Ad

شمالی ہند میں اردو رباعی ، عہد ولی سے عہد میر تک چند رباعی گو شاعر

 

عہد ولی سے عہد میر تک چند اہم رباعی گو شاعر


شمالی ہند میں اردو رباعی

     اردو کے شعراۓ متقدمین اور متوسطین کے ہاں چند رباعیاں ضرور مل جاتی ہیں لیکن رباعیات کا کوئی علاحدہ مجموعہ ان لوگوں نے مرتب نہیں کیا ۔ یہی حال دکن کے شعرا کا بھی ہے ۔ البتہ شعراۓ متاخرین کے ہاں رباعیات پر مشتمل ایک آدھ مجموعہ مل جاتا ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو کے شعرا نے رباعیاں کہیں ضرور ہیں لیکن ان کی حیثیت ثانوی ہے ۔ زیادہ اہمیت غزل کی تھی چنانچہ بیش تر شعرا نے اپنے دیوان مرتب کیے جن میں کچھ رباعیاں بھی ملتی ہیں ۔


عہد ولی سے عہد میر تک چند اہم رباعی گو شاعر

      ولی کا دیوان جب دیلی پہنچا تو وہاں ریختہ میں شعر کہنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ ان شعرا میں فائز ، حاتم ، آبرو ، مضمون ، احسن اللہ بیان ، شاکر ناجی ، اور یکرنگ کے نام لیے جاتے ہیں جنھوں نے ولی کی پیروی میں اردو کو اپنے اظہار کے لیے استعمال کیا ۔ پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب نے فائز کو شمالی ہند میں اردو کا پہلا شاعر قرار دیا ہے ۔ لیکن اس کے کلام میں رباعیاں نہیں ملتیں ۔ ڈاکٹر زور نے' سر گزشت حاتم ' میں حاتم کی دو رباعیاں درج کی ہیں جو یہاں پیش کی جاتی ہیں:


حاتم

یک ذرہ کبھو نہ کام آئی مجھ کو

دولت مندوں کی آشنائی مجھ کو

گو فائدہ ان سے ہو نہ ہو حاتم ہوں

یکساں ہے شاہی اور گدائی مجھ کو


حاتم دل کر مثالِ آئینہ صفا

چاہ کہ جو ہو صورت حق جلوہ نما

کرتا ہے نصیحتیں غیر کے تئیں

چاہے ہے خدا تو رہ خدا کی خود آ


ڈاکٹر سلام سندیلوی کے مطابق حاتم نے یہ رباعیاں 1145 ھ م 1732 ء سے قبل کہی ہیں اور اسی لیے انھوں نے حاتم کو اردو کا پہلا رباعی گو شاعر تسلیم کیا ہے۔


قائم چاند پوری

     قائم چاند پوری کا اصل نام قیام الدین تھا۔ قائم تخلص کرتے تھے۔ شاہ عالم کے زمانے میں توپ خانے کے داروغہ تھے۔ دہلی کے تباہ ہونے کے بعد ٹانڈہ کے نواب محمد یار خاں سے منسلک ہوئے۔ رام پور میں 1210 ھ م 1795 ء میں انتقال کیا۔ ڈاکٹر سلام سندیلوی کے مطابق مسعود حسن رضوی ادیب کے کتب خانے میں قائم کے کلام کا ایک قلمی نسخہ موجود ہے۔ جس میں تقریبا 66 رباعیاں ہیں۔ میر نے اپنے تذکرہ نکات الشعراء میں قائم کا ذکر کرتے ہوئے ان کے دیگر کلام کے نمونوں کے علاوہ ایک رباعی بھی درج کی ہے جو یہاں پیش کی جاتی ہے :


کیا پشم ہیں دنیا کے یہ سب اہل نعیم

بے قدر کریں ہم کو جو دے کر زر و سیم

مسجد میں خدا کو بھی نہ کیجئے سجدہ

محراب جو خم نہو برائے تعظیم


احسن اللہ بیان

     احسن اللہ بیان ، مظہر جان جاناں کے شاگرد تھے۔ ڈاکٹر سلام سندیلوی نے لکھا ہے کہ میر حسن نے بیان کی دو رباعیاں پیش کی ہیں جب کی احسن اللہ بیان کی دو رباعیاں میر حسن کے تذکرہ شعرائے اردو میں ملتی ہیں جن میں سے ایک یہاں درج کی جارہی ہے :

دنیا سے چلا ہوں بیان روتے روتے

گزری سب عمر اپنی سوتے سوتے

ظلمات میں تھا آب بقا پر افسوس

روشن نہ ہوا صبح کے ہوتے ہوتے


محمد محسن

     محمد محسن برادر زادہ میر تقی میر تھے محسن تخلص کرتے تھے۔ میر نے اپنے فارسی میں لکھے گئے تذکرے ' نکات الشعراء ' میں محسن کی ایک رباعی درج کی ہے۔ رباعی یہ ہے :

جب تخم محبت ہم نے دل میں بویا

دین و دنیا سے ہاتھ اپنا دھویا

اس عشق میں ہوئے خانۂ ویراں یا رب

دونوں عالم سے ان نے ہم کو کھویا


سنتوکھ رائے بے تاب

     اسی دور کے ایک اور شاعر سنتوکھ رائے بے تاب ہیں۔ جن کی ایک رباعی میر حسن نے تذکرۂ شعرائے اردو میں درج کی ہے۔ رباعی یہ ہے :

یاں آ کے ہم اپنے مدعا کو بھولے

مل مل غیروں سے آشنا کو بھولے

دنیا کی تلاش میں گنوائی سب عمر

اس مس کی طلب میں، کیمیا کو بھولے


عبد الحئی تاباں

     عبد الحئی تاباں محمد شاہ کے عہد کے مشہور شاعر گزرے ہیں۔ ان کی ایک رباعی میر حسن نے اپنے تذکرے میں درج کی ہے :

ہوتا ہوں ترا جو اشتیاقی ساقی

بے خود ہو پکارتا ہوں ساقی ساقی

ہے مجھ کو خمار شب کا لا صبح ہوئی

شیشے میں جو کچھ کہ مے ہو باقی ساقی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے