Ad

نصرتی کا قصیدۂ چرخیہ مکمل اور چند اشعار کی تشریح

 

نصرتی کا قصیدۂ چرخیہ مکمل اشعار کی تشریح


قصیدۂ چرخیہ

تخت تے جب دن پتی سیج میں کیتا گون

نس کا سپہ دار تب گرم کریں انجمن 


صبح کا فراش جمک سوں روشن کرے

ریگ سوں تاریاں کی نت مانج گگن کا لگن


دن کے سلیمان نے مہر کے کھونے میں مھر

مسندِ سیمیں لیا رین کرا اہر من


گونڈ کی یک باگ کوں مد میں جو بکریاں رکھے

شعر گوئی کا دوجا جھٹ کریں سب کو بھجن


لاج سوں پردے تب نس کیا عروسیاں چھپنیاں

صبح کا عشاق جب جھانکتے نکلے ، اگن


صبح کا جوگی ہوا خلق پہ زریں لباس

مار کر پارہ کریں جب وو قراری گجن


دن کے سپہہ دار نے روم کی شمشیر لے

مار حبش کا چشم صاف کیا ، انجمن


پھر کے حبش نس پتی رشک سوں برہم ہوا

تیغ لے زنگبار کا توڑ ، نے رومی کا تن


حکم کے وئیں گھن کوں دھر کوہ کے سمار پر

مار سٹے پل میں پھر شعلہ اڑا سب گگن 


زرد و کنگ کا نجور روم کا دیوے حکیم 

شام کی سردی سوں جب چرخ کوں ہوتا ہے سن


جب او نکالے کی ہویں دود بھرا جل چھلے

چھان کی چندنی کی راک تس کوں پکاریں رین


راک سوں چندنی کے جب نین او کملا چھلے 

چھانٹنے شبنم کا نیر آئے صبح کا پون


سبز ورق کا رنگے حاشیہ نقاش صبح

متن اوپر سر بسر جانیے حل کر کنچن


دن کے زر افشاں پہ حل سیم سٹے نس مگر

صبح کوں صانع کرے کاتب قدرت لکھن


گرتوں نمنگ اے جواں ہوے تماشا عیاں

فہم کا لا نردباں دیک چڑے ست گھن


عزم سوں دھر دل اپر یاد کا پکڑیا خیال

فرح دھریا بے مثال دیکھ اے پیلا گگن


حسن سوں کر بسر جگ میں اچھے مشتہر

لاج سوں پن دھرت پر جم ہے حیا کی نمن


نازکی تن نارسوں دھر کے پون پر سبق

نس کا چمن نت بھریں جوت کے رنگوں دھرن


بام منور کریں ایک نظارے منیں

دیک تڑپتیاں انکھیاں شمع مسبح وطن


شاہ حبش کا حشم ڈر سوں لگا لگ ڈبے 

کھنچ کر شمشیر آئے ترک یو جب صف شکن


دین کے سرتاج کی ، صاحب معراج کی

اس تے ہی تس کاج کی جاگ پہ ہے شمع رین


حق کا نبی پاک و جگ تے شرف ناک وہ

مفخرِ لولاک وہ ، خاتمِ آخر زمن


رین کی تس چرخ پر نجم عجائب دسیا 

تھا جو دبیرِ فلک راقم سال و قرن


بلکہ صبا آٹھ سدا عار نہ دھرتی دریغ

خونِ عزیزاں ستی ہم سوں کرے مکھ منجن 


جس کا چلاوے نشاں چرخ کی سر بلند لعل

سرخ ہے اس تے مگر گاو زمیں کے قرن


جس کی مہابت ستی ڈر سوں چھپے نے سورج

دفن سو مغرب میں ہوئے پین رکت کا کفن


وہ سو نبی مصطفیٰ خسرِ علی مرتضیٰ

والدِ خیر النساء جدّ حسین و حسن


تھا وہ فلک پہر گہر صدر سوں تس پر سوز

جم اچھے ساکن اپر چھپ سو چھبیلے موہن


سرو سے بالی کے بال سنبلہ تر بے مثال

نین دو نرگس رساں صاف صدف سیں کرن


ناک چنپے کی کلی ، پھول سوں نازک ادھر

سیبِ سمرقند سے چاہ دھرے سو ذقن


مطربِ صاحب جمال نغمہ کرے بے مثال

جگ میں دیسے جگ او جال تن یہ سنگار ابرہن


صفحۂ کافور پر کھینچے حکمِ قضا

مشک میں جم تر رکھے صاف قلم کی دسن


کچھ نہیں سمجیا منجے نعت نبی میں دوجا

صفحہ پر جب سیں سٹھیا فہم سوں دل کے نین


ہادیِ دیں بے نظیر امتے روشن ضمیر 

ناطق نصِ قدیر بانی شرع و سنن


راست کے یارانِ دیں محکم فرخ متیں

ہوئیں سونست برتریں دھرت کا جب لگ بسن


شہہ سا سو لچھن نول کون ہے جگ میں کہو

یاد سوں جس اسم کی جائے کدورت محن


جام سوں عشرت کے جم بزم یو معمور اچھو

چرخ میں دن رین کی گرم ہے جوں انجمن 


شہہ کی ثنا نصرتی نغز نول یوں لکھے

دور کے دفتر اوپر سر اچھے ہر یک بچن 


نصرتی کا قصیدۂ چرخیہ اشعار کی تشریح

       دکنی قصائد میں قصیدے کی ایک قسم ہے جسے چرخیات کہتے ہیں۔ اس قصیدے کی تشبیب میں فلکیات کے متعلقات ہوتے ہیں جیسے آسمان کی پہنائیاں ، سورج کا طلوع ہونا ، شفق کا پھولنا ، سورج کا غروب ہونا ، چاند کا نکلنا ، تاروں کا انجمن کا سجنا وغیرہ وغیرہ ۔ اسی مناسبت سے ایسے قصائد کو مولوی عبد الحق نے چرخیات کا نام دیا ہے ۔ اس قسم کے قصائد ہمیں محمد قلی قطب شاہ ، علی عادل شاہ شاہی اور دوسرے شاعروں کے یہاں بھی ملتے ہیں۔ نصرتی کا یہ چرخیہ قصیدہ 134 اشعار پر مشتمل ہے جو معراج نبوی کے بیان میں ہے۔ اس قصیدے کی تشبیب چرخیات سے ہی متعلق ہے۔ چونکہ اس قصیدے کا موضوع معراج نبوی ﷺ ہے اسیے فلکیات کی تشبیب باندھی گئی ہے۔ اس قصیدے کا مطلع ہے۔

تخت تے جب دن پتی سیج میں کیتا گون

نس کا سپہ دار تب گرم کریں انجمن


( یعنی جب دن کا بادشاہ ( سورج ) سیج پر جلا جاتا ہے ( ڈوب جاتا ہے تب رات کا پہرہ دار ( چاند ) اپنی انجمن سجاتا ہے ) اسی طرح شاعر چاند ، سورج کے ڈوبنے ، نکلنے اور صبح و شام کی منظر نگاری کرتا ہے جس کے لیے وہ بڑی دلچسپ تشبیہات کا سہارا لیتا ہے۔ مثلاً


صبح کا جوگی ہوا خلق پہ زریں لباس

مار کر پارہ کریں جب وہ قراری گجن


سبز ورق کا رنگے حاشیہ نقاشِ صبح

متن اوپر سر بسر جا بسے حل کر کنچن


چاند سورج کی ایک دوسرے پر سبقت اور بدلتے ہوئے مناظر کا ذکر کرتے ہوئے شاعر معراج نبوی ﷺ پر پہنچتا ہے اور یہی اس قصیدے کی گریز ہے۔

دین کے سرتاج کی ، صاحب معراج کی

اس تے ہی تس کاج کی جاگ یہ ہے شمع رین


      یہاں سے وہ حضور اکرم ﷺ کی تعریف شروع کرتا ہے۔ تشبیب کے مقابلے میں مدح میں اس کا اشہب قلم تیز دوڑتا ہے۔ زبان و بیان میں روانی اور نسبتاً سادگی آ جاتی ہے۔


حق کا نبی پاک وہ جگ تے شرف ناک وہ

مفخرِ لولاک وہ ، خاتم آخر زمن


رین کے تس چرخ پر نجم عجائب دسیا

تھا جو دبیر فلک راقم سال و قرن


      آگے چل کر نصرتی حضور اکرم ﷺ کا سراپائے اقدس لکھتا ہے۔ یہ سراپا اس کی محبت کا مظہر ہے۔ جس طرح محبوب کے حسن کی شاعر تعریف کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح وہ یہاں حضور اکرم ﷺ کا سراپا بیان کرتا ہے :


ناک چنپے کی کلی ، پھول سوں نازک ادھر

سیب سمر قند سے چاہ دھرے سو ذقن


سرو سے بالی کے بال سنبلہ تر بے مثال

نین وہ نرگس رساں صاف صدف سیں کرن


آخر میں نعت نبی لکھنے میں اپنے اعجاز کا اظہار کرتا ہے :

کچھ نہیں سمجیا منجے نعتِ نبی میں دوجا

صفحہ پہ جب سیں سٹھیا فہم سوں دل کے نین


مگر نعت لکھتا ہے تو پھر ایسی جس میں دریا کی سی روانی آ جاتی :

ہادیِ دیں بے نظیر امتے روشن ضمیر

ناطق نصِ قدیر بانی شرع و سنن


شہہ سا سو لچھن نول کون ہے جگ میں کہو

یاد سوں جس اسم کی جائے کدورت محن


          مقطع میں نصرتی نے بادشاہ کی تعریف کی جس کی وجہ مولوی عبد الحق کو گمان گزرتا ہے کہ اس قصیدے کا ممدوح محمد عادل شاہ ہے۔ مولوی عبد الحق کا کہنا ہے کہ یہ قصیدہ نصرتی کے اولین دور سے تعلق رکھتا ہے۔ جمیل جالبی نے اس قصیدے کی بڑی تعریف کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ نصرتی کا قصیدہ چرخیہ اپنے جوش و عقیدت ، انداز بیان ، تخیل و معنی آفرینی ، موسیقانہ آہنگ اور خوب صورت بحر کی وجہ سے ایک شاہکار قصیدہ ہے ۔ اس قصیدۂ چرخیہ میں الفاظ اور اصطلاحات آسمان سے متعلق لائی گئی ہیں اور نفسِ مضمون اسی کے ذریعے اجاگر کیا گیا ہے :


چند اشعار کی تشریح

دین کے سرتاج کی ، صاحب معراج کی

اس تے ہی تس کاج کی جاگ یہ ہے شمع رین


      صاحب معراج وہ جو دین کے سرتاج ہیں ، ساری بادشاہی ان ہی کے لیے ہے۔ ان ہی کی وجہ سے رات کی شمع آسمان پر روشن ہوئی یعنی چاند نکل آیا تاکہ رات کے کام کاج میں فرق نہ آنے پائے۔


رین کی تس چرخ پر نجم عجائب دسیا

تھا جو دبیر فلک راقم سال و قرن


      رات میں آسمان پر ستارے عجیب منظر پیش کرتے ہیں۔ دبیر فلک یعنی عطارد سال اور زمانے کا حساب لکھ رہا ہے ( یہ سب ان ہی کے قدم سے ہے جن کے لیے یہ دنیا بنائی گئی )


جس کی مہابت ستی ڈر سوں چھپے نے سورج

دفن سو مغرب میں ہوئے پین رکت کا کفن


      جس کی ہیبت ( حضور اکرم ﷺ ) سے ڈر کر سورج ہمیشہ مغرب میں خون کا کفن پہن کر دفن ہو جاتا ہے۔ یعنی شفق کی چادر اوڑھ کر چھپ جاتا ہے ۔ رکت کا کفن یہاں استعارہ ہے۔


ناک چنپے کی کلی ، پھول سوں نازک ادھر

سیب سمر قند سے چاہ دھرے سو ذقن


       سرور دو عالم ﷺ کا سراپا لکھتے ہوئے نصرتی کہتا ہے کہ ناک چنپے کی کلی کی طرح ستواں ہے اور ہونٹ پھول سے نازک ، تھوڑی کا گڑھا ( چاہ ذقن ) سیبِ سمر قند معلوم ہوتا ہے۔ اس شعر میں شاعر نے تشبیہ اور استعارے دونوں سے استفادہ کیا ہے۔ مثلاً ناک چنپے کی کلی اور پھول سوں نازک ادھر ( ہونٹ ) تشبیہہ ہیں۔


خلاصہ

       قصیدہ اردو کی مقبول عام صنف ہے۔ دکنی دور میں بھی قصائد کثرت سے ملتے ہیں۔ قطب شاہی اور عادل شاہی دونوں سلطنتوں میں ایک سے بڑھ کر ایک قصیدہ گو شاعر گزرے ہیں مگر نصرتی کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔ نصرتی کے جملہ بارہ قصائد ملتے ہیں۔ ان میں سے سات قصائد تو خود علی نامہ میں شامل ہیں۔ پانچ اور قصائد بھی ہیں۔ قصیدۂ چرخیہ ان میں سے ایک قصیدہ ہے۔ قصیدۂ چرخیہ قصیدے کی ایک قسم ہے جس کی تشبیب میں متعلقات چرخ کی اصطلاحات برتی جاتی ہیں ۔ نصرتی کا قصیدۂ چرخیہ معراج نبوی ﷺ سے متعلق ہے جس کی تشبیب چرخیہ ہے۔ تشبیب کے بعد سرکار ﷺ کا سراپا بیان کیا گیا ہے اور عادل شاہ ثانی کی تعریف میں مقطع پر قصیدہ ختم ہوتا ہے۔

      بنصرتی کے قصائد اعلی درجے کے ہیں جن میں اس نے ہندی کی پُٹ شامل کی ہے۔ علی عادل شاہ ثانی اس کا مربی اور محسن ہے اسیے زیادہ تر قصیدے اس کی شان میں ہیں ٹھنڈ کالے پر اس کا قصیدہ منظر نگاری کا مرقع ہے۔ اس کے یہاں الفاظ ، تراکیب ، اصطلاحات ، تشبیہہ و استعاروں کی کمی نہیں۔ اس کی تشبیہات و استعاروں ، تلمیحات میں تنوع ہے۔ اس نے صنمیات اور اساطیر سے بھی اظہارِ بیان میں مدد لی ہے۔ قصیدے کی شان اس کے پر شکوہ اظہار بیان میں مضمر ہے نصرتی اس حساب سے قصیدے کا بادشاہ ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے