Ad

محسن کا کوروی کا نعتیہ قصیدہ : مدیح خیر المرسلین

 

محسن کاکوروی نعتیہ قصیدہ مدیح خیر المرسلین

محسن کا کوروی کا نعتیہ قصیدہ : مدیح خیر المرسلین

سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل

برق کے کاندھے پر لاتی ہے گھٹا گنگا جل 


گھر میں اشنان کریں سرو قدان گوگل 

جاکے جمنا پہ نہانا بھی ہے اک طول امل


خبر اڑتی ہوئی آئی ہے , مہابن میں ابھی 

کہ چلے آتے ہیں تیرتھ کو ، ہوا پر بادل


کالے کوسوں نظر آتی ہیں گھٹائیں کالی 

ہند کیا ساری خدائی میں ، بتوں کا ہے عمل 


جانب قبلہ ہوئی یورش ابر سیاہ 

کہیں پھر کعبے میں قبضہ نہ کریں ، لات و ہبل


تہہ و بالا کیے دیتے ہیں ہوا کے جھونکے 

بیڑے بھادوں کے نکلتے ہیں ، بھرے گنگا جل 


کبھی ڈوبی کبھی اچھلی مہہ نو کی کشتی 

بحر اخضر میں ، تلاطم سے ، پڑی ہے ہل چل 


ابر بھی چل نہیں سکتا ، وہ اندھیرا گھپ ہے 

برق سے رعد یہ کہتا ہے کہ لانا ، مشعل 


جس طرف سے گئی ، بجلی پھر ادھر آ نہ سکی

قلعہ چرخ میں ہے بھول بھلیاں ، بادل 


جگنو پھرتے ہیں جو گلبن میں تو آ تی ہے 

مصحف گل کے حواشی پہ طلائی جدول


ہم زباں وصف چمن میں ہوۓ سب اہل چمن

طوطیوں کی جو ہے تضمین تو بلبل کی غزل


پھر چلا خامہ قصیدے کی طرف بعد غزل 

کہ ہے چکر میں ، سخن گو کا ، دماغ مختل 


ہر سخن گو کو نہ انشا کی نہ املا کی خبر 

ہوگئی نظم کی انشا و خبر سب مہمل 


یعنی اس نور کے میدان میں پہنچا کہ جہاں

خرمنِ برقِ تجلی کا لقب ہے ، بادل


تار باران مسلسل ہے ملائک کا درود

پئے تسبیح خداوند جہان عزوجل


کہیں جبرئیل حکومت پہ کہیں اسرائیل 

کہیں رضواں کا کہیں ساقی کوثر کا عمل 


گل خوش رنگ رسول ، مدنی عربی 

زیب دامان ابد طرۂ دستار ازل


نہ کوئی اس کا مشابہ ہے ، نہ ہمسر ، نہ نظیر 

نہ کوئی اس کا مماثل ، نہ مقابل ، نہ بدل


مہر توحید کی ضو اوج شرف کا مہہ نو 

شمع ایجاد کی لو ، بزم رسالت کا کنول 


مربع روح امیں زیب دہ عرش بریں 

حامی دین متیں ناسخ ادیان و ملل


ہفت اقلیم ولایت میں شہر عالی جاہ 

چار اطراف ہدایت میں نبی مرسل


جی میں آتا ہے ، لکھوں مطلع ، برجستہ اگر

وجد میں آ کے قلم ہاتھ سے جائے نہ اچھل


منتخب نسخۂ وحدت کا ، یہ تھا روز ازل 

کہ نہ احمد کا ہے ثانی نہ احد کا اول


دور خورشید کی بھی حشر میں ہوجاۓ گی صبح

تا ابد دورِ محمد کا رہے روز ، اول


افضليت پہ تری مشتمل آثار و کتب 

اولیت پہ تری متفق ادیان و ملل 


لطف سے تیرے ہوئی شوکت ایماں محکم

قہر سے سلطنت کفر ہوئی مستاصل 


جس طرف ہاتھ بڑھیں کفر کے ہٹ جائیں قدم جس جگہ پاؤں رکھیں سجدہ کریں لات و ہبل 


ہو سکا ہے کہیں محبوب خدا ‘ غیر خدا 

اک ذرا دیکھ ، سمجھ کر ، مری چشم احول 


محسن اب کیجیے گلزار مناجات کی سیر 

کہ اجابت کا چلا آتا ہے گھر تا بادل 


سب سے اعلی تری سرکار ہے سب سے افضل 

میرے ایمان مفصل کا یہی ہے مجمل ہے 


ہے تمنا کہ رہے نعت سے ، تیرے خالی 

نہ مرا شعر ، نہ قطعہ ، نہ قصیدہ ، نہ غزل 


دین و دنیا میں ، کسی کا نہ ، سہارا ہو مجھے 

صرف تیرا ہو بھروسا ، تری قوت ، ترا بل 


آرزو ہے کہ ، ترا دھیان رہے ، تا دم مرگ 

شکل تیری نظر آئے ، مجھے جب آئے اجل 


روح سے میری کہیں ، پیار سے یوں عزرائیل

کہ مری جان مدینے کو ، جو چلتی ہے تو چل


دم مردن یہ اشارہ ہو شفاعت کا ترے

فکر فردا تو نہ کر دیکھ لیا جاۓ گا کل


رخ انور کا ترے ، دھیان رہے ، بعد فنا 

میرے ہم راہ چلے راہِ عدم میں ، مشعل 


صف محشر میں ترے ساتھ ہو ایسا مداح  

ہاتھ میں ہو یہی ، مستانہ قصیدہ یہ غزل 


کہیں جبرئیل اشارے سے کہ ہاں بسم اللہ 

سمت کاشی سے چلا جاب متھرا بادل

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے