Ad

فارسی میں رباعی کی روایت

 



اردو رباعی کا آغاز و ارتقا

      دکن میں اردو شاعری کے آغاز کے ساتھ ہی رباعی کا آغاز ہوا۔ اردو کی بیشتر اصناف کی طرح رباعی بھی دکن ہی میں منصۂ شہود پر آئی اور پھر اس نے شمالی ہند کے شعر کو اپنا اسیر کیا۔اردو کے تقریبا ہر شاعر نے رباعی کہی ہے ۔ اخلاق ، معرفت ، تصوف ، مذہب ، فلسفہ ، عشق کے موضوعات کو رباعی میں خاص طور پر برتا گیا ۔رباعی گو شعرا نے فارسی کے مشہور شاعر عمر خیام کی تقلید میں خمریات کو بھی اپنا موضوع بنایا ۔ دکنی یا اردوئے قدیم کے عہد سے لے کر آج کے دور میں بھی رباعی نے اپنا سکہ جمائے رکھا۔ گو کہ اس کی ساخت قدرے مشکل ہے لیکن کسی بھی زمانے میں اس کی مقبولیت کم نہ ہوسکی ۔شمالی ہند کے شعرا میں سے صرف چند ہی نے علاحدہ طور پر رباعی کے مجموعے ترتیب دیے لیکن دکن کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں کئی ایسے شاعر پیدا ہوئے جنھوں نے رباعی کے مجموعے ترتیب دے کر شائع بھی کیے۔


فارسی میں رباعی کی روایت

Farsi me rubai ki riwaayat

     رباعی فارسی شاعری کی مقبول ترین صنف ہے۔ اور اہل ایران کی ایجاد ہے۔ چار مصرعوں پر مشتمل اس مختصر صنف شعر کو دوسری اصناف سے وزن کی بنیاد پر الگ کیا جاتا ہے۔ رباعی بحر ہزج میں لکھی جاتی ہے۔ فارسی کے عالموں نے اسے دو بیتی بھی کہا ہے اور ترانہ بھی۔ اس صنف کا نام ترانہ اس لئے بھی مقبول ہوا کہ ترانہ سرود و نغمہ کو کہتے ہیں ہے ہیں اور ایران کے ماہرین موسیقی نے اس صنف سخن کو بڑے خوبصورت ؟ دلکش اور موثر راگوں میں پیش کیا تھا جو اہل دل کے لیے وجد میں آنے کا سبب بنتا تھا۔ بعد میں رباعی صوفیا کرام کی سماع کی محفلوں کے علاوہ بادشاہوں کے دربار میں بھی گائی جانے لگی ۔ 

     ایک عرصے تک رودکی (وفات 329 ھ م 940ء) کو رباعی کا موجد تسلیم کیا جاتا رہا۔ کہتے ہیں کہ ایک لڑکا جوز کی گوٹیاں بنا کر کھیل رہا تھا۔ ساری گوٹیاں گڑھے میں چلی گئیں لیکن ایک جوز کنارے پر کچھ دیر تک رکا رہا اور پھر وہ بھی گڑھے میں گر پڑا۔ لڑکے نے خوشی سے چلا کر کہا:

غلطاں غلطاں ہمی رود تالب گوئے


     رود کی کو یہ بحر پسند آئی اور اس نے بحر میں چار مصرعے کہ ڈالے اور اس طرح رباعی وجود میں آئی ۔ لیکن بعض محققین کے مطابق رباعی رودکی سے قبل بھی موجود تھی ۔ چنانچہ حافظ محمود شیرانی ، عبدالشکور بلخی کو پہلا رباعی گو شاعر قرار دیتے ہیں اور سید سلیمان ندوی بایزید بسطامی کو پہلا رباعی گو کہتے ہیں ۔ ۔ بہر حال یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس صنف کا موجد کون ہے ۔ ایک بات ضرور ہے کہ رودکی نے رباعی کے فن کو مضبوط کیا اور اس کی ساخت اور اوزان کے اصول مرتب کیے ۔ اس نے رباعی کے 24 اوزان مقرر کیے جو سب کے سب بحر ہزج میں ہیں ۔ دیگر ماہرین کے مطابق رباعی کے بیالیس ہزار سے زیادہ اوزان ہو سکتے ہیں ۔ویسے عام طور پر رباعی کا ایک وزن بہت مقبول ہے یعنی " لا حول ولا قوة الا بالله "

     مختصر ہونے کی وجہ سے اس صنف میں جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان کا کینوس کافی وسیع ہو جاتا ہے ۔ اس کا ایک متعینہ وزن ہوتا ہے چنانچہ شاعر کو وزن کی پابندی کے ساتھ ساتھ وحدت فکر ، تسلسل اور خیال کی برجستگی کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ پہلے مصرع میں کسی خیال کی تمہید بیان کی جاتی ہے ، دوسرے اور تیسرے مصرع میں خیال کو آ گے بڑھایا جاتا ہے اور چوتھا مصرع قول فیصل کا کام کرتا ہے ۔ بایزید بسطامی ، رودکی ، اور عبدالشکور بلخی کے بعد فارسی کے اہم رباعی گو شاعر سلطان ابو سعید ابو الخیر ہیں جن کے ہاں تصوف ، اخلاق ، عشق حقیقی اور فلسفیانہ مضامین غالب ہیں ۔محقیقین کا خیال ہے کہ پہلی بار موضوعات پر مبنی رباعیاں ابو سعید ابو الخیر نے لکھی ۔ان کے بعد فرید الدین عطار اور مولانا روم نے ان موضوعات کو اپنی رباعیوں میں پیش کیا۔

UGC net urdu syllabus

     مولانا روم کے ہاں خمریات کے موضوع پر بھی رباعیاں ہیں لیکن عمر خیام نے اس موضوع کو اس خوبصورتی سے برتا کہ خمریات اور عمر خیام کا ایک دوسرے سے جڑ کر رہ گئے۔ ویسے خیام کے ہاں شراب کے ذکر کے بارے میں سید سلیمان ندوی ( خیام صفحہ 331 ) کا خیال ہے کہ یہ شراب معرفت ہے ۔

      خیام کے بعد سعدی ، جامی اور حافظ کے نام رباعیوں کے ضمن میں اہم مانے جاتے ہیں۔ہندوستان کے صوفی شعرا میں بوعلی شاہ قلندر اور صوفی سرمد نے بھی تصوف کے موضوعات پر رباعیاں لکھیں ۔ ان کے علاوہ غالب ، اقبال ، امجد اور کئی دوسرے نامور شعرا نے فارسی رباعیاں لکھی ہیں ۔


     فارسی رباعیوں میں خمریات اور عشقیہ موضوعات کے علاوہ عشق حقیقی ، توحید و معرفت ، اخلاق اور فلسفہ اہم جزو رہے ہیں ۔خمریات اور عشقیہ رباعیوں میں بھی صوفیا نے بادۂ معرفت اور عشق حقیقی کو محسوس کیا اور اسی لیے رباعی صوفیا کی محفلوں میں گائی جاتی رہی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے