Ad

قدیم اردو یا دکنی کے رباعی گو شاعر

 

قدیم اردو یا دکنی کے رباعی گو شاعر


قدیم اردو یا دکنی کے رباعی گو شاعر 

       محمد قلی قطب شاہ کو اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر مانا جا تا ہے ۔ وہ فارسی، ترکی اور مقامی زبان تلگو پر بھی مہارت رکھتا تھا۔ ڈاکٹر زور کے مرتبہ کلیات اور بعد ازاں پروفیسر سیدہ جعفر کے مرتبہ کلیات میں محمد قلی قطب شاہ کی رباعیات ملتی ہیں ۔ جن کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ قلی قطب شاہ کے ہاں عشقیہ موضوعات کے ساتھ ساتھ مذہبی موضوعات بھی ہیں ۔ ذیل میں محمد قلی قطب شاہ کی چند رباعیاں درج ہیں:


اپ دوست تھے مل نیہ کے میں جام منگوں

اس ہونٹ شکر ایسے تھے میں کام منگوں


آرام ، دل آرام تھے، ہے دل کوں سدا

میں اپنے دل آرام تھے آرام منگوں


کہیا ترے لب کیا ہیں ، کہی آب حیات

کہیا کہ تری لبدا ، کہی حب نبات

کہیا کہ بچن تیری ، کہی قطب کی بات

اس میٹھی لطافت پہ سدا ہے صلوات


اللہ کا لے نانوں تو یکچت سوں اول

ظاہر ہوا ہے جس تھے ابد ہور ازل

اس تھے سو محمد علی کوں ایکیچ جان

ان دونوں کوں نئیں ہے دو جہاں میانے بدل


UGC net urdu syllabus

     وجہی ، ابراہیم قطب شاہ ، محمد قلی قطب شاہ اور عبداللہ قطب شاہ کے دربار سے وابسطہ تھا۔ اس کی نثری تصنیف سب رس کے علاوہ مثنوی قطب مشتری مشہور ہے۔ اس کی پیدائش اور وفات کا سنہ معلوم نہ ہوسکا لیکن 1045 ھ م 1635 ء میں اس نے سب رس تحریر کی تھی۔

     وجہی نے علاحدہ طور پر رباعیاں نہیں لکھیں۔ اس کی نو رباعیاں مثنوی قطب مشتری کا جزو ہیں جن میں عشقیہ جذبات پیش کیے گئے ہیں اور ایک رباعی سب رس میں ملتی ہے۔ دو رباعیاں درج ہیں :

تج یاد بنا ہور منجے کام نہیں

نس جاگتے جاتی ہے ، دن آرام نہیں

میں تو تجے منگتی ہوں ادک جیو ولے

توں کیوں منجے لگتا ہے سو کچھ فام نہیں


دنیا کے سو لوگوں میں وفا دستانئیں

دھند دیکھے جتا باج جفا دستانئیں

بے مہر بنی آدم ہے اس سوں اس کی

دل باندنے میں کچ نفا دستانئیں


     غواصی اگر چہ ابراہیم قطب شاہ کے دور میں پیدا ہوا لیکن عرصے تک اس کی شہرت نہ ہو سکی ۔ بعد میں وہ عبد اللہ قطب شاہ کے دربار سے وابستہ ہوا اور پھر اس کی شہرت کا ستارہ جگمگانے لگا۔ اس نے 1060 ھ م 1649 ء سے کچھ پہلے انتقال کیا ۔ غواصی کی شہرت اس کی تین مثنویوں کی وجہ سے ہے۔ سیف الملوک و بدیع الجمال ، طوطی نامہ اور مینا ستونتی ۔ غواصی کی کلیات شائع ہوچکی ہے جس میں اس کی 30 رباعیاں شامل ہیں۔ ان رباعیوں میں تصوف ، اخلاق اور عشقیہ موضوعات کے علاوہ ، بادشاہ کی مدح بھی شامل ہے۔ دو رباعیاں درج ہیں :


غواص توں حق باج کسے منگ نکو

گر توں ہے موحد تو کسو سنگ نکو

مارگ میں محبت کے ہیں کانٹے کانٹے

کانٹا پہ چلیا نپٹ سو جا لنگ نکو


پتلی کوں تری ناؤں جو برجیس رکھیا

مہتاب وہیں پانوں پہ آسیس رکھیا

اس ناز بھری انک کے سنگھار بدل

سر مے کی نمن جیوں کو میں پیس رکھیا



     بہمنی سلطنت کے ٹوٹنے کے بعد جو ریاستیں بنیں ان میں عادل شاہی حکومت بھی ہے۔ اس مملکت کا آٹھواں بادشاہ علی عادل شاہ ثانی ( 1048ھ 1083 ھ ۔ 1638 ء 1672 ء) ہے جو شاعر تھا اور شاہی تخلص کرتا تھا۔ اسی شاعر کے کلیات دو محقیقین نے مرتب کیے لیکن ان میں رباعیاں نہیں ہیں۔ پروفیسر سیدہ جعفر نے پاکستان کی ایک بیاض سے ان کی تین رباعیاں دریافت کیں جن میں سے ایک یہاں درج ہے :


مج باج سکی کس سوں ترا میل نکو

مل غیر سوں ہرگز تو کدھیں کھیل نکو

لٹ پٹ جو نپٹ ہوں تو تجے بھور بھلی

سے جیو کی کڑی ہات دے مج ٹھیل نکو


     بیجاپور کا ایک شاعر نصرتی ( وفات 1085 ھ م 1674 ء ) دکنی ادب میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس نے محمد عادل شاہ اور علی عادل شاہ شاہی کا دور دیکھا ہے اور علی عادل شاہ شاہی کے دربار میں ملک الشعرا کے عہدے پر فائز رہا ہے ۔ اس کی تصانیف گلشن عشق ، علی نامہ اور تاریخ اسکندری اہم ادبی کارنامے ہیں۔ اس کی رباعیوں میں عشقیہ جذبات کم اور اخلاقی موضوعات زیادہ ہیں ۔ اس کی ایک رباعی درج کی جارہی ہے :

ناداں سو نصیحت کے بچن بول نکو

پانی منے کھارے توں شکر گھول نکو

کیا قدر گہر کی بوجے گا بد گوہر

دھنگر کے انگے مانک کا گھر مول نکو

UGC net urdu syllabus

     مندرجہ بالا شعرا کے علاوہ فیروزی ، میراں جی خدانما ، منشی ، میراں یعقوب ، گوہری ، بابا شاہ حسینی ، جانم ثانی ، پیر پاشا حسینی ، عبدالقادر نے بھی رباعیاں لکھی ہیں لیکن اختصار کے خیال سے ان کے حالات اور نمونہ کلام سے گریز کیا گیا ہے ۔ صرف عبد القادر کا ذکر کیا جاتا ہے کیوں کہ بیشتر تذکرہ نگاروں کے ہاں عبد القادر کا ذکر ہے۔

ہر چند ہمن سب سے اٹھایا ہے بات

اس پر بھی نہ آزاد کہا ہے ہیہات

عالم منے ہر ایک یہ کہتا ہوگا

دکھن میں ہے قادر ابھو در قیدِ حیات



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے