Ad

میر انیس کی منتخب رباعیاں تشریح و خلاصہ

 

میر انیس کی رباعی گوئی کی تشریح

انیس کی منتخب رباعیاں

Anees ki rubai

گلشن میں پھروں کہ سیر صحرا دیکھوں

یا معدن و کوه و دشت و دریا دیکھوں


ہر جا ! تری قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے

حیراں ہوں، کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں


رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے

وہ دل میں فروتنی کو جا ، دیتا ہے


کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی

جو ظرف سے خالی ہے، صدا دیتا ہے


طفلی دیکھی ، شباب دیکھا ہم نے

ہستی کو حباب آب دیکھا ہم نے


جب آنکھ ہوئی بند تو عقده ی

جو کچھ دیکھا، سو خواب دیکھا ہم نے


رباعی کی تشریح

Rubai ki tashreeh

طفلی دیکھی ، شباب دیکھا ہم نے

ہستی کو حباب آب دیکھا ہم نے

 جب آنکھ ہوئی بند تو عقده دیکھا

جو کچھ دیکھا، سو خواب دیکھا ہم نے


انیس نے اس رباعی میں ہستی کی بے ثباتی کا بڑی دل نشینی اور دروں بینی سے اظہار کیا ہے۔ کہتے ہیں انسان اپنے وجود میں آنے کے بعد سے مختلف مراحل سے گزرتا ہے طفلی یا بچپن کی معصومیت ، شباب کی رنگینی سر مستی وغیرہ ، لیکن اس سچائی سے غافل رہا کہ یہ ہستی مثل حباب آب ہے جو چند لمحوں میں ابھر کر پھٹ پڑتا ہے ۔ یوں جب انسان پر موت کی نیند طاری ہوتی ہے تو یہ راز کھلتا ہے کہ اس دنیا کے مختصر عرصۂ زندگی میں جو کچھ بھی دیکھا وہ محض ایک خواب تھا۔


خلاصہ

اصناف شاعری میں رباعی بہ اعتبار ہئیت اور بہ اعتبار مواد منفرد صنف سخن ہے ۔ یہ مختصر ہوتے ہوئے بھی اپنے اندر پند و موعظت ، اخلاقی ، اصلاحی اور مذہبی مسائل کے اظہار کی طاقت رکھتی ہے۔ عربی اور فارسی کے شاعروں نے اس صنف سخن میں حقائق و معارف کے مضامین کو سمویا ہے ۔ اردو کے شعرا نے بھی اس کی اثر پذیری اور دلآویزی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکیمانہ خیالات کے اظہار کے علاوہ اس کے ذریعے سوز و گداز ، عاشقانہ لطف و انبساط لطیف جذبات و احساسات کو دل فریب انداز سے پیش کیا ہے ۔ رباعی چار مصرعوں والی نظم ہے ۔ اس طرح کی شاعری دنیا کی مختلف زبانوں میں بھی پائی جاتی ہے اور اس نے ہر جگہ مقبولیت حاصل کی ہے ۔ اردو کے قدیم شاعروں میں محد قلی قطب شاہ، وجہی ، غواصی ، نصرتی ، شاہی کے بعد ولی دکنی ، سراج اورنگ آبادی کے ہاں بھی رباعیات ملتی ہیں ۔ شمالی ہند میں بھی کم و بیش سبھی شاعروں نے رباعیاں کہی ہیں ۔ ان میں میر حسن ، میر تقی میر ، خواجہ میر درد اور مومن کے بعد میرانیس کی رباعی گوئی امتیاز رکھتی ہے ۔ انیس نے علاوہ مرثیہ گوئی کے رباعیوں میں بھی اپنی انفرادیت کو ثابت کیا ہے ۔ ان کے ہاں مذہبی ، اخلاقی ، فلسفیانہ اور رثائی رباعیات کا قابل لحاظ ذخیرہ ملتا ہے ۔ انیس کی رباعیات میں  سلاست ، روانی ، جدت ، ندرت ، فصاحت ، بلاغت ، تازگی ، شگفتگی ، شائستگی سبھی کچھ موجود ہے ۔ میرانیس کے معاصر مرزا دبیر کی رباعیاں بھی مشہور زمانہ رہیں ۔ اس بارے میں امداد و امام اثر کا خیال ہے کہ :

Ugc net urdu syllabus

” حقیقت یہ ہے کہ  دو بزرگوار ( انیس و دبیر ) رباعی نگاری کے اعتبار سے بہت قابل قدر ہیں اردو شعرا میں بھی یہی حضرات ہیں جنھوں نے رباعی نگاری کی شرم رکھ لی ہے ( کاشف الحقائق ص ۔ 286 )

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے