Ad

مجروح سلطانپوری کی غزل گوئی

 

مجروح سلطانپوری کی غزل گوئی

مجروح سلطانپوری کی غزل گوئی

مجروح کے شعری سفر کے مدت طویل ضروری ہے ۔ لیکن رفتار سست اور مقدار کم تقریبا ساٹھ سالہ شعری سفر میں ساٹھ غزلیں بھی نہیں ہے اس کا اعتراف مجروح بھی کر تے ہیں اور اپنے آپ کو مجرم قرار دیتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے جو کہا اور جتنا کہا وہ اس قدر عمدہ، بھر پور اور متاثر کرنے والا ہے کہ کوئی بھی نقاد یا مورخ اسے نظر انداز نہیں کرسکتا۔ ترقی پسند غزلیہ شاعری میں ان کا نام مجاز اور فیض کے ہم پلہ غزل گو شعرا میں لیا جا تا ہے ۔ بعض ناقدین تو مجروح کو ترقی پسند غزل کا سب سے اہم و معتبر نام بتاتے ہیں غور کرنے کی بات یہی ہے کہ اتنے قلیل سرمائے میں وہ کیا امتیاز و اوصاف ہیں جنھوں نے مجروح کو مجروح بنا دیا ؟


اردو عشقیہ شاعری 

     ابتداً مجروح نے بھی عشقیہ شاعری کی ۔ روایتی کلاسیکی رنگ میں ڈوبی ہوئی شاعری ، تشبیہ و استعارے سے سجی ہوئی شاعری لیکن رفتہ رفتہ یہ سجاوٹ صرف حرف و لفظ کی نہیں رہ گئی بلکہ اس میں تہذیب و شائستگی ، تہہ داری اور وضعداری کا رنگ ابھرنے لگا ۔ وہ رنگ جو ان دنوں شرفا کا تھا اور اس سے زیادہ مجروح کا اپنا۔ کچھ اس عہد کے اساتذہ مثلا حسرت ، اصغر ، فراق نے تہذیبِ عاشقی کے آداب مرتب کر رکھے تھے ۔ کچھ پریم چند نے بھی حسن کے معیار کی بات چلا رکھی تھی ۔ جگر کا یہ شعر بھی مشہور ہو چکا تھا۔

فکر جمیل خواب پریشاں ہے آج کل

شاعر نہیں ہے! وہ جو، غزل خواں ہے آج کل

مجروح غزل خوانی کے حق میں تو تھے لیکن روایتی بیان کے حق میں نہیں ۔ انھوں نے عشقیہ شعر کہے اور خوب کہے۔ 

اس نظر کے اٹھنے میں ، اس نظر کے جھکنے میں

نغمۂ سحر بھی ہے آهِ صبح گاہی بھی


دور دور وہ مجھ سے اس طرح خراماں ہے

ہر قدم ہے نقش دل ہر نگہہ رگِ جاں ہے


     ان اشعار میں بھی آپ کو ایک خاص قسم کی پاکیزگی ، احساس کی تازگی اور تہذیب و شائستگی ملے گی۔ مجروح ہے عشق میں ایک وقار ہے ، ایک رکھ رکھاؤ ہے۔ سستی جذباتیت، ہوس پرستی سے کوسوں دور یہ شاعری حسرت ، جگر ، اصغر کی شاعری کا عطر بن کر سامنے آتی ہے۔ پہلے لوگ غمِ روزگار سے گھبرا کر غمِ عشق میں پناہ لیا کرتے تھے لیکن رفتہ رفتہ یہ پناہ بھی روایتی ہوتی چلی گئی۔ بیسویں صدی کے جن شعرا نے ان راہوں میں تبدیلی کی ان میں مجروح کا نام بے حد اہم ہے ۔ آل احمد سرور لکھتے ہیں :

     " پہلے شاعر غمِ روزگار سے بھاگ کر غمِ عشق میں پناہ لیتے تھا۔ لیکن سماجی اور سیاسی حالات اور معاشی الجھنوں نے اس دور کے ذہن کی اس طرح پرداخت کی ہے کہ یہ پناہ کافی ہوگئی ہے ۔ غزل کے اسی پناہ گاہ سے بھاگ نکلنے اور شاہراہوں پر انسانوں کے مصروف قدموں کے ساتھ قدم ملا کر چل پڑنے کا نام مجروح سلطانپوری ہے۔ "

اور پھر مجروح اس رنگ کے عشقیہ شعر کہنے لگے :

یہ نیاز غم خواری ، یہ شکست دل داری

بس نوازشِ جاناں دل بہت پریشاں ہے 


سرخی مئے کم تھی میں نے چھو لیے ساقی کے ہونٹ

سر جھکا ہے جو بھی اب اربابِ مئے خانہ کہیں


دلِ سادہ نہ سمجھا ما سوائے پاک دامانی

نگاہِ یار کہتی ہے کوئی افسانہ برسوں کا 

      جیسے جیسے وہ زندگی ، معاشرہ اور عوام کے قریب آتے گئے اور زندگی سے متعلق ان کا نظریہ معروضی اور حقیقی ہوتا گیا ، غزل کے لہجے میں تبدیلی آتی گئی ، نجی احساسات اور ذاتی تجربات وسیع تناظر میں ڈھلنے لگے اور دنیائے عشق اچانک بہت بڑی اور غم زدہ سی معلوم ہونے لگی ۔ انھیں دنیا سے ، انسانوں سے ، تہذیب و معاشرت سے عشق ہونے لگا اور پھر یہ بھی ہوا کہ کچھ دیر کے لیے ان کی عشقیہ شاعری ، غیر عشقیہ شاعری سی لگنے لگی ۔ لیکن یہ بھی ہوا کہ ایسی شاعری کا لہجہ اور کیفیت ایک بڑی انسانی شاعری کو چھونے لگی ۔ مثلا دوشعر دیکھیے : 

میرے پیچھے یہ تو محال ہے کہ زمانہ گرم سفر نہ ہو

کہ نہیں مرا کوئی نقش پا جو چراغ راہ گزر نہ ہو


نہ دیکھیں دیر و حرم سوئے رہروانِ حیات 

یہ قافلے تو نہ جانے کہاں قیام کریں

اردو کلاسیکی شاعری

     ان اشعار میں آپ کو زندگی کارواں دواں سفر اس کی حقیقی و مادّی صورت و کیفیت اور انسانی فکر کی بلندی نظر آئے گی جو غالب ، اقبال ، جوش سے ہوتی ہوئی مجروح تک پہنچی تھی اور جسے مجروح نے غزل کے کلاسیکی رنگ کے تناظر میں بڑی خوب صورتی سے اپنی غزلوں میں رچا بسا لیا تھا اور یہیں سے مجروح کی شاعری کی کئی اور شاخیں پھوٹتی ہیں مثلا انسان دوستی اور عظمت انسانی کا تصور ۔ غالب سے لے کر فراق تک انسانی عظمت کے اعتراف طرح طرح سے ہوئے ہیں ۔انسان کو ایک زبردست جنگ جو ، محنت کش اور تخلیق کار مانا گیا ہے جس نے مل جل کر عاشق کے کردار کو بھی پر وقار بنایا ہے ۔ لیکن ترقی پسند شاعری میں حضرتِ انسان کا یہ کردار انسان کی معاشی اور مادّی زندگی کی جدلیت کے حوالے سے سامنے آتا ہے جس کے اندر ایک تاریخی اور سماجی شعور بھی ہے۔ پہلے کا عاشق یا انسان صرف تقدیر اور حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہوا کرتا تھا لیکن اب نقطۂ نظر بدل چکا تھا ۔ اب انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے اور اپنی قوت بازو سے اس دنیا کو بدلتا بھی ہے ۔ ان موضوعات کو غزل کے پیرائے میں پیش کرنا اور غزل کے پیکر میں ڈھالنا آسان کام نہ تھا لیکن یہ مشکل کام مجروح نے بہ حسن و خوبی انجام دیا ہے ۔ طرح طرح سے انسانی کارناموں اور اسکی عظمتوں کے گیت گائے ہیں ، چند اشعار اس نوع کے بھی ملاحظہ کیجیے :

ہم ہیں کعبہ ، ہم ہی بت خانہ ، ہمیں ہیں کائنات 

ہوسکے تو خود کو بھی اگ بار سجدہ کیجیے


شمع بھی ، اجالا بھی میں ہی اپنی محفل کا

میں ہی اپنی منزل کا راہبر بھی راہی بھی


ہر موڑ پہ مل جاتے ہیں ابھی فردوسِ جناں کے شیدائی تجھ کو تو ابھی کچھ اور حسیں اے عالمِ امکاں ہونا تھا


،تقدیر کا شکوہ بے معنی ، جینا ہی تجھے منظور نہیں

آپ اپنا مقدر بن نہ سکے ، اتنا تو کوئی مجبور نہیں

انقلابی شاعری

     مجروح کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی وہ شاعری ہے جس میں سیاسی اشارے ہیں ، انقلابی آ ہنگ ہے اور سماجی نظریہ ہے ۔ یا ایک مشکل کام تھا جہاں مجروح کڑے امتحان سے گزرے ۔ ایسا نہ تھا کہ شاعری میں سیاست کبھی نہ رہی ہو ، کسی نہ کسی شکل میں اس کا عکس یا پرتو ہمیشہ ہی رہا ہے لیکن غزل کے باطن میں کم کم یا شاید نہیں کے برابر ۔ علامہ اقبال اور اقبال سہیل نے اسے مخصوص رنگ ضرور دے دیا تھا لیکن ایک نے نظم کے حوالے سے دوسرے نے خاموشی کے ساتھ ۔ البتہ جگر نے آخری دور کی شاعری میں اپنا رنگ بدلا تھا ۔ لیکن اس سے قبل تنقید و تفکر کی سطح پر حالی سے لے کر فراق تک اور تحریک کی سطح پر علی گڑھ سے لے کر ترقی پسند تحریک تک نے غور و فکر کی سطح پر ، شعر و نقد کی سطح پر بھی بہت کچھ بدل کر رکھ دیا تھا ، ترقی پسند شعرا نے عشق و جنوں ، رومان و انقلاب اور ادب اور سماج کی امتزاجی صورتوں میں انقلاب پیدا کردیا تھا ۔ مجروح جیسے علی گڑھ سے بمبئی پہنچے فوراً ترقی پسند تحریک اور کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ ہوگئے ۔ چونکہ خالص غزل کے شاعر تھے ترقی پسند شاعری کا طوطی نظم میں بول رہا تھا اس لئے مجروح کو دقتیں پیش آئیں اور ایک چیلینج کا سامنا کرنا پڑا۔ مجروح نے اس چیلینج کا سامنا کیا۔ مجروح لکھتے ہیں :

     " میں تو ترقی پسندوں میں شامل ہوگیا اور ترقی پسندوں کا رویہ یہ رہا کہ یہ غزل گو ہے ۔ غزل زندگی کا ساتھ دے نہیں سکتی ۔ اس وقت ہم جس پلیٹ فارم پر آئے وہاں ہمیں شاعر تصور نہیں کیا جا تا تھا کیوں کہ ہم نے غزل کی صنف اپنائی تھی اور جب غزل شاعری نہیں تو ہم شاعر نہیں ۔ چنانچہ مجھے ضد ہوگئی کہ میں کہوں گا ۔ 

( ندیم صدیقی’’انٹرویو چراغ مجروح سلطانپوری نمبر صفحہ نمبر 9)

     زندگی کے رموز و نکات فکر و فلسفہ ، تضاد و تصادم سے متعلق اردو شاعری کا دامن ہمیشہ وسیع رہا ہے ۔ زنجیر ، گریباں ، مقتل ، شورش دوراں ، آتش زیر پا وغیرہ کا ذکر تو اردو شاعری میں ہوتا ہی آیا ہے لیکن راست طور پر عہد حاضر کی سیاست اور سیاسی گرم بازاری ، تحریک اور اندولن وغیرہ کا ذکر غزلیہ انداز میں کہہ پانا مشکل کام تھا۔ لیکن مجروح کی صلاحیت اور انانیت نے یہ کارنامہ انجام دے ڈالا۔ مجروح باقاعدہ مزدوروں اور عوام کی تحریکوں سے جڑے اور جیل بھی گئے ۔ نتیجتاً اس قسم کے اشعار تخلیق پائے :

سر پر ہوائے ظلم چلے ، سو جتن کے ساتھ

اپنی کلاہ کج ہے ، اسی بانکین کے ساتھ


میں اکیلا ہی چلا تھا ،از جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے ، اور کارواں بنتا گیا


جلا کے مشعل جاں ، ہم جنوں صفات چلے

جو گھر کو آگ لگائے ، ہمارے ساتھ چلے


ستونِ دار پہ ، رکھتے چلو سروں کے چراغ

جہاں تک، یہ ستم کی سیاہ رات چلے


سوئے مقتل کہ پئے ، سیرِ چمن جاتے ہیں

اہل دم جام بہ کف ، سر بہ کفن جاتے ہیں


دیکھ زنداں سے پرے ، رنگ چمن جوش بہار 

رقص کرنا ہے تو پھر ، پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ 


     یہ اشعار اگر چہ راست طور پر سیاست اور تحریک سے وابستہ ہیں لیکن ان میں شعریت اور غزلیت بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ۔ ساری اصطلاحات و تراکیب وہی ہیں جو غزل کی روایت کا حصہ ہیں ۔ مشعل جاں ، سروں کے چراغ ، کج کلاہی ، سوئے مقتل سب کے سب صرف سیاست ہی نہیں بلکہ شعریت کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ ان اشعار کا مطالعہ کیجیے تو ان میں انسانی ہمدردی ، زندگی سے وابستگی تو ہے ہی ان کے اسلوب اور لہجے میں ایک خاص قسم کا وقار دکھائی دیتا ہے۔ اس نوع کی شاعری میں جب فکر و فن اپنے عروج پر پہنچتا ہے تو مجروح کے قلم سے وہ اشعار نکلتے ہیں جن پر صرف مجروح ہی نہیں پوری ترقہ پسند شاعری فخر کرتی ہے اور جو صرف ترقی پسند شاعری کا ہی نہیں اردو کی غزلیہ شاعری کا عزیز ترین سرمایہ ہے ۔ کچھ شعر ملاحظہ کیجے: 

جاؤ تم اپنے بام کی خاطر ساری لویں شمعوں کی کتر لو زخم کے مہر و ماہ سلامت جشن چراغاں تم سے زیادہ


ہے یہی اک کاروبار ، نغمہ و مستی کہ ہم 

یا زمیں پر یا سرِ افلاک ہیں چھائے ہوئے 


جنوںِ دل نہ صرف اتنا کہ اک گل پیرہن تک ہے 

قد و گیسو سے اپنا ، سلسلہ دار و رسن تک ہے


حادثے اور بھی گزرے ، تری الفت کے سوا

ہاں مجھے دیکھ ، مجھے! اب میری تصویر نہ دیکھ


مجروح نے جس وقت غز ل کا پرچم لہرایا ان کے ساتھ ساتھ یا آگے پیچھے مجاز ، جذبی اور فیض بھی غزلیں کہہ رہے تھے اور شہرت پار ہے تھے لیکن مجروح کا لہجہ ان سب سے مختلف اور منفرد تھا۔ مجروح نے سیاست کو اپنی روایت اور کلاسکیت کے اندر جذب کیا ۔ اردو کی صوفیانہ شاعری سے فیض اٹھایا اور اس کے مزاحمتی لہجہ کو ایک نیا رنگ دیا ۔ یہ نیا رنگ انھوں نے زندگی کی نئی حقیقتوں اورمعروضی صورتوں سے حاصل کیا۔ وہ بارہا کہتے ہیں کہ وہ جب ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوئے تو انھوں نے خوب پڑھا اور زندگی کا بدلا ہوا تصور ان کے سامنے تھا ۔ چنانچہ انھوں نے غزل کی بدلتی روایت سے اجتناب تو کیا لیکن لفظیات اور اسلوب وہی لیا اور اس میں نئے معنی دیے ۔ وہ جہاں ایک طرف تو یہ کہتے ہیں :

ترقی پسند تحریک

    " ترقی پسند تحریک کا یہ مفہوم  ہے کہ اگر انسان مظلوم ہے تو اس کی حمایت کی جائے مدد کی جائے اسے میں قطعی طور پر غلط سمجھتا ہوں کہ ترقی پسندی کو کمیونسٹ تحریک سے وابستہ کر دیا جائے تحریک تو جب تھی اب ایک رویہ ہے۔ ‘‘ (محمد حسن انٹرویو عصری ادب شمارہ 46 ، 47 گوشہ مجروح سلطان پوری )


ایک جگہ وہ یہ بھی کہتے ہیں :

    "  یہ ضروری نہیں کہ آپ ہر اک شعر میں انقلاب زندہ باد کہیں ۔ اگر آپ جمالیاتی طور پر کسی ایک شخص کو صحت مند بہتر بناتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے انقلاب سے دس ہزار گنا اچھی بات کہی ہے ۔ اس طرح آپ کچھ ایسا کریں کہ انسان جو آپ کے آس پاس ہے وہ صحت مند بنے ۔ حسن کے اعتبار سے ، جذبے کے اعتبار سے ، انسانیت کے اعتبار سے وہی مریض نہ بنے .. "

 (محمد حسن انٹرویو عصری ادب شمارہ 46 ، 47 گوشہ مجروح سلطان پوری )


     مجروح سلطانپوری نے کم کہا لیکن جتنا کہا وہ اس قدر سوچا ہوا ، سمجھا ہوا اور سجا ہوا ہے کہ اس نے نہ صرف اپنے عہد میں دھوم مچادی بلکہ مجروح کی غزلیہ شاعری ترقی پسند کا امتیازی نشان بن گئی ۔ یہی نہیں بلکہ سیاسی رمزیت کے علاوہ تہہ در تہہ ، محویت مستی و سرشاری اور حسن کاری کے علاوہ جو سب سے بڑا کام ہوا وہ انفرادی شعور کا اجتماعی شعور میں ڈھل جانا ۔ انھوں نے گل پیرہن سے لے کر دار و رسن کے فاصلے اور مرحلے کو باہم مد غم کردیا۔ محبوب کا ہاتھ اور دار و رسن کا ساتھ ہمیشہ رہا۔ 

     سیای شاعری کے بارے میں عام خیال ہے کہ وہ اکثر اکہرے پن اور خارجیت کا شکار ہو جاتی ہے لیکن مجروح کا کمال یہ ہے کران کا مخصوص غزلیہ آہنگ ان کے سیاسی افکار کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور سیاست سے ماورا نئے مفاہیم کے در وا کرتا ہے ۔

      انفرادیت سے اجتماعیت کا سفر جس قدر مشکل ہے اسی قدر اجتماعیت کو انفرادیت میں بدل دینا بھی ۔ مجروح نے مسائل روزگار اور مصائب حیات کو ذاتی ہی نہیں نظریاتی طور پر سمجھا ، اس کے بعد حدیث زمانہ کو حدیث دل بنا کر پیش کیا ۔

علی سردار جعفری کے الفاظ میں

    " مجروح نے اپنی خوشیوں کو سماجی زندگی کی خوشیوں میں اور اپنے غموں کو سماجی زندگی کے غموں میں ملادیا اور پھر اس سمندر سے اپنی شاعری کے جام بھرے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مجروح کا ہر شعر بہ یک وقت ان کے اپنے دل کی آواز بھی ہے اور زمانے کی دل کی دھڑکن بھی ۔ ہر اچھی شاعری کے لیے ضروری ہے کہ اس میں سب کی بات نکلتی ہو لیکن انداز شاعری کا ہو ، یہی وہ انفرادیت اور اجتماعیت ہے جو شاعر کو عظمت بخشتی ہے۔

بقول وحید اختر :

     " وہ (مجروح سلطانپوری) پہلے شاعر ہی جنھوں نے سیاسی مسائل کو بھی غزل کی زبان میں تغزل کی کیفیت کو برقرار رکھتے ہوئے پیش کیا ہے ۔ "

     اور یہ تغزل اس لیے برقرار رہا کہ وہ غزل گوئی میں نرمی ، لچک ، الفاظ کی دروبست ، تغزل و ترنم پر ابتدا سے ہی یقین رکھتے تھے اور تشبیہ و استعاروں کا خوبصورت تخلیقی استعمال جانتے تھے۔ وہ تصوف اور معرفت کے علائم سے بھی واقف تھے ۔ جب سیاسی مسائل سامنے آ ہے تو مجروح نے الفاظ کی ماہیت و معنویت بدل دی ، لہجہ وہی قائم رکھا ۔ لطیف الفاظ اور تراشیدہ تراکیب بھی وہی رکھیں ۔ یہ ان کی غزل کی تہہ داری ہے کہ ان کے خالص رومانی اشعار کو بھی سیاسی اور سماجی معنی پہنائے جاسکتے ہیں ۔ مثلا دو شعر دیکھیے :


سوال ان کا ، جواب ان کا ، سکوت ان کا  ،خطاب ان کا 

ہم ان کی انجمن میں ، سر نہ کرتے خم ، تو کیا کرتے


اک ستم گر تو کہ وجہہِ صد خرابی تیرا درد

اک بلا کش میں کہ تیرا درد کام آہی گیا


پھر آئی فصل کے مانند برگ آوارہ

ہمارے نام گلوں کے مراسلات چلے


   ان اشعار میں محبوب کا بھی ذکر ہے اور ارباب اقتدار سے بھی خطاب ہے ۔ غرض کہ یہ فن آسان نہیں کہ حدیثِ دلبر ، حدیثِ زمانہ بن جائے۔ مجروح غزل کا یہ فن اچھی طرح جانتے تھے ۔ اسی فن میں انھوں نے ترقی پسند فکر کو جذب و پیوست کر کے غزل کی زبان کو ایک نئے جہان معنی سے آشنا کیا اور ایک طرح سے غزل میں جدید تہہ داری کا آغاز کیا ۔ اپنی غزل گوئی کے بارے میں خود مجروح سلطان پوری نے لکھا ہے: 

     " میرا فن غزل ہے، ترقی پسند غزل ۔ اس کی واضح ابتدا میں نے 1945 میں کی جب سیاسی مضامین غزل والوں میں مقہور اور خود ترقی پسندوں میں مردود قرار دیے جا چکے تھے ۔ اس تنہائی و بے بسی کے عالم میں بس ایک یقین میرا رہبر تھا کہ غزل میں اپنے عہد کے کس موضوع کو کب خوبی سے بیان نہیں کیا گیا جو اج نہیں بیان کیا جاسکتا میں نے اور میرے ساتھیوں نے ترقی پسند غزل کو ایک تازہ روایت کی حیثیت دے کر ہی دم لیا ۔ "

( گفتنی نا گفتنی __ مشعل جاں )

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے