Ad

رباعی کے اوزان اور اشعار کے اوزان

 

رباعی کے اوزان

رباعی کے اوزان 

     رباعی کی ہئیتی نشانیوں میں اس کا وزن بھی ایک نشانی ہے ۔ رباعی چند خصوص اوزان ہی میں لکھی جاتی ہے ۔ ماہرین عروض نے رباعی کے لیے ان اوزان کی پابندی کو لازمی قرار دیا ہے ۔ رباعی کی صنفی شناخت ان مخصوص اوزان میں مضمر ہے، " جن میں سے اگر کسی ایک وزن میں بھی کوئی دو شعر ( یا چار مصرعے ) نہیں ہیں تو وہ رباعی نہیں کہلائیں گے " ۔ رباعی کے ہر مصرع میں " مخصوص وزن " کے چار چار رکن ہوتے ہیں اور یہ چاروں اراکین بیس ماتراؤں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان اراکین کو عروضی اصطلاح میں افاعیل بھی کہتے ہیں ۔ کسی بھی رباعی کے ہر مصرع میں چار افاعیل ہی ہوتے ہیں ۔ یعنی افاعیل کی تعداد گھٹتی یا بڑھتی نہیں ۔ 

     جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ رباعیاں مخصوص اوزان ہی میں لکھی جاتی ہیں اور ماہرین عروض ان مخصوص اوزان سے ہٹ کر لکھی ہوئی چو مصرعی نظموں کو رباعیاں نہیں مانتے ۔ رباعی کے لیے چوبیس (24) اوزان مقرر ہیں جن کا تعلق بحر ہزج سے ہے ۔ یہ چوبیس اوزان، در اصل حسب ذیل دو بنیادی اوزان سے اخذ کیے گئے ہیں ۔


1. مفعول مفَاعیل مَفاعیل فَفَل

2. مفعول مفَاعلن مَفاعیل فعَل


رباعی کے چوبیس اوزان حسب ذیل ہیں :

1. مفعول مفاعیل مفاعیل فعل

2. مفعول مفاعیل مفاعیل فعول

3. مفعول مفاعیل مفاعیلن فع

4. مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع

5. مفعول مفاعیلن مفعول فعل

6. مفعول مفاعیلن مفعول فعول

7. مفعول مفاعیلن مفعولن فع

8. مفعول مفاعیلن مفعولن فاع

9. مفعول مفاعلن مفاعیل فعل

10. مفعول مفاعیلن مفعول فعل

11. مفعول مفاعلن مفاعیلن فع

12. مفعول مفاعلن مفاعیلن فاع


13. مفعولن مفعول مفاعیل فعل

14. مفعولن مفعول مفاعیل فعول

15. مفعولن مفعول مفاعیلن فع

16. مفعولن مفعول مفاعیلن فاع

17. مفعولن مفعولن مفعول فعل

18. مفعولن مفعولن مفاعول فعول

19. مفعولن مفعولن مفاعولن فع

20. مفعولن مفعولن مفعولن فاع

21. مفعولن فاعلن مفاعیل فعل

22. مفعولن فاعلن مفاعیل فعول

23. مفعولن فاعلن مفاعیلن فع

24. مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع


     یہ ہوئے رباعی کے چوبیس اوزان ، جو دو بنیادی اوزان سے اخذ کیے گئے ہیں۔ بعض ماہرین عروض نے انھیں دو گروپ میں ( جنھیں عروضی اصطلاح میں شجرہ کہتے ہیں ) تقسیم کیا ہے۔ مفعول سے شروع ہونے والے اوزان کو ( اوپر کی فہرست کے مطابق 1 تا 12 اوزان ) شجرہ اخرب میں شمار کیا ہے۔ اور مفعولن سے شروع ہونے والے اوزان کو ( فہرست کے مطابق 13 تا 24 اوزان ) شجرۂ اخرمہ میں۔


     ماہرین عروض نے ان چوبیس میں سے کسی بھی وزن میں رباعی کہنے کی اجازت دی ہے ۔ بلکہ یہاں تک کہ آزادی دی ہے کہ رباعی کے چاروں مصرعے مختلف اوزان میں لکھے جاسکتے ہیں۔ اس کے باوجود بہت کم رباعی گو ہیں جنھوں نے اس آزادی کا بھر پور استمعال کیا ہے۔ چند مخصوص اوزان ہی میں رباعیاں لکھی گئی ہیں۔ چند ایک رباعیوں کی تقطیع پیش کی جارہی ہے تاکہ آپ رباعی کے اوزان کا اندازہ کر سکیں ۔

1

ہر ایک سے، سنا نیا، فسانہ ہم، نے

دیکھا دنیا، میں اک ، زمانہ ہم ، نے

اول یہ، تھا کہ واقفیت، پہ تھا ناز

آخر یہ کھلا کہ کچھ نہ جانا ہم نے

اکبر الہ آبادی


ہر اک س _ سنا نیا _ فسانہ ہم _ نے 

مفعول _ مفاعلن _ مفاعیلن _ فع


دیکھا دن _ یا م اک _ زمانہ ہم _ نے

مفعولن _ فاعلن _ مفاعیلن _ فع


اول یہ _ تھا کِ وا _ ق فی یت پ _ تھ ناز

مفعولن _ فاعلن _ مفاعیل _ فعول


آخر یہ _ کھ لا کِ کچھ _ نَ جانا ہم _ نے

مفعول _ فاعلن _ مفاعیلن _ فع

2

اس زلف، نے ہم سے لے، کے دل بستہ، کیا

ابرو نے ، کجی کے ڈھب ، کو پیوستہ، کیا

آنکھوں نے ، نگہ نے ، ان مژہ نے کیا کیا 

کیفی کیا ، دیوانہ کیا ، خستہ کیا

نظیر اکبر آبادی

UGC net urdu syllabus

اس زلف _ ن ہم سِ لے _ کِ دل بس تہ _ کیا

مفعول _ مفاعلن _ مفاعیل _ فعل


ابرو نِ _ کجی کِ ڈھب _ کُ پے وستہ _ کیا

مفعول _ مفاعلن _ مفاعیل _ فعل


آنکھوں نِ _ نگہہ نے ان _ مژہ نے کیا _ کیا

مفعول _ مفاعلن _ مفاعیلن _ فع


کیفی کِ _ یا دیوانَ _ کِ یا ، خستہ _ کیا

مفعول _ مفاعیل _ مفاعیل _ فعل 

3

ہے تیز ہوا اور گھنی بارش بھی

دل ایک حویلی ہے بوسیدہ بھی

بس ایک یہی شے ہے ورثے میں ملی

رہ رہ کے مٹی جھڑی جائے اس کی


ہے تیز _ ہوا اور _ گھنی بارش _ بھی

مفعول _ مفاعیل _ مفاعیلن _ فع


دل ایک _ حویلی ہے _ بوسیدہ _ سی

مفعول _ مفاعیلن _ مفعولن _ فع


بس ایک _ یہی شے ہے _ ورثے م _ ملی

مفعول _ مفاعیلن _ مفعول _ فعل


رہ رہ کے _ مٹی جَھ _ ڑ جائے اس _ کی

مفعولن _ مفعول _ مفاعیلن _ فع


     پہلی رباعی کے پہلے تین مصرعوں میں تین مختلف وزن استمعال کیے گئے ہیں۔ دوسری رباعی کے آخری دو مصرعوں میں دو مختلف اوزان استمعال کیے گئے ہیں۔ البتہ آخری رباعی کے چاروں مصرعوں میں چار مختلف وزن استمعال کیے گئے ہیں جو اس بات کے شاہد ہیں کہ رباعی کے چار مصرعوں میں چار مختلف اوزان استمعال کیے جاسکتے ہیں۔


خلاصہ

رباعی اس مختصر نظم کو کہتے ہیں جو چار مصرعوں یا دو اشعار ( دوبیتوں ) پر مشتمل ہوتی ہے ۔ جس میں عموما پہلا، دوسرا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہوتا ہے ۔ جو چوبیس (24) مقررہ اوزان میں لکھی جاتی ہے ۔ رباعی کے ہر مصرع میں بیس ماتراؤں پرمشتمل چار افاعیل ہوتے ہیں ۔ ان افاعیل کی تعداد گھٹتی یا بڑھتی نہیں ۔ در اصل رباعی ایک ہئیتی صنف سخن ہے یعنی یہ اپنی مخصوص ہئیت کے سبب پہچانی جاتی ہے ۔ رباعیاں مردف اور غیر مردف بھی ہوا کرتی ہیں ۔ایسی غیر مردف رباعی جس کے چاروں مصرع مقفی ہوتے ہیں اسے غیر خصی رباعی کہتے ہیں ۔ قدیم زمانے میں رباعی کو دو بیتی یا ترانہ بھی کہا جاتا تھا۔ دو بیتی اور ترانہ کے اوزان ، رباعی کے مروج اوزان سے مختلف ہوا کر تے تھے ۔ 

     رباعی کسی خاص موضوع یا مضمون کی پابند نہیں ۔اس میں حکیمانہ ، صوفیانہ ، فلسفیانہ ، اخلاقی ، بزمیہ ، عشقیہ ، خمریہ۔۔۔ غرض کوئی بھی موضوع یا مضمون پیش کیا جاسکتا ہے لیکن اس بات کا لحاظ ر ہے کہ مصرع بہ مصرع خیال میں تسلسل و ارتقا پایا جائے ۔ اور چوتھے مصرع پر پہنچ کر مضمون مکمل ہو جائے ۔ گویا چوتھا مصرع کلائمکس (Climax) کاسا اثر رکھتا ہے۔ 

     رباعی کے لیے چوبیس اوزان مقرر کیے گئے ہیں ۔ عروضیوں نے مقررہ اوزان سے ہٹ کر لکھی جانے والی رباعیوں کو رباعی ماننے سے انکار کیا ہے۔ رباعی کے اوزان کا تعلق " بحر ہزج " سے ہے ۔ رباعی کے چوبیس اوزان در اصل دو بنیادی اوزان سے یعنی مفعول، مفاعیل، مفاعیل، فعل اور مفعول، مفاعلن، مفاعیل، فعل سے اخذ کیے گئے ہیں ۔ قدیم عروضیوں نے ان چوبیس اوزان کو دو گروہوں میں یعنی " شجرۂ اخرب " اور " شجرۂ اخرم " میں برابر برابر باٹا ہے ۔ وہ بارہ اوزان جو ' مفعول ' سے شروع ہوتے ہیں انھیں " شجر اخرب " میں اور باقی بارہ اوزان کو جو ' مفعولن ' سے شروع ہوتے ہیں " شجرۂ اخرم " میں رکھا گیا ہے.

     رباعی گو کو ان چوبیس اوزان میں سے کسی بھی وزن میں رباعی کہنے کی اجازت ہے۔ بلکہ رباعی کے چاروں مصرعوں میں چار مختلف اوزان کو استعمال کرنے کی آزادی دی گئی ہے ۔ ایسی آزادی اردو کی کسی اور صنف سخن کو حاصل نہیں ۔

UGC net urdu syllabus

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے