Ad

فراق گورکھپوری کی غزلیں مع تشریح و خلاصہ

فراق گورکھپوری غزل تشریح

 

فراق گورکھپوری کی غزلیں مع تشریح و خلاصہ


غزل 1

آج بھی، قافلۂ عشق رواں ہے، کہ جو تھا

وہی میل اور وہی سنگِ نشاں ہے، کہ جو تھا


منزلیں گرد کی مانند اڑی جاتی ہیں

وہی اندازہ جہانِ گزراں ہے کہ جو تھا مے


قرب ہی کم ہے، نہ دوری ہی زیادہ، لیکن 

آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے، کہ جو تھا


پھر سرِ میکدۂ عشق ہے اک بارشِ نور

چھلکے جاموں سے، چراغاں کا سماں ہے، کہ جو تھا


آج بھی آگ دبی ہے، دل انساں میں فراق

آج بھی سینوں سے اٹھتا وہ دھواں ہے، کہ جو تھا

فراق اردو شاعری

غزل 2

،سر میں سودا بھی نہیں، دل میں تمنا بھی نہیں 

لیکن اس ترک محبت کا، بھروسا بھی نہیں


مہربانی محبت نہیں کہتے اے دوست

آہ ! اب مجھ سے تری، رنجشِ بے جا بھی نہیں


مدتیں گزریں، تری یاد بھی، آئی نہ ہمیں 

اور ہم، بھول گئے ہوں تجھے، ایسا بھی نہیں


دل کی گنتی، نہ یگانوں میں، نہ بیگانوں میں

لیکن اس جلوہ گہہ ناز سے، اٹھتا بھی نہیں


آه یہ مجمع احباب ، یہ بزم خاموش

آج محفل میں فراقِ سخن آرا، بھی نہیں


غزل 3

شام غم ، کچھ اس نگاہِ ناز کی، باتیں کرو

بے خودی بڑھتی چلی ہے راز کی باتیں کرو


نکہتِ زلفِ پریشاں ، داستانِ شامِ غم

صبح ہونے تک اس انداز کی باتیں کرو


جو عدم کی جان ہے جو ہے پیام زندگی

اس سکوتِ راز ، اس آواز کی باتیں کرو


کچھ قفس کی تتلیوں سے چھن رہا ہے نورسا

کچھ فضا ، کچھ حسرتِ پرواز کی باتیں کرو


،جس کی فرقت نے پلٹ دی، عشق کی کایا فراق

آج اس عیسیٰ نفس، دم ساز کی باتیں کرو


غزل 4

رکی رکی سی، شب مرگ، ختم پر آئی

وہ پو پھٹی ، نئی زندگی نظر آئی 


یہ موڑ وہ ہے، کہ پرچھائیاں بھی، دیں گی نہ ساتھ

مسافروں سے کہو ان کی رہ گزر آئی


ذرا وصال کے بعد، آئینہ تو دیکھ، اے دوست 

ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی


شبِ فراق اٹھے دل میں اور بھی درد

کہوں یہ کیسے تری یاد رات بھر آئی

Firaq gorakhpuri ghazal tashreeh

فراق کے اشعار کی تشریح 

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں تشریح

،سر میں سودا بھی نہیں، دل میں تمنا بھی نہیں 

لیکن اس ترک محبت کا، بھروسہ بھی نہیں 


ترک محبت غزل کی شاعری کا خاص موضوع ہے۔ عاشق جب محبوب کی بے وفائی سے تنگ آ جاتا ہے، اس کی توجہ سے محروم ہو جاتا ہے یا وہ ایسے حالات سے گزرتا ہے کہ محبت اسے کا حاصل معلوم ہوتی ہے تو وہ محبت سے کنارہ کش ہو جاتا ہے۔ لیکن عشق اگر سچا اور بے لوث ہو تو ختم نہیں ہوتا ۔ حسرت موہانی کہتے ہیں

بھلاتا لاکھ ہوں، لیکن برابر یاد آتے ہیں

الہیٰ ترک الفت پر، وہ کیوں کر یاد آتے ہیں


فراق کہتے ہیں کہ ہم محبت ترک کر چکے ہیں۔ اب ہمارے سر میں عشق کا جنون ہے اور نہ محبوب جو پانے کی تمنا۔ لیکن اس ترکِ محبت کا بھروسا نہیں۔ نہ جانے کب عشق کی آگ دو بارہ بھڑک اٹھے۔ 


رکی رکی سی، شب مرگ، ختم پر آئی

وہ پو پھٹی ، وہ نئی زندگی نظر آئی


عاشق پر جدائی کی رات بھاری ہوتی ہے ۔ ایک ایک لمحہ عذاب بن کر گزرتا ہے۔ موت کی سی کیفیت طاری رہتی ہے۔ اس لیے شب ہجر کو شب مرگ کہا گیا ہے۔ صبح نمودار ہوتی ہے تو نئ زندگی کا پیام لاتی ہے۔ محبوب کے دیدار یا اس سے ملاقات کی امید بندھتی ہے۔

Firaq gorakhpuri urdu shayari

خلاصہ

     اس اکائی میں ہم نے اردو کے ایک اہم غزل گو شاعر فراق گورکھپوری کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا ان کی شخصیت سے واقفیت حاصل کی ۔ فراق گورکھپوری نے غزل میں اردو کی عشقیہ شاعری کو نئی کیفیات اور احساسات سے آشنا کیا۔ ہم نے فراق گورکھپوری کی انفرادی خصوصیات پر روشنی ڈالی ۔ آپ کے مطالعے کے لیے فراق کی چار غزلیں پیش کی گئیں اور دو اشعار کی تشریح کی تا کہ فراق کی غزلوں کی تحسین آ پ بہتر طریقے سے کرسکیں ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے