق نے اٹھارہ زبانوں میں اٹھارہ شعر لکھے ہیں ، اسی قصیدہ پر بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی کے موقع پر الشعراء کے علاوہ ایک اور خطاب سلطان الشعراء عطا کیا گیا۔ ان خطابات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذوق اپنے زمانے کے ممتاز قصیدہ نگار تھے ۔ ان کے قصائد فنی اعتبار سے فارسی کے قصیدہ گو شعراء خاقانی اور انوری کے ہم پلہ قرار دیے گئے ہیں ۔

      ذوق نے قصیدے کو نئی لفظیات کا ذخیرہ دیا ۔ ذوق کو قوت اختراع ، علمی اور لسانی ہم گیری اور زور کلام ان کے قصیدوں کی شناخت بن گئے۔

ذوق کے قصائد

Zouq ke qasaid

     ذوق قصیدہ گوئی میں سودا کے ہم پلہ شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ زندگی میں ان کے قصائد کو مرتب نہ کیا جاسکا ۔ ان کے انتقال کے تین سال کے بعد 1857 کے ہنگاموں میں آگ ان کے گھر کو کچھ اس طرح لگی کہ جو تھا سب جل گیا۔ جو قصائد بچ رہے وہ تعداد میں 24 ہیں۔ پہلا قصیدہ جو ملتا ہے وہ اکبر شاہ ثانی کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا اور سب سے آخری قصیدہ 1854 میں جشن عید الاضحی کے موقع پر بہادر شاہ ظفر کے نذر کیا گیا تھا۔

     ذوق کے ممدوحین کی تعداد بہت کم ہے۔ ان کے بیش تر قصائد اکبر شاہ ثانی ( 12 ) اور بہادر شاہ ظفر ( 15 ) کی مدح میں ہیں۔ ایک قصیدہ شہزادہ جہانگیر کی شادی کے موقع پر لکھا گیا۔ ایک شہزادہ سلیم کے جشن شادی میں پیش کیا گیا۔ ایک قصیدہ کسی بزرگ سید عاشق نہال کی تعریف میں ہے۔ ایک قصیدہ جس کا مصرع ہے :

Ugc net urdu syllabus

جب کہ سرطان و اسد ، مہر کا ، ٹھہرا مسکن

ذوق کے قصیدوں کا اسلوب

     وہ قصیدہ ہے جس میں کئی صنائع بدائع صرف کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 18 زبانوں میں اٹھارہ شعر لکھے ہیں۔ ذوق کی اس قادر الکلامی پر بادشاہ اکبر شاہ ثانی نے انھیں " خاقانیِ ہند" کا خطاب عطا کیا۔ اس وقت ذوق کی عمر کوئی چالیس پینتالیس سال رہی ہوگی ۔ اس واقعے کے چند سال بعد اکتوبر 1837 ء کو البر شاہ ثانی کا انتقال ہوگیا اور مرزا ابو ظفر تخت نشین ہوئے اور ابو ظفر سراج الدین بہادر شاہ لقب اختیار کیا۔ جشن تاج پوشی ( 7 جنوری 1837 ) کو مسرت میں ذوق نے ایک شاندار قصیدہ پیش کیا جس کا مطلع ہے :

ہے آج جو یوں خوش نما نور سحر رنگِ شفق

پر تو ہے کس خورشید کا نور سحر رنگ


اس قصیدہ ہر ذوق کو ملک الشعراء کا خطاب ملا۔

ایک سال (1854) بہادر شاہ ظفر سخت بیمار ہوگئے ۔ صحت یابی کے بعد مختلف شاعروں نے بہ طور تہنیت غسل صحت ، قصائد و قطعات تاریخ پیش کیے۔ غالب کی یہ مشہور غزل بھی اسی موقع پر کہی گئی تھی۔

پھر اس انداز سے بہار آئی

کہ ہوئے مہر و مہہ تماشائی


کیوں نہ عالم کو ہو خوشی غالب 

شاہِ دیں دار نے شفا پائی 


ذوق نے اس جشن صحت کے موقع پر ایک معرکۃ الآرا قصیدہ :

ز ہے نشاط اگر کیجئے اسے تحریر

پیش کیا جس کے صلے میں انھیں ایک زنجیر فیل اور ایک انگوٹھی مرصع عطا کی گئی اور خدمت کے لیے چار سپاہی مقرر کیے گئے۔ اس قصیدے کے کچھ عرصہ بعد ذوق نے ایک اور زور دار قصیدہ " شب جو میں اپنے سرِ بستر خواب راحت " لکھا۔ اس پر ایک گاؤں جاگیر میں دیا گیا۔ یہ قصیدہ ذوق کا آخری قصیدہ تھا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے