Ad

رباعی کی تعریف اور اسکی فنی خصوصیات

 

رباعی کی تعریف اور اسکی فنی خصوصیات

رباعی کا آغاز

Rubai ka aaghaz

رباعی شاعری کی ایک خاص صنف ہے ۔ رباعی کے آغاز سے متعلق مختلف روایتیں پائی جاتی ہیں ۔ ایک روایت تو یہ ہے کہ ابوالحسن رودکی عید کے روز غرنہ کے کسی باغ میں بیٹھا موسم اور نظارے سے لطف لے رہا تھا۔ وہیں پر چند نو خیز لڑکے اخروٹوں سے کھیل رہے تھے ۔ ان میں سے ایک نوخیز اور خوب صورت لڑکے نے ڈھلان پر اخروٹ لڑھکایا ۔ اخروٹ لڑھکتا جاتا تھا۔ اس کی حرکت و آواز سن کر لڑکے کے منھ سے بے ساختہ ایک جملہ نکلا :

" غلطاں غلطاں ہمی رود تا سر گو " 

جو کہ وزن میں تھا یہ قول موزوں رودکی کو پسند آیا کہ اس وزن کا تعلق بحر ہزج سے ہے ۔ اس نے لڑکے کے اس جملے پر اور تین مصرع لگائے اور یوں رباعی وجود میں آئی۔ 

     بعض تذکر نویسوں کے مطابق یعقوب لیث صفاری نے اپنے بیٹے کے منھ سے یہ جملہ سنا اور متاثر ہوا ۔ دوسرے دن اس پر گرہ لگانے کے لیے اس نے شعرا و ادبا کے سامنے یہ جملہ پیش کیا۔ابوالحسن ردوکی نے اس مصرع پر تین مصرعے لگا کر بات مکمل کی اور اس طرح رباعی کی صورت نکل آئی ۔ بعد میں دیگر شعرا نے کلام کی اس نئی ہئیت کی پیروی کی اور اس طرح رباعی کو رواج ملا۔

     رباعی کے آغاز سے متعلق روایتوں میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن سبھی تذکرہ نولیس اس بات پر متفق ہیں کہ رباعی کا موجد ابوالحسن رودکی ہے۔

      تذکرہ نویسوں کے مطابق منظوم کلام کی یہ نئی ہئیت اس قدر مقبول و مشہور ہوئی کہ اسے سن کر جوان لڑکیاں گھروں سے نکل آتیں ۔ اسی بنا پر اسے ترانہ بھی کہا جانے لگا کہ اس کے وزن میں اس قدر ترو تازگی ہے کہ اس سے دل و جان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔


     اس شعری صنف میں عرب اور ایران ، ہر دو ملکوں کے شاعروں نے کلام پیش کیا ہے لیکن ایرانیوں نے اسے بے حد رواج دیا اور مقبول بنایا۔ پہلے پہل یہ چار بیتوں میں لکھی جاتی تھی ۔ بعد میں ترک کرکے دو بیتوں ( دو شعروں میں لکھی جانے لگی ۔ اس اکائی میں ہم رباعی کی فی خصوصیات اور موضوعات پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے ۔


رباعی کی تعریف اور فنی خصوصیات

Rubai ki tareef

      رباعی عربی لفظ ہے جو رباع سے مشتق ہے ۔ رباع کے معنی ہیں چار ۔ چوں کہ یہ چار مصرعوں پر یا دو بیتوں پرمشتمل ہوتی ہے ۔ اس لیے رباعی کہلاتی ہے ۔ دو بیتوں کی وجہ سے اسے’’ دو بیتی‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ قدیم زمانے میں اسے ترانہ بھی کہتے تھے لیکن یاد رہے دو بیتی اور ترانہ رہاعی کے موجودہ اور مروج اوزان میں نہیں لکھے جاتے تھے ۔


     اصطلاحاً رباعی اس مختصر نظم کو کہتے ہیں جو صرف چار مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے ۔ جس کا پہلا ، دوسرا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہوتا ہے اور جوخصوص اوزان میں لکھی جاتی ہے۔ 

     رباعی میں کسی بھی موضوع کو اس طرح پیش کیا جا تا ہے کہ مصرع بہ مصرع خیال کا تسلسل و ارتقا پایا جاتا ہے اور چوتھے مصرع میں خیال اپنی تکمیل کو پہنچتا ہے ۔ گویا چوتھا مصرع رباعی کا خلاصہ ہوتا ہے ۔


ہر رات اذیت وہ نئی لاتا ہے

آ آ کے قریں ، پیاس بڑھا جاتا ہے

پھرتا ہوں پکڑنے کو میں دیوانہ وار

سایہ ہے کہ پنجے سے نکل جاتا ہے 


گیا شیخ ملے گا گل فشانی کرکے

کیا پائے گا توہین جوانی کرکے

تو آتش دوزخ سے ڈراتا ہے انھیں

جو آگ کو پی جاتے ہیں ، پانی کرکے 

UGC NET URDU SYLLABUS

     ان دونوں رباعی کے آخری مصرعے اگر نکال دیے جائے تو رباعی نہ صرف ادھورہ رہ جائے گی بلکہ بے معنی و بے اثر ہو جائیں گی ۔ گویا چوتھے مصرعوں ہی پر ان کی معنویت کی تکمیل اور انکی اثر انگیزی منحصر ہے۔ اس لیے اکثر ماہرین نے تاکید کی ہے کہ رباعی کا چوتھا مصرع زوردار ہو۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے