Ad

محمد قلی قطب شاہ کی رباعی گوئی

 Quli qutub shah ki rubai goyi

محمد قلی قطب شاہ کی رباعی گوئی


محمد قلی قطب شاہ کی رباعی گوئی

Quli qutub shah rubai goyi

اس اکائی میں ہم آپ کو محمد قلی قطب شاہ کی رباعی گوئی سے واقف کرائیں گے ۔ محمد قلی کو دکنی شعرا میں کئی لحاظ سے امتیاز و افتخار حاصل ہے ۔ وہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر ہے ۔ اس نے غزلیں ہی نہیں کہیں قصیدے اور مراثی بھی کہے ، رباعیاں بھی لکھیں اور مختلف موضوعات پر نظمیں بھی کہیں ۔ وہ بہت پر گو اور قادر الکلام شاعر تھا۔ بادشاہ ہونے کے باوجود عوامی زندگی کا بہترین ترجمان تھا۔ اس کی شاعری میں اس دور کی سماجی زندگی کا عکس ملتا ہے ۔ محمد قلی قطب شاہ کے حالات زندگی پر اس کی غزل گوئی کے سلسلے میں روشنی ڈالی جا چکی ہے اور اس کی شاعری کی اہم خصوصیات کا بھی جائزہ لیا گیا اس اکائی میں اس کی رباعی گوئی کا مطالعہ کریں گے ۔


محمد قلی قطب شاہ ایک پر گو اور قادر الکلام شاعر تھا۔ اس نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ۔ اس نے غزلیں بھی کہیں قصیدے بھی لکھے اور مرثیے بھی کہے ۔ مختلف موضوعات پر اس کی نظمیں بھی ملتی ہیں ۔ اس نے رباعیات بھی کہیں ۔ آپ یہ جانتے ہوں گے کہ رباعی ایک بہت مشکل صنف ہے۔ اس کا میدان تنگ ہوتا ہے ۔ کسی ایک بات کو چار مصرعوں میں اس طرح ڈھالنا کہ ایک خاص کیفیت پیدا ہو جائے ۔ آسان بات نہیں ۔ اس میں خیال کی ابتدا، پھیلاؤ اور اختتام سب کچھ ہونا چاہیے خصوصیت کے ساتھ آخری مصرع کو پر زور دار ہونا چاہیے ۔ یہ مصرع اتنا زور دار ہونا چاہیے کہ اس میں مضمون کا سارا نچوڑ آ جائے ۔ چار مصرعوں میں خیال کا تدریجی ارتقا ہوتا ہے ۔اس صنف کے لیے کافی ریاضت اور پختگی کی ضرورت ہوتی ہے۔

      محد قلی قطب شاہ ایک کامیاب رباعی گو ہے ۔ اس کی رباعیات میں سرور ، مستی اور کیف پایا جاتا ہے ۔ اس کے طرز میں شگفتگی اور تازگی کا احساس ہوتا ہے ۔ وہ طبعا عیش پسند اور حسن پرست تھا۔ اس کی شاعری میں جو خوبیاں ملتی ہیں وہی اس کی رباعیوں میں بھی نظر آتی ہیں ۔ اس کے کلیات میں جملہ 35 رباعیاں ہیں۔ چند رباعیوں میں حمد ، نعت اور منقبت پیش کی ہے ۔ بعض رباعیات معاملاتِ حسن و عشق پر مشتمل ہیں ۔ بعض میں اخلاقی نکات ہیں ۔ بعض رباعیات کا موضوع شراب ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کے موضوعات میں بڑی رنگا رنگی اور تنوع ہے ۔ اس نے رباعی کے دامن کو وسیع کیا ۔ جو صنف پند و موعظت یا اخلاقی مضامین کے لیے مخصوص سمجھی جاتی تھی اسے عشقیہ جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنایا ۔ اس طرح اس نے رباعی کے موضوع کو بھی وسیع کیا۔ 

     محمد قلی کی 38 رباعیوں میں سترہ رباعیات عشقیہ ہیں، چار خمریہ ہیں، پانچ کا موضوع مذہب ہے ۔ آٹھ رباعیات حضرت علی کی شان میں ہیں ۔ تین رباعیوں میں اخلاقی باتیں ہیں اور ایک میں شاعرانہ تعلی ہے۔

      آپ کو بتایا جا چکا ہے کہ محمد قلی نے رنگین ماحول میں اپنی زندگی بسر کی ۔ وہ بڑا عاشق مزاج تھا۔ اس کی زندگی داد عیش دیتے گزری تھی ۔ اس کا عکس اس کی رباعیوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس نے معاملات حسن و عشق کی بڑی دل فریب عکاسی کی ہے محبوب کا وصل ہی اس کے لیے سرمایۂ حیات ہے۔ وہ دل کھول کر داد عیش دیتا ہے۔ وہ اپنے دل آرام سے آرام کا طالب ہے ۔ وہاں اپنے دل کا راز باد صبا کے ذریعے اپنے محبوب تک پہنچانا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہر پل اس کا محبوب اس کی نظروں کے سامنے رہے کیونکہ دہن سے دہن ملے تو بے انتہا آنند ہوگا۔ اس کی چند رباعیات ملاحظہ فرمائے۔


آپ دوست سوں فل نیہہ کے جام مانگوں

اس ہونٹ شکر ایسے تھے میں کام مانگوں

آرام ، دل آرام تھے ہے دل کو سدا

میں اپنے دل آرام تھے آرام مانگوں


تج روپ بنا میری نظر میں سو نہ آئے

تج کوچے میں بن منج کوں گزر کرنے نہ بھائے

تج دور میں نیند سب کو خوش آے ولے

منج نین منے نیند سو یک پل نہ سمائے


اے باد مری بات اسے چوری سوں کہہ

میری سو گپت بات تو اس چھوری سوں کہہ

پھل جاے نمن وہ بات اس گوری سوں کہ

سمجا کہہ توں نکوں سرزوری سے کہہ


تج سار سودھن ، دھن سو جیوں بر میں اچھو

منج ہونٹ میں تج ہونٹ جوں دھن گھر میں اچھو

دھن دھن سوں جو ملے تو انند ہوے اننت

تج عشق مومن میں جو سکا زر میں اچھو


تج زلف سدا لالن کے اوپر ڈھلتی

کد پھول اپر کدھیں شکر پر ڈھلتی

منج نین کی مچھلیاں تیری مکھ جل میں تریں

یک تل جو نہ دیکھیں تج جو بھر بھر ڈھلتی


     ان رباعیوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قلی کو اپنی بات کو خوش اسلوبی سے کہنے کا ڈھنگ آتا ہے ۔ وہ ایک مختصر سے کینوس پر پوری تصویر پیش کرنے میں کامیاب ہے۔ لفظوں کی تکرار سے بھی خوب کام لیا ہے۔ آخری رباعی میں دیکھیے لفظوں کی رعایت سے کس قدر فائدہ اٹھایا ہے۔ نین کی مچھلیاں کی رعایت سے " مکھ جل " لایا ہے۔ پھر یہ کہہ کر " یک تل جو نہ دیکھیں تج جو بھر بھر ڈھلتی " رباعی میں جان ڈال دی ہے۔ بات پر اثر ہوگئی ہے۔ صنعت سوال و جواب غزل میں ایک خاص کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ قلی نے اس صنعت کا استعمال اپنی ایک رباعی میں کیا ہے۔

کہیا ترے لب کیا ہیں ؟ کہی آب حیات

کہیا تیری لبدا ؟ کہی حبِ نبات

کہیا کہ بچن تیری ؟ کہی قطب کی بات

اس میٹھی لطافت پہ سدا ہے صلوات


     ایک رباعی میں اس نے بہار کی کیفیت کو بڑے لطف سے پیش کیا ہے ۔ ہر طرف پھول ہی پھول ہیں ، ہوا میں شراب کی تاثیر ہے۔ ایسے عالم میں اپنے آپ کو کیوں کر سنبھالا جائے ؟ کس طرح اپنے جذبات کو قابو میں رکھا جائے ؟ موسم کی کیفیت ایک سوالیہ نشان بن کر اس کے سامنے آتی ہے۔ وہ خود سے پوچھتا ہے :

UGC net urdu syllabus

ہے پھول کا ہنگام مد سوں باراں حاضر

پھولوں کے نمن سارے ہیں یاراں حاضر

اس وقت کیوں توبہ کیا جائے منجے

توبہ شکناں ہور نگاراں حاضر




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے