Ad

شمالی ہند میں اردو رباعی میر و سودا کا عہد

 

میر و سودا کا عہد


میر و سودا کا عہد

Mir o souda ka ahed


خواجہ میر درد

Khawaja meer dard

     خواجہ میر درد ( 1133 سے 1199 ھ م 1720 سے 1784 ء ) اردو کے صوفی شعرا میں اہم مقام کے حامل ہیں۔ درویشانہ ماحول میں پلے اور بڑھے اور فقیری میراث میں پائی۔ اردو کے سبھی تذکرہ نگار ان کے مرتبے کو تسلیم کرتے ہیں۔ درد نے فارسی میں بھی رباعیات لکھی ہیں۔ چنانچہ ان کے رسالے " واردات " میں دو سو سے زیادہ فارسی رباعیات ہیں۔ دیوان درد، اردو میں ان کی 32 رباعیاں ملتی ہیں۔ یہاں صرف دو رباعیاں درج کی جارہی ہیں :


جب سے توحید کا سبق پڑھتا ہوں

ہر حرف میں کتنے ہی ورق پڑھتا ہوں

اس علم کی انتہا سمجھنا آگے

اے درد ابھی تو نامِ حق پڑھتا ہوں


آرام نہ دن کو ، بے قراری کے سبب

نے رات کو چین، آہ و زاری کے سبب

واقف نہ تھے ہم تو ان بلاؤں سے کبھی

یہ کچھ دیکھا سو تیری یاری کے سبب


میر سوز

Meer soz

     میر سوز ( وفات 1213 ھ 1798 ء ) بھی اپنے دور کے اہم شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اردو غزل میں ان کا بلند مرتبہ ہے۔ ان کے دیوان میں کئی رباعیاں بھی ملتی ہیں۔ ان کی ایک رباعی یہاں پیش کی جارہی ہے :


کہتا ہوں میں جس سے آشنائی کی بات

سنتا ہے وہ مجھ سے اور ملتا ہے ہات

کہتا ہے یہ کیا کیا ناداں تو نے

اب کیوں کے کٹے گی سوز تیری اوقات


مرزا محمد رفیع سودا

Mirza rafi souda

     مرزا محمد رفیع سودا ( 1125 سے 1195 ھ / م 1713 سے 1780 ء ) نے غزل کے ساتھ قصیدہ نگاری میں بے حد نام پایا ۔ ہجو نگاری میں بھی انھیں کمال حاصل تھا چنانچہ انھوں نے ہجویہ رباعیاں بھی لکھیں۔ ان کے کلیات میں 80 رباعیاں ملتی ہیں۔ ان کی رباعیوں کے موضوعات فارسی موضوعات سے قریب تر ہیں۔ یہاں ان کی ایک رباعی درج کی جارہی ہے :

افسوس کریموں میں نہیں یہ دستور

مفلس پہ کرم کرکے نہ ہو ویں مغرور

جھکتا ہے اگر شاخِ ثمر دار کا ہاتھ

پھل دے کے وہیں آپ کو کھینچے ہیں دور


میر حسن

Meer hasanq

     میر حسن میر ضاحک کے صاحب زادے ہیں جنھوں نے فارسی میں رباعیات لکھی تھیں۔ میر حسن کی شہرت ان کی مثنوی سحر البیان کی وجہ سے ہے۔ میر حسن نے اردو میں رباعیاں لکھیں اور مختلف موضوعات کو برتا۔ عشق، تصوف و عرفان، اخلاق، فلسفہ، مذہب وغیرہ ان کی رباعیوں کے خاص موضوعات ہیں۔ ایک رباعی پیش ہیں :

ظاہر بھی تو ہے ، اور نہاں بھی تو ہے

معنی بھی تو ہے ، اور بیاں بھی تو ہے

دونوں عالم میں تجھ سے سوا کوئی نہیں

یاں بھی تو ہے، اور وہاں بھی، تو ہے


     ناقدین کے مطابق اگر چہ ان کی رباعیاں تصوف کے میدان میں درد کے مرتبہ کو نہیں پہنچتیں لیکن سماجی موضوعات اور خاص کر اہل حرفہ پر ان کی رباعیاں اردو رباعی میں اضافہ ہیں۔ ان کی ایک رباعی مصور کے فن پر یوں ہے :


نقاش پسر نے رنگ و روغن دیکھا

کھویا مرا صبر یک قلم ہوش لیا

کیوں کر نہ رہے جی پہ مرے اس کا نقش

صد گو نہ ہے لوحِ دل پہ رنگ اس نے بھرا


میر تقی میر

Meer Taqi meer

     اردو ادب میں میر تقی میر (وفات 1225 ھ م 1808ء) خدائے ج

سخن کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔بغزل میں وہ اپنی نشتریت، حزن، درر اور یاس کے لیے شہرت رکھتے ہیں ۔ ان کے چھ دیوان ہیں جن میں رباعیوں کا بھی اچھا خاصہ ذخیرہ ہے اور میر کا خاص اسلوب ان رباعیوں میں بھی صاف نظر آتا ہے۔ سادہ لب و لہجہ، سوز و اثر لیا ہوا آہنگ اور دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی آواز میر کی رباعیوں کو ممتاز بناتی ہے۔ زندگی کی تلخیوں کو میر نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ فارسی میں لکھے گئے اردو شعرا کے تذکرے’’ نکات الشعرا ‘‘ کے آخری صفحات پر میر نے خود اپنی بھی سات رباعیاں درج کی ہیں جن میں سے دو یہاں پیش ہیں :


مسجد میں تو شیخ کو خروشاں دیکھا

میخانے میں جوش بادہ نوشاں دیکھا


ایک گوشہ عافیت جہاں میں ہم نے

دیکھا سو محلۂ خموشاں دیکھا


جگ میں جوں شمع پاؤں جل کر رکھنا

یا بن کے بگولا ہاتھ مل کر رکھنا


آیا ہے قمار خانۂ عشق میں تو

سر بازی ہے یہاں قدم سنبھل کر رکھنا


     ڈاکٹر سلام سندیلوی نے مندرجہ بالا پہلی مثنوی کے آخری مصرعے میں حجلۂ خموشاں لکھا ہے جب کہ مولوی محمد حبیب الرحمن خاں شروانی کے مُرتّبہ نکات الشعرا میں محلۂ خموشاں ہی ہے ۔


حسرت دہلوی

Hasrat dahelvi

     حسرت دہلوی کا پورا نام مرزا جعفر علی تھا۔ پیشے سے عطار تھے۔ لیکن شاعری میں کمال کا درجہ حاصل تھا۔ انھوں نے ایک ضخیم کلیات چھوڑا جس میں 500 سے زیادہ رباعیاں بھی شامل ہیں۔ حسرت نے بھی اپنی رباعیوں کے عنوانات قائم کیے ہیں۔ ایک رباعی پیش ہیں :


در مناجات

یارب میں ہوں بندۂ گنہ گار ترا

دل میرا گناہ کی طرف سے تو پھیرا

گر جرم نہ بخشے تو کدھر جاؤں میں

میں بندہ ترا ہوں تو خداوند مرا


غمگیں دہلوی

Gamgeen dahelvi

     رباعی کے ضمن میں غ۔گین دہلوی کا نام بھی بہت اونچا ہے۔ ان کی رباعیوں کا مجموعہ " مکاشفات الاسرار " ہے جس میں 1800 رباعیاں ہیں۔ اس کے علاوہ دیوان میں بھی 93 رباعیاں ہیں۔ اس طرح یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس دور کے شعرا میں سب سے زیادہ رباعیاں غمگین نے لکھیں۔ مگر نہ جانے کیوں وہ اپنی رباعیوں کو پردۂ خفا میں رکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے غالب کے نام ایک خط میں یہ خواہش کی تھی کہ ان کی رباعیوں کے بارے میں کسی کو بتایا نہ جائے۔ بعد میں محقیقین نے ان کے کلام کو دریافت کیا اور اس طرح اس بیش بہا خزانے کے بارے میں شائقین کو علم ہوا۔ ان کی ایک رباعی یہاں پیش کی جاتی ہے :

دنیا کچھ مال ہے نہ زر ہے غمگین

اچھا نہ مکاں نہ گھر ہے غمگیں

کچھ خوب طعام نہ زن ہے نہ لباس

غفلت اللہ سے مگر ہے غمگیں


نظیر اکبر آبادی

Nazir akbar aabadi

     نظیر اکبر آبادی کا اصلی نام ولی محمد تھا۔ بادشاہوں اور امراء کی مدح کے بجائے انھوں نے عوامی مزاج سے ہم آہنگ شاعری کی۔ ایک عرصے تک نظیر کو جہلا کا شاعر قرار دیا جاتا رہا لیکن بعد میں نظیر پر زمانے نے نظر کی اور پھر ان کے فن پر کئی کتابیں لکھی گئیں۔ نظیر کے کلیات میں 22 رباعیات بھی شامل ہیں۔ ان کی ایک رباعی یہاں درج کی جاتی ہے :

رکھتے ہیں جو ہم چاہ تمھاری دل میں

آرام کی ہے امید واری دل میں

تم حکمِ قرار نہ دو گے جب تک

البتہ رہے گی بے قراری دل میں


مصحفی

Mushfi

     مصحفی ( 1164 سے 1240 ھ / م 1750 سے 1824 ء ) شاعری میں اپنے دور کے اساتذہ میں تھے۔ دلی میں سکہ جمانے کے بعد وہ لکھنؤ چلے آئے اور اسی کو اپنا وطن ثانی بنایا۔ غزل میں ان کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ ان کے آٹھ دیوان ہیں جن ۔یں 164 رباعیاں ملتی ہیں۔ مصحفی کی رباعیوں کے موضوعات میں عشق ، اخلاق اور فلسفہ غالب ہے۔ ایک رباعی پیش ہے :

دل پہلو میں قلق سے دکھ پاتا ہے

اور جی کی یہ حالت ہے کہ گھبراتا ہے

ہے کس کے لیے یہ اتنی وحشت یا رب

کیا جانیے ہم کو کون یاد آتا ہے


جرات

Jurat

     جرات ( وفات 1225 ھ م 1810 ء ) نے بھی رباعیاں کہی ہیں۔ معاملہ بندی میں انھیں کمال حاصل تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے انگریزوں کی مخالفت میں بھی رباعیاں لکھیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور میں انگریزوں کے استبداد کے خلاف عوام و خواص میں کافی غم و غصہ تھا۔ اور یہ بھی رنج تھا کہ نا اہل امرا انگریزوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں :

سمجھے نہ امیر ان کو کوئی نہ وزیر

انگریزوں کے ہاتھ، ایک قفس میں ہیں اسیر

جو کچھ وہ پڑھائیں ، سو یہ منھ سے بولیں

بنگال کی مینا ہیں، یہ پورب کے اسیر


انشاء اللہ خاں

Insha allah khan

     انشاء اللہ خاں انشا ( وفات 1233 ھ م 1817 ء ) کو زبان پر بے پناہ قدرت حاصل تھی۔ بذلہ سنجی ان کے مزاج میں داخل تھی۔ غزل کے علاوہ کئی اصناف میں انشا نے طبع آزمائی کی۔ انھوں نے بے نقطہ رباعیاں بھی لکھی ہیں اور طنزیہ رباعیاں بھی۔ ان کی ایک رباعی یہاں درج کی جاتی ہے۔

روپا برسائیں گے رو پہلے بادل

سونا برسائیں گے سنہرے بادل

امید نہ توڑ حق سے انشا اللہ

لو پہنچے وہ دیکھ ! اہلے گہلے بادل


سعادت یار خاں رنگین

Saadat yaar khan rangeen

     سعادت یار خاں رنگین ( 1169 - 1251 ھ م 1755 - 1835 ء ) کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ ان کی شہرت ریختی کی وجہ سے ہے یعنی عورتوں کی زبان میں شاعری۔ رنگین نے ریختی میں رباعیات بھی کہیں۔ ایک رباعی درج ہے :

کیوں اپنے کو تیرے پیچھے ہلکان کروں

کیوں روٹھنے کا تیرے میں ارمان کروں

میں چاہ کے تم کو مفت بدنام ہوئی

رنگین چل اور تجھ کو قربان کروں


امام بخش ناسخ

Imam bakhsh nasikh

      امام بخش ناسخ ( وفات 1254 ھ م 1838 ء ) ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ انھوں نے رباعیاں بھی کہی ہیں جن میں عشقیہ موضوعات پر زیادہ رباعیاں ہیں۔ ایک رباعی درج کی جاتی ہے۔

سیلاب رواں ہے چشم تر سے ہر دم

سوتے ہیں اک آن شبِ ہجر میں باہم

کس طرح پلک پلک سے لگ جائے کبھی

ملتے نہیں دریا کے کنارے باہم

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے