Ad

مجروح سلطانپوری کی غزلیں مع تشریح و خلاصہ

مجروح سلطانپوری غزل تشریح و خلاصہ


مجروح سلطانپوری کی غزلیں مع تشریح و خلاصہ

Majrooh sultanpuri ghazal tashreeh 

غزل ۔ 1

جب ہوا عرفاں تو ، غم آرام جاں بنتا گیا

سوز جاناں دل میں ، سوز دیگراں بنتا گیا


میں اکیلا ہی چلا تھا، جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے، اور کارواں بنتا گیا


میں تو جب جانوں کہ، بھر دے ساغرِ ہر خاص و عام

یوں تو جو آیا ، وہی پیر مغاں بنتا گیا


جس طرف بھی چل پڑے ہم ، آبلہ پایان شوق

خار سے گل، اور گل سے گلستاں بنتا گیا


دہر میں مجروح، کوئی جاوداں مضموں کہاں

میں جسے چھوتا گیا، وہ جاوداں بنتا گیا

مجروح سلطانپوری شاعری

غزل - 2

مجھے سہل (آسان) ہوگئیں منزلیں ، وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے، ترا ہاتھ ہاتھ میں آ گیا، کہ چراغ راہ میں جل گئے


 وہ لجاۓ میرے سوال پر ، کہ اٹھا سکے نہ جھکا کے سر ، اڑی زلف چہرے پہ اس طرح ، کہ شبوں کے راز مچل گئے


وہی آستاں (مزار) ہے ، وہی جبیں (پیشانی) ، وہی اشک ہے ، وہی آستیں دل زار تو بھی بدل کہیں ، کہ جہاں کے طور بدل گئے


تچے چشم مست پہ بھی ہے ، کہ شباب گرمیِ بزم ہے 

تجھے چشم مست خبر بھی ہے ، کہ سب آب گینے پگھل گئے


مرے کام آگئیں آخرش یہی کاوشیں یہی گردشیں

بڑھیں اس قد ر مری منزلیں کے قدم کے خار نکل گئے


غزل ۔ 3

جنون دل، نہ صرف اتنا کہ ، اک گل پیرہن تک ہے

قد و گیسو سے اپنا سلسلہ ، دار و رسن تک ہے


مگر اے ہم قفس کہتی ہے شوریدہ سری اپنی

یہ رسمِ قید و زنداں ایک دیوار کہن تک ہے


، کہاں بچ کر چلی اے فصلِ گل ، مجھ آبلہ پا سے

مرے قدموں کی گلکاری ، بیاباں سے چمن تک ہے


میں کیا کیا جرعۂ خوں پی گیا پیمانۂ دل سے

بلا نوشی مری کیا ، اک مئے ساغر شکن تک ہے


نوا ہے جاوداں مجروح جس میں روحِ ساعت ہو 

کہا کس نے مرا نغمہ ، زمانے کے چلن تک ہے


غزل ۔ 4

اہل طوفان آؤ دل والوں کا افسانہ کہیں 

موج کو گیسو ، بھنور کو چشم جانانہ کہیں 


دار پر چڑھ کر لگائیں ، نعرۂ زلف صنم 

سب ہمیں با ہوش سمجھیں ، چاہے دیوانہ کہیں 


وہ شہہ خوباں کدھر ہے پھر چلیں اس کے حضور 

زندگی کو دل کہیں اور دل کو نذرانہ کہیں 


پارۂ دل ہے وطن کی ، سر زمیں مشکل یہ ہے 

، شہر کو ویراں کہیں ، یا ! دل کو ویرانہ کہیں 


آرزو ہی رہ گئی مجروح کہتے ہم کبھی 

اک غزل ایسی جسے تصویر جاناناں کہیں

Majroo sultanpuri shayari urdu

مجروح کے دو اشعار کی تشریح :

جب ہوا عرفاں تو ، غم آرام جاں بنتا گیا

سوزِ جاناں دل میں ، سوز دیگراں بنتا گیا


غم ، جاں کو بے آرامی اور تکلیف میں مبتلا کر تا ہے لیکن جب زندگی کی بصیرت حاصل ہوتی ہے اور حقیقت کا عرفان ہوتا ہے تو بے آرامی رفتہ رفتہ ختم ہو جاتی ہے ۔ جب بہ قول فیض یہ عرفان ہوتا ہے کہ " اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا " جب ہم محنت کش غریب عوام کے دکھ درد سے آگاہ ہوتے ہیں تو غم جاناں بھی غم دیگراں میں بدل جا تا ہے اور دوسروں کے دکھ درد میں شامل ہو کر سکون محسوس ہوتا ہے ۔


جنون دل نہ صرف اتنا کہ ، اک گل پیرہن تک ہے

قد و گیسو سے اپنا سلسلہ ، دار و رسن تک ہے


اس شعر میں غالب کے خیال کی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔ غالب کا شعر ہے:


قد و گیسو میں، قیس و کوہ کن کی ، آزمائش ہے

جہاں ہم ہیں وہاں! دار و رسن کی ، آزمائش ہے


قد و گیسو اور دار و رسن سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ قیس اور فرہاد نے لیلی اور شیریں کے عشق میں اپنی جان دے دی ۔ اس طرح ہر عاشق کو دار و رسن کی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔

مجروح کہتے ہیں کہ ہم ایک گل پیرہن سے عشق کرتے ہیں لیکن ہمارا جنون دل اسی تک محدود نہیں ہے۔ ہم محکوموں اور مزدوروں کو ان کے حقوق دلانے کی جدو جہد میں شامل ہیں۔ اس لڑائی میں ہم اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے اس طرح ہمارے جنونِ دل کا سلسلہ دار و رسن تک پہنچتا ہے۔ 


خلاصہ

Majrooh sultanpuri biography

     اس اکائی میں ہم نے مشہور ترقی پسند غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا۔ اسرار حسن خاں مجروح 1921 میں سلطان پور میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم کے بعد طب کی تعلیم مکمل کی ۔ کچھ عرصہ طبابت کے پیشے سے منسلک رہے لیکن جب شاعر کی حثیت سے ان کی شہرت عروج کو پہنچی و طب کا پیشہ ترک کر دیا اور شاعری ہی ان کے لیے روزگار کا ذریعہ بن گئی پھر وہ فلم سے وابستہ ہو کر بمبئی چلے گئے ۔ فلموں کے لیے گیت لکھے گئے ۔ 1945 میں ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوئے اور کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت حاصل کی ۔ اس وقت تک یہ سمجھا جا تا تھا کہ غزل ایک روایتی صنف سخن ہے ، انقلابی اور سیاسی خیالات و جذبات کے اظہار کے لیے موزوں نہیں ہے ۔ لیکن مجروح نے اپنی شاعری کے ذریعے اس خیال کو غلط ثابت کر دکھایا۔ انھوں نے غزل کے روایتی علائم و رموز کو ایک نئی جہت دی جس کی وجہ سے غزل کی زبان میں انقلابی تبدیلی واقع ہوئی ۔ مجروح نے دوسرے غزل گو شاعروں کو بھی راستہ دکھایا۔ اس طرح غزل میں ہر طرح کے سیاسی ، سماجی اور انقلابی مضامین باندھے جانے لگے ۔ مجروح کم گو شاعر تھے ۔ ’’غزل‘‘ کے نام سے ان کی غزلوں کا ایک مختصر مجموع شائع ہوا۔ پھر چند نئی غزلوں کے اضافے کے ساتھ ایک اور مجموعہ 1991 میں " مشعل جاں " کے نام سے شائع

ہوا۔ 2000 کو اردو غزل کا یہ روشن چراغ گل ہو گیا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے