Ad

تشبیہ اور انکی قسمیں

تشبیہ اور انکی قسمیں


:صنعت مجاز
پہلے ہم مجاز کی تشریح کریں گے اور بتائیں گے کہ ان سے شعر میں ایجاز کے علاوہ اور کیا فائدے اٹھائے جاتے ہیں ۔ اگر کلام میں لفظ کو لغوی معنی میں برتا جائے تو اسے حقیقت یا حقیقی معنی کہیں گے اس کے بر خلاف لفظ سے ایسے معنی مراد لیں جو اس کےحقیقی معنی نہ ہوں تو اسے مجاز کہیں گے۔مجاز کی چار قسمیں ہیں۔
:تشبیہ
تشبیہ میں ایک چیز کو دوسری چیز سے تشبیہ دی جاتی ہے۔
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہےم
میرتقی میر
اس شعر میں لب کو گلاب کی پنکھڑی سے تشبیہ دی گئی ہے۔دونوں کی مشترکہ خصوصیات نزاکت ہے
_____________________________________________________
تشبیہ کے پانچ اجزاء ہوتے ہیں۔-
مشبہ = جس کو تشبیہہ دی جائے اس شعر میں 'لب' مشبہ ہے
-مشبّہ بہ = جس سے کسی چیز کو تشبیہہ دی جائے ۔ متذکرہ شعر میں 'گلاب کی پنکھڑی' مشبّہ بہ ہے۔
-وجہ تشبیہہ = وہ خصوصیت جس کی وجہ سے تشبیہ دی گئی ۔ شعر میں 'نزاکت' وجہ شبہ ہے ۔
 غرض تشبیہہ = جس مقصد سے تشبیہہ دی گئی ۔ یہاں غرض تشبیہہ 'لب کی نزاکت' کو ظاہر کرنا ہے۔
-حروف تشبیہہ = وہ حروف جن کے ذریعے مشابہت دکھائی جاتی ہے اس شعر میں ' کی سی ' حروف تشبیہہ ہے۔ 
     تشبیہہ نگاری میں بعض دفعہ حروف تشبیہہ حذف کردیے جاتے ہیں اور دوسرے لفظوں کے ذریعے باالواسطہ طور پر مشابہت دکھائی جاتی ہے : جیسے:
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا 
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
میر تقی میر
یہاں کلی کے آہستہ آہستہ کھلنے کو محبوب کی آنکھوں کی نیم خوابی سے تشبیہ دی گئی ہے ۔
_____________________________________________________
تشبیہہ کی دو قسمیں ہیں ۔
 عقلی یا خیالی•
 حسی تشبیہہ•
:عقلی یا خیالی وہ تشبیہہ ہے جس میں دو چیزوں کی مشابہت عقل سے دریافت ہو جیسے 
مرا سینہ ہے مشرق آفتابِ داغ ہجراں کا 
طلوع صبح محشر چاک ہے میرے گریباں کا 
اس شعر میں سینے کو مشرق سے تشبیہہ دی گئی ہے ۔ مشرق سے آفتاب طلوع ہوتا ہے۔ میرے سینے کی مشرق سے بھی آفتاب نکلتا ہے اور وہ آفتاب ہے داغ ہجراں ۔ جب میرا گریباں چاک ہوگا تو محشر کی صبح طلوع ہوگی۔
تشبیہہ حسی وہ ہے جو حواس خمسہ میں سے کسی حس کو متوجہ کرے ۔ بعض تشبیہیں ایک سے زیادہ حواس کو متوجہ کرتی ہے۔
_____________________________________________________
:جس تشبیہہ کا تعلق حس باصرہ سے ہو اسے بصری تشبیہہ کہتے ہیں ۔جیسے 
ہستی اپنی حباب کی سی ہے 
یہ نمائش سراب کی سی ہے
میر تقی میر
_____________________________________________________
:جو تشبیہہ حس سماعت کو متوجہ کرے سمعی کہلاتی ہے ۔ جیسے
پُر ہوں میں شکوے سے یوں راگ سا جیسے باجا 
اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے 
مرزا غالب
_____________________________________________________
:جس تشبیہہ کو چھونے سے محسوس کیا جائے لمسی تشبیہہ ہوگی۔ جیسے 
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے 
پنکھڑی اک گلاب کی سی  ہے 
میر تقی میر 
_____________________________________________________
:جس تشبیہہ کا تعلق سونگھنے سے ہو شامی کہلائے گی۔ جیسے
  
کہوں نہ کیوں نہ گل اندام ان حسینوں کو 
گلاب کی سی کچھ آتی ہے بو پسینے میں
_____________________________________________________
جس تشبیہہ سے حس ذائقہ متوجہ ہو اسے مذوقی کہتے ہیں
ٹوٹے تری نگاہ سے اگر دل حباب کا 
پانی بھی بھر پئیں تو مزہ ہو شراب کا
_________________________________________________
:بعض تشبیہیں کسی کیفیت کو اس طرح گرفت میں لے آتی ہیں کہ ان کو سادہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا  جیسے
میر ان نیم باز آنکھوں میں 
ساری مستی شراب کی سی ہے 
_________________________________________________
تشبیہات پیکر تراشہ کا کام بھی کرتی ہے ۔ تشبیہیں تصویر بناتی ہے جو ہمارے حواس کو بیدار کرتی ہیں۔
تجھ لب کی صفت لعل بد خشاں سے کہوں گا
جادو ہے تیرے نین غزالوں سے کہوں گا 
ولی
بھر آتی ہے آج یوں آنکھیں 
جیسے دریا کہیں ابلتے ہیں
میر تقی میر
چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی
مرزا غالب
نہ پوچھ حال میرا خوب خشک صحراؤں
لگا کے آگ مجھے قافلہ روانہ ہوا
آتش
تاثیر برق حسن جو ان کے سخن میں تھی
اک لرزش خفی مرے سارے بدن میں تھی

حسرت موہانی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے