Ad

قصیدہ کا آغاز و ارتقاء


قصیدہ کا آغاز و ارتقا


قصیدہ کا آغاز و ارتقا

قصیدہ اس صنف کو کہتے ہیں جس میں مدح یا ذم کا پہلو ہو۔ یہ ایک طرح کا انداز بیان ہے جس میں ممدوح اور مداح کا راست تعلق ہوتا ہے۔ قصیدہ، شاعری میں ایک قدیم صنف ہے اس کا ماضی شاندار رہا۔ قصیدہ عربی شاعری کی مقبول صنف رہی ہے۔ اس میں نایاب و نادر ، بلند اور پر شکوہ الفاظ کا استمعال کیا جاتا ہے۔ عام طور سے یہ بادشاہوں یا حکمرانوں کی مدح سرائی میں کہے جاتے تھے۔ اس میں ہئیت کے ساتھ ساتھ موضوع کا بھی خیال رکھا جاتا تھا۔ فنی اعتبار سے اس کا مرتبہ دیگر اصناف کے مقابل اہم سمجھا گیا۔ مدح یا مدح سرائی کا مقصد انعام و اکرام صلہ و ستائش کا حصول ہوتا تھا اور کبھی کبھی اس کے بعد عکس۔ شعرا کی آرزو یا خواہش پوری نہ ہو پاتی یا کسی بات سے اختلاف ہوتا تب ہجو بھی کہی جاتی۔ اسے قصیدۂ ہجو بھی کہتے ہیں۔ عربی سے یہ صنف فارسی میں پہنچی اور پھر فارسی سے اردو میں اپنی پوری توانائی اور روایات کے ساتھ در آئی ۔ عربی شاعروں نے اس فن میں اگر کمال دکھلایا تو فارسی تک شعرا نے اس صنف کو بامِ عروج پر پہنچایا ۔ اردو کے شاعروں نے اس میں اپنے پیش روؤں کی اتباع میں فنِ قصیدہ نگاری کو چار چاند لگا دئیے۔ عربی شاعری میں قصیدے کے موضوعات بڑی گہرائی اور جامعیت رکھتے ہیں۔ اس میں ذاتی تجربات اور احساسات ، گرد و پیش کے حالات ، مسائل حیات و عشقیہ واردات کے علاوہ مناظر قدرت کا اظہار بھی ملتا ہے ۔ شاعروں نے مداحی کے ساتھ ساتھ ہجویہ مضامین بھی شامل کیے مزید برآں اخلاق و حکمت ، پند و موعظت ، گردش زمانہ اور بہاریہ مضامین کی گنجائش پیدا کی ۔ اردو کے شاعروں نے ان دونوں زبانوں کے شاعروں کے طرزِ اظہار سے استفادہ کیا ۔ اردو تک پہنچنے سے پہلے قصیدے کا اصل موضوع مدح یاںہجو کی شکل میں متعین ہوچکا تھا ۔ شخصی حکومت یا بادشاہت کے ادوار میں مدح سرائی کی وجہ سے شعرا کی قدر و منزلت بھی کی گئی ۔ مگر جمہوری دور میں اس کا چلن عام نہ رہا۔ تاہم بزرگان دین کی شان میں قصیدے لکھے جاتے رہے۔ عربی ہے بعد فارسی قصیدہ گویوں میں انوری ، خاقانی ، ظہیر فاریابی کے نام قابل ذکر ہیں اردو میں سودا ، ذوق اور غالب کے قصائد اپنا ایک الگ معیار رکھتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں ہجویہ قصائد کے عنوان سے مزاحیہ شاعری ہے 

دلچسپ نمونے ملتے ہیں۔ 

قصیدے کے اجزائے ترکیبی

 قصیدہ کی تعریف اور لغوی معنی

قصیدے کے لغوی اور اصطلاحی معنوں میں، بڑی وضاحتوں سے کام لیا گیا ہے۔ قدیم زمانے میں ابن رشیق نے رجز کو قصیدہ مانا ہے، اور اسے لفظ " القصد " سے مشتق قرار دیا، جلال الدین احمد جعفری " تاریخ قصائد اردو " میں لکھتے ہیں :

     " اہل لغت نے، قصیدے کے لغوی معنی، " سبطر" ( دل دار گودا ) کیے ہیں، اور اصطلاح شاعری میں، اس نظم کو کہتے ہیں ، جس میں مدح یا ذم ، وعظ و نصیحت یا حکایت و شکایت وغیرہ موزوں ہوں " ( صفحہ نمبر 353)

قصیدے کی قسمیں اور موضوعات

قصیدہ کی ادبی اور فنی خصوصیات

نجم الغنی خاں ، بحر الفصاحت میں قصیدے کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں :

     " چونکہ ان اشعاروں میں بڑے مضامین لکھے جاتے ہیں۔ اس مناسبت سے اس کو قصیدہ کہنے لگے " ( صفحہ نمبر 81 )

انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں پروفیسر الف کرینکو لکھتے ہیں :

     " قصیدہ عربی ( فارسی اور ترکی وغیرہ ) منظومات کی ایک صنف کا نام ہے ۔ جس قدر طویل ہو ، یہ لفظ عربی مادہ قصد سے مشتق ہے۔ جس کے معنی ہیں ارادہ کرنا۔ ( اردو ترجمہ جلد دوم صفحہ نمبر 697 )

      بہر حال قصیدے کی صنف بہت قدیم ہے ۔ خود عربی میں یہ لفظ کب اختیار کیا گیا پتہ نہیں چلتا تاہم ایامِ جاہلیت کے شعر اس رنگ میں شعر کہتے تھے ۔ اس میں تعریف و تحسین کے ہر پہلو پر نظر ہوتی ہے۔ اندازِ بیان زورِ کلام ، تخیل کی بلند پروازی ، شوکتِ لفظی اور تراکیب ، محاوروں ، استعاروں کا استمعال اہمیت رکھتا ہے۔ اس میں روایت کا تقلیدی وصف بھی نمایاں ہوگا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے