Ad

ذوق کا قصیدہ

 

ذوق کا قصیدہ

ذوق کا قصیدہ

Zouq ka qasida 

ساون میں دیا پھر مہہ شوال ، دکھائی 

برسات میں عید آئی ، قدح کش خوار کی بن آئی


کرتا ہے ہلال ابروئے ، پُر خم سے اشارہ 

ساقی کو کہ گھر بادے سے ، کشتی طلائی


ہے عکس فگن جام بلوریں سے ، مئے سرخ 

کس رنگ سے ہوں ، ہاتھ نہ مے کش کے حنائی 


کوندے ہے جو بجلی تو یہ سوجھے ہے نشے 

ساقی نے ہے ، آتش سے ، مئے تیز اڑائی 


یہ جوش ہے باراں کا کہ افلاک کے نیچے 

ہووے نہ ممیز کره ناری و مائی 


پہنچا ، کمک لشکر باراں سے ہے۔ل ، یہ روز 

ہر نالے کی ہے دشت میں دریا ، پہ چڑھائی


ہو قلزم عماں پہ لب جو متبسم

تالاب سمندر کو کرے چشم نمائی 


ہے کثرت باراں سے ہوئی عام یہ سردی 

کافور کی تاثیر گئی جو زمیں پائی 


سردیِ حنا پہنچے ہے ، عاشق کے جگر تک 

معشوق کا گر ہاتھ میں ، ہے دست حنائی 


عالم یہ ہوا ہوا کا ہے کہ تاثیر ہوا سے 

گردوں پہ ہے ، خورشید کا بھی ، دیدہ ہوائی


کیا صرف ہوا ہے ، طرب و عیش سے ، عالم 

ہے مدرسے میں بھی ، سبق صرف ہوائی


خالی نہیں مئے سے روشِ دانۂ انگور 

زاہد کا بھی ہر دانۂ تسبیح ریائی


کرتی ہے صبا آکے کبھی مشک فشانی

کرتی ہے نسیم آکے کبھی ، لخلخہ سائی 


تھا سوزئی خار کا صحرا میں جہاں فرش

سبزے نے وہاں مخمل خوش رنگ بچھائی


آتش گل کے لیے ، ہے جامۂ رنگیں

زیبائش غنچہ کے لیے ، تنگ قبائی


ہے نرگس شہلا نے دیا ، آنکھ میں کاجل

برگ گل سوسن نے دھڑی ، لب پہ جمائی


ابرو پہ کرے ، قوس قزح و سمہ تو خورشید

سرخیِ شفق سے ، کرے ریش اپنی حنائی


رخسار گل چیں کا ہے سرخی سے یہ عالم

جوں وقتِ غضب چہرۂ ترکانِ خطائی


کیا ساغرِ رنگیں کو کیا ، جلد ، مہیا

نرگس نے تو سرسوں ہی ہتھیلی پہ جمائی


ہوتی متحمل نہیں ، اک ساغر ، گل کی

شاخِ گل احمر کی نزاکت سے کلائی


اعجاز نوا سنجی مطرب سے ، چمن میں 

ہر خار کے ہے نوک زباں شعر نوائی 


حیرت کی نہیں جائے کہ ، دیوار چمن پر

ہر طائر تصویر کرے نغمہ سرائی


شاہا! ترے جلوے سے ہے یہ عید کی رونق 

عالم نے ، تجھے دیکھ کے ، ہے عید منائی


پر تو سے ترے جام ، مئے عیش ، سر بزم

لے ساغرِ جمشید ، کرے کار روائی


ٹپکے لبِ ساغر وہ قطره کروی شکل 

ہو مثل فلک جس میں تماشائے خدائی


کیا علم سمائے ترا ، سینے میں فلک کے 

دریا کی کہاں ہوسکے کاسے میں سائی


پڑھتا ہوں ترے سامنے وہ مطلع موزوں

احسنت ، کہیں سن کے بہَائی و سَنائی


یوں کرسی زر پر ، ہے تری جلوہ نمائی 

جس طرح سے مصحف ہو سر رحل طلائی


رکھتا ہے تو وہ دست سخا ، سامنے جس کے 

ہے بحر بھی کشتی بہ کف از بہر گدائی


گمرہ کو ، ہدایت جو تری ، راہ پر لاوے

رہزن بھی اگر ہو تو کرے راہ نمائی


تا ناخن شمشیر نہ ہو ، ناخن تدبیر 

دشمن کی ترے ہو نہ کبھی عقدہ کشائی


خورشید سے ، افزوں ہو ، نشاں سجدے کا روشن 

گر چرخ کرے ، در کی ترے ، ناصیہ سائی


عکس رخ روشن سے ترے جوں یدِ بیضا

کرتا ہے کف آئینہ ، اعجاز نمائی


کرتا ہے تری نذر سدا نقدِ سعادت

ہے مشتری چرخ کی کیا نیک کمائی


ہر کوہ اگر ، کوہِ صفا ، ہو تو عجب کیا

ہو فیض رساں ، جب ترے ، باطن کی صفائی


ہو بلکہ صفا ایسی ، دل سنگ ، صنم میں

ہر بت میں کرے  صورتِ جلوہ نمائی


ہر شعر غزل میں تیرے معنی شفا ہیں 

قربان غزل کے تری دیوان شفائی


مانع جو ہوا دست ددرازی ،کو ترا عدل

پروانے کو بھی شمع نے ، انگلی نہ لگائی


زنجیر میں جوہر کی ، رہی تیغ ہمیشہ 

خوں ریز کو ہو ، عہد میں تیرے ، نہ رہائی


دیتا ہے دعا ذوق کہ مضمون ثنا میں

ہے ذہن رسا کو ، یہ کہاں اس کے رسائی


ہر سال شہا ہووے مبارک یہ تجھے عید

تو مسند شاہی پہ کرے جلوہ نمائی


نصابی قصیدے کا جائزہ

     یہ قصیدہ 1268 ھ م 1852ء میں عید الفطر کے موقع پر کہا گیا (19.7.1852 دو شنبہ، عید کا دن) ذوق نے اکثر بہاریہ تشبیبیں لکھی ہیں اس قصیدے کی تشبیب میں برسات کی منظر کشی کی گئی ہے ۔ سخت گرمی کے بعد جب دہلی میں برسات کا موسم شروع ہوتا ہے تو لوگ اطمینان کی سانس لیتے ہیں اور برسات کے مزے لوٹتے ہیں ۔ نظیر اکبرآبادی نے بھی اپنی نظم ’’ برسات ‘‘ میں کیسے کیسے مناظر کی تصویر کشی کی ہے۔ اس قصیدہ میں ذوق نے شاہی دربار اور شاہانہ مزاج کا بھر پور لحاظ رکھا ہے ۔ اس تشبیب میں تخیل کی اٹھان ہے، محاکاتی رنگ ہے، علوئے خیال اور پر شکوہ اسلوب ہے۔


     شاعر کہتا ہے کہ پھر ساون کے مہینے میں عید آئی ہے ۔ ایک تو موسم برسات دوسرے عید کا دن‘ مئے خواروں کی بن آئی ہے ۔ (ہلال عید جو محبوب کے ابرو کی طرح خم دار ہے ) اشارہ کر رہا ہے کہ اے ساقی میری کشتی شراب سے لبالب بھر دے ، بھرے جام سے شراب کا عکس جھلک رہا ہے ۔ جام سے چھلکتی ہوئی شراب نے ساقی کے ہاتھوں کو یوں رنگ دیا ہے جیسے ہاتھوں میں مہندی لگی ہو ۔ 

     آگے کے اشعار میں شاعر ساون کی دلکش تصویر کھینچتا ہے ۔ نشہ میں بدمست مئے خوار، بجلی چمکتی ہے تو سمجھتے ہیں کہ ساقی نے آتش سے زیادہ تیز شراب فضا میں اڑا دی ہے ۔ بارش کی وہ تیزی ہے ، بجلی کی وہ کڑک ہے کہ سمجھ میں ہی نہیں آ تا کہ یہ کرۂ ارض ناری ہے کہ مائی ۔ ندی نالے بارش کے پانی سے بھر گئے ہیں اور دریا جیسے معلوم ہو رہے ہیں ۔ نہریں گہرے سمندر پر ہنس رہی ہیں اور تالاب سمندر کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔ بارش کی زیادتی سے گرمی کا موسم جاتا رہا اور سردی ہونے لگی ۔ موسم کا رنگ دیکھ کر اچھے اچھے پارسا شراب پینے لگے ۔ ہوا مشک فشانی کر رہی ہے ۔ نسیم کے جھونکے طرح طرح کی خوش بو سے دماغ معطر کرر ہے ہیں ۔ جگہ جگہ پھول کھلے ہیں ۔ اس منظر کو ذوق نے کیسے پیش کیا ہے ملاحظہ ہو :

آرائش گل کے لیے ہے جامۂ رنگیں

زیبائش غنچہ کے لیے تنگ قبائی


ہے نرگس شہلا نے دیا آنکھ میں کاجل

برگ گل سوسن نے دھڑی لب پہ جمائی


ڈالی ڈالی اتنے پھول کھلے ہیں کہ بوجھ سے شاخیں جھکی جارہی ہیں۔ 

اب یہاں سے شاعر بڑی نفاست سے گریز کرتا ہے ۔ گریز کی خوبی یہ ہے کہ وہ آسانی سے شناخت نہ کی جاسکے ۔ یہ پڑ ہی نہ ملے کہ


شاعر کسے تشعیب سے مدح تک پہنچا ہے۔ اس قصیدے میں گر یز کے دوشعر یہ ہیں : اعجاز نوا سنجي مطرب جن میں

 ہر خار کے ہے نوک زباں شعر نوائی


حیرت کی نہیں جاۓ کہ دیوار چن پر

ہر طائر تصویر کرے نغمہ سرائی

 ( یہ مطرب کا کمال فن ہے کہ ہر نوک خارا شعر گنگنانے گئی ہے ۔ طائران چن تو کیا طائر تصور تک نظمہ سرائی کرر ہا ہے گر یز میں شاعر نے تشویب کو مداح سے اس طرح جوڑ دیا ہے کہ وہ ایک طرف تشعیب کا بار بن گئی ہے تو دوسری طرف مدح کا حصہ ہوئی ہے ۔


شاہا ! ترے جلوے سے ہے یہ عید کی رونق

عالم نے ، تجھے دیکھ کے ، ہے عید منائی


    اب مدح میں وہ بادشاہ کے علم و فضل شعر ، فہمی اور سخن سنجی کی تعریف کرتا ہے ۔ اس کے بعد اس کے جود و سخا ، رشد و ہدایت ، فکر و تدبر ، ریاضت و عبادت ، اقبال مندی ، پاک باطنی ، عدل و انصاف ، بہادری و شجاعت میں رطب اللساں ہے ۔ آخر میں مدعا اور دعا پر عموماً قصیدہ ختم ہوتا ہے۔

ذوق نے دعا کے دوشعروں پر یہ قصیدہ پایہ تکمیل کو پہنچایا ہے کہتا ہے :


دیتا ہے دعا ذوق کہ مضمون ثنا میں

ہے ذہن رسا کو یہ کان اس کے رسائی


ہر سال شہا ہوے مبارک یہ تجھے عید

تو مسند شاہی پہ کرے جلوہ نمائی


     ذوق نے یہ قصیدہ خاقانی کے قصیدے ’’ چو صبح دم عید کند ناقہ کشائی ‘‘ کی زمین میں لکھا ہے۔ ذوق کی تشبیب میں ایک فطری بہاؤ ہے۔ ایک محاکاتی انداز ہے ۔ بے ساختگی و برجستگی ہے ۔ مبالغہ کا زور وںشور اور بیان کی شان و شکوہ بھی موجود ہے۔ مدح سرائی میں ایک جانب اگر وہ بادشاہ کے صفات شاہانہ کا تذکرہ کرتا ہے تو دوسری طرف عالمانہ خصائص اور بزرگانہ فضائل اور حسن سیرت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے ۔ بہادر شاہ ظفر کوئی صوفی صافی تو نہیں تھے لیکن شاعر نے مبالغہ آرائی سے کام لے کر ان کی باطن کی صفائی ، فیض رسانی کا اس طرح ذکر کرتا ہے جیسے وہ کوئی خدا رسیدہ بزرگ ہو ۔ فنی اعتبار سے تشبیب میں سحر کاری سے کام لیا ہے ۔ علوئے خیال کے لیے شعر دیکھیے :


سردی حنا پہنچے ہے عاشق کے جگر تک

معشوق کا گر ہاتھ میں ہے دست حنائی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے