Ad

میر انیس کا عہد

 

میر انیس کا عہد


میرانیس کا عہد

Meer Anees ka ahed 

اس اکائی میں میر انیس لکھنوی کے حالات زندگی کے علاوہ ان کی رباعی گوئی سے متعلق تفصیلات سے واقف کروایا جائے گا ۔ انیس کی منتخب رباعیاں دی جائیں گی ۔ اس کے بعد نصاب میں شامل انیس کی ایک رباعی کی تشریح پیش کی جاۓ گی ۔


انیس نے ایسے ماحول میں تربیت پائی تھی جہاں مذہب کی پختہ تعلیم اور اصول دین سے مکمل واقفیت ضروری تھی ۔ خاندانی افتخار اور امتیاز کواس دور میں خاصی اہمیت دی جاتی تھی ۔ شاعری وراثت میں ملی تھی ۔


میرانیس کا عہد جہاں مرثیہ نگاری کی وجہ سے مشہور ہوا وہیں ادبیت کے لحاظ سے اپنی اعلی قدروں کا ترجمان بھی تھا۔ انیس نے اپنی شاعری خصوصاً مرثیہ نگاری سے ان اقدار کو معراج کمال تک پہنچا دیا جنھیں انسانیت نواز کہا جائے تو بے جا نہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ کسی ملک میں ادب کے وہی اطوار مضبوط و مستحکم ہوں گے جو تاریخی تسلسل اور روایت کے پاسدار ہوں ۔ انیس نے مرثیہ نگاری کے ذریعے عوامی نفسیات ، مذہبی اقدار ، سماجی معاشرتی اور اخلاقی تقاضوں کو روشناس کروایا ۔ ان کی وسعتوں اور گہرائیوں کو آفاقیت بخشی ۔ ہندوستان میں قومی مزاج ، تہذیبی ورثہ کی پابجائی کے با وصف انیس نے شعور کی بالیدگی کو نیاز او یہ عطا کیا۔ فنی نقطہ نظر سے مراثی انیس کا جائز ہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اس میں زبان و بیان کے بیش بہا خزانے پوشیدہ ہیں ۔تشبیہ ، استعارہ روزمرہ صنائع بدائع اور صنعتیں اپنے تمام تر حسن کے ساتھ بہار دکھاتی ہیں جو انیس کی قادر الکلامی کی ضمانت ہی نہیں بلکہ ان کی استعداد علمی اور وجدانی کیفیت کی آئینہ دار ہے ۔ وہ اپنے عہد میں دوسروں کے مقابلے بہتر شعور وحسیت کے مالک تھے۔ انھوں نے اپنی تخلیقات میں انہی چیزوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جن کے ذریعے شاعری میں روح ، تازگی اور بیداری پیدا ہو ۔ وہ ایک حساس ، صاحب فہم ذی علم شاعر تھے ۔ ان کی طبیعت میں جدت طرازی اور انفرادیت کا عنصر شامل تھا۔ یقینا ان کی شاعری کو عالمی ادب کے دوش بدوش رکھا جا سکتا ہے ۔ رباعی نگاری میں میر انیس کا خاص میدان نہ تھا پھر بھی انھوں نے وقار و تمکنت کے ساتھ ایک منفرد اسلوب میں رباعیاں کہی ہیں ۔ ان کی رباعیوں میں جوتنوع ملتا ہے وہ ان سے پہلے نظر نہیں آتا ۔

Ugc net urdu syllabus

بقول علی جوادزیدی:

’’جب لکھنو میں شمالی ہند کی آخری بساط امارت بھی الٹنے لگی اور امید کے آخری دیے بھی بجھنے لگے تو اچھے شاعروں کے یہاں خارجی اور داخلی رنگوں کا وہ امتزاج پیدا ہوا جو رباعی کے لیے سب سے زیادہ ساز گار تھا بلکہ جو رباعی کا اصلی آہنگ تھا۔ دلی میں حسرت ، سوز ، درد ، ہدایت ، عشق وغیرہ کا ایک پورا سلسلہ ہے جو رباعی گوئی کی طرف بھی ضمناً متوجہ ہوتا ہے ۔ یہ سرمایہ ضخیم نہیں لیکن جاذب نظر ضرور ہے ۔‘‘ ( رباعیات انیس ص 48)

اس اقتباس سے یہ ظاہر ہوا کہ فن رباعی کی ترقی کے لیے خالص رباعی گو شاعر کی تلاش تھی یا پھر کوئی ایسا شاعر جس نے کسی خاص صنف سخن کے علاوہ رباعی کو بھی قابل اعتنا سمجھے اور ہمہ وقت اس سخن کی قدر و قیمت میں اضافے کے بارے میں سوچتا رہے ۔ چنانچہ اس منزل پر ہمیں وہ روایت نظر آتی ہے جو مرثیہ خوانی کے سلسلے میں رباعی کے اہتمام سے متعلق ہے اور اس کی شروعات بھی خود میرحسن سے ہوتی ہے ۔ان سے کئی رثائی رباعیاں منسوب ہیں بلکہ مشہور ہے کہ مرثیہ گویانِ لکھنو مرثیہ سنانے سے پہلے چند رباعیاں بھی تمہیداً پڑھا کرتے تھے۔ اس لیے اکثر مرثیہ گو شعرا کے ہاں رباعیات مل جاتی ہیں مگر ان میں انیس کی رباعیاں اردو ادب کا بہترین سرمایہ ہیں، ڈاکٹر سلام سندیلوی کے الفاظ میں :

’’میرانیس کے عہد میں اس کا رواج تھا کہ مجلس میں مرثیہ پڑھنے سے قبل ایک دو رباعیاں پھر ایک دوسلام اور آخر میں اصل مرثیہ پڑھتے تھے ۔ میر انیس نے بھی ان روایات کی تقلید کی ۔ اس طرح ان کے پاس مرثیوں اور سلاموں کے ساتھ رباعیوں کا بھی ایک زبردست ذخیرہ جمع ہو گیا ‘‘ ص 365

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے