Ad

فراق کی انفرادیت

 

فراق کی انفرادیت

فراق کی انفرادیت

فراق کی شاعری کو فراق کی حیات و شخصیت کو سمجھے بغیر مکمل طور پر سمجھ پانا مشکل ہے ۔ ان کی ذہانت اور فطانت ، پیچ در پیچ اور تہہ دار شخصیت بہرحال ان کے شعری عوامل و محرکات ہیں۔ ان کے اندرون میں تلخی و شیرینی ، سکون و انتشار کام کرتے رہے ہیں۔ ایسی شخصیت معمولی ہو تو ختم ہو جائے لیکن بقول خلیل الرحمٰن اعظمی:

     " فراق کی انفرادیت کا اثر ہے یہ کہ اس نے شہر کو امرت بنا دیا۔ فراق نےکشمکش و تضاد پر قابو پا کر  اسے ایک مثبت عمل کی صورت دے دی ہے ۔ فراق کی شخصیت جسے تخلیقی شخصیت کہوں گا خود بہ خود نہیں بن گئی ہے بلکہ فراق نے خود اسے دریافت کیا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہ سکتے ہیں کہ اس دوسرے فراق کو خود اس نے اپنے اندر سے پیدا کیا ہے ۔ اس عمل کے دوران اس کو داخلی قوتوں نے دوسری  بہت سی خارجی قوتوں سے امتزاج حاصل کیا ہے۔ "

    تبھی تو فراق نے کہا تھا " میں نے اس آواز کو مرمر کے پالا ہے فراق " اور کچھ شعر یوں ہے : 

رکی رکی سی، شب مرگ، ختم پر آئی

وہ پو پھٹی، وہ نئی زندگی، نظر آئی 


کسی کی بزم میں طرب حیات بٹتی ہے

امیدواروں میں، کل موت بھی، نظر آئی 


فسردہ پاکے محبت کو مسکرائے جا

اب آگیا ہے تو اک آگ سی لگائے جا

فراق جمالیات کا شاعر

      فراق جو جمالیات کا شاعر یا شاعرِ جمال بھی کہا گیا ہے ۔ لیکن فراق کی جمالیات صرف و حسن و عشق تک محدود نہیں ہے ۔ یہ سچ ہے کہ ابتدا ان کے یہاں بھی حسن و عشق کے روایتی مضامین ہیں لیکن رفتہ رفتہ جب انھوں نے اپنی آواز کو پا لیا تو اس میں ہندوستانی تہذیب ، فطرتِ انسانی اور زبان و بیان کا ایسا رس گھل گیا جو آگے چل کر ان کی اپنی آواز اور اپنی پہچان بن گیا۔ مناظرِ قدرت سے تو فراق بچپن سے ہی متاثر تھے آگے چل کر فراق نے انھیں زبان دے دی ، خصوصاََ نظموں میں اس کا جادو بولتا نظر آتا ہے۔ غزلوں میں بھی اس کیفیت کا اندازہ نیچے دیے گئے اشعار سے لگایا جاسکتا ہے :


وہ پچھلی شب نگہہِ نرگسِ خمار آلود

کہ جیسے نیند میں، ڈوبی ہوئی ہو، چندر کرن


روپ کا رہ رہ کے جھلک مارنا

پھولوں سے جس طرح اڑیں تتلیاں 


حسن کی صباحت کو کیا بتائیے جیسے

چاندنی مناظر پر پچھلی رات ڈھلتی ہے 


فراق نے تشبیہات ، استعاروں ، اشاروں اور تلمیحات میں بھی ہندوستانی زندگی کی عکاسی کی ہے : 

ہر لیا ہے کسی نے سیتا کو

زندگی کیا ہے رام کا بن باس


دلوں میں، تیرے تبسم کی یاد، یوں آئی

کہ جگمگا اٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ


فراق نے کہیں کہیں تہذیب و فلسفے کو اپنی غزلیہ شاعری میں رنج و غم سے زیادہ نشاط و امید کا حصہ بنا لیا ہے :

موت اک گیت رات گاتی تھی 

زندگی جھوم جھوم جاتی تھی


زندگی کو وفا کی راہوں میں 

موت خود روشنی دکھاتی ہے


فراق کے انتقال پر ممتاز نقاد آل احمد سرور نے کہا تھا:

     ’’ فراق اس دور کے صف اول کے شعرا میں تھے انھوں نے شاعری اور تنقید میں ایسا گراں قدر سرمایہ چھوڑا ہے کہ اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ فراق انگریزی کے استاد تھے۔ وہ اردو زبان و ادب کے عاشق، مغربی ادب کے رمز شناس اور ہماری مشترکہ تہذیب کے ایک گل سر سبد تھے ‘‘

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے