Ad

دکن میں رباعی گوئی کی روایت

 Dakkan me rubai goyi ki riwayat

دکن میں رباعی گوئی کی روایت


ولی کو اردو شاعری کا باوا آدم کہا جا تا ہے ۔ ولی سے قبل دکن میں قدیم اردو یا دکنی میں گراں قدر شہہ پارے تخلیق کیے گئے لیکن شمالی ہند میں اس کو ادبی زبان تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ ولی ہی تھے جنھوں نے شمالی ہند کے ادیبوں اور شاعروں کو اس زبان کی اہمیت سے واقف کرایا اور اپنے کلام کے ذریعے یہ دکھایا کہ اس نومولود زبان میں بھی تخلیقی اظہار کی بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں لیکن ولی کی اہمیت صرف اس لیے نہیں ہے کہ انھوں نے شمالی ہند میں اردو شاعری کوفروغ دیا اور اردو غزل کو وقار عطا کیا ۔ ولی کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ انھوں نے مخمس، مستزاد، ترجیع بند، قصائد، مثنوی اور قطعات کے اور اردو رباعی کی اصناف میں گراں قدر اضافے کیے ۔ ولی نے اپنی رباعیوں میں فارسی رباعی کی اعلی قدروں کو اپنایا اور ان میں ہندوستانی مزاج کی چاشنی سے لطف پیدا کر دیا۔ ان کے ہاں دکنی لہجے کے ساتھ ساتھ دکن کے تہذیبی و ثقافتی عناصر بھی نمایاں نظر آتے ہیں ۔ دکن کے شعری سرمائے کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مقامی رسم و رواج ، معاشرتی و تہذیبی جھلکیاں اور صوفیانہ مزاج نمایاں ہے ۔ ولی کی شاعری میں یہ عناصر غالب ہیں ۔


دکن میں رباعی گوئی کی روایت

Dakkan me rubai goyi ki riwayat


فارسی کے رباعی گو شعرا کے ہاں عشق و شباب کے ساتھ ساتھ تصوف اور اخلاقی مضامین بھی غالب رہے ۔ رباعی کی صنف چوں کہ فارسی سے مستعار ہے اس لیے دکن کے شعرا نے عشق و شباب پر رباعیاں تو لکھیں لیکن زیادہ تر تصوف اور اخلاقی مضامین پر زور دیا ۔ ان کے ہاں عشق حقیقی کا سوز و گداز بھی ہے اور عشق مجازی کی رنگینیاں بھی ۔ اس کے علاوہ دکن کے شعرا نے زندگی کی اعلی قدروں کو سلیس انداز میں بڑی خوش اسلوبی سے پیش کیا ۔ فلسفیانہ فکر کے نمونے بھی دکن کے رباعی گو شعرا کے ہاں موجود ہیں ۔ ڈاکٹر سیدہ جعفر لیتی ہیں ۔ 

" دکنی شعرا نے زیادہ تر فلسفہ فنا، دنیا کی بے ثباتی، موجوداتِ عالم کے اعتبار محض اور زوال پذیر ہونے کا اکثر جگہ ذکر کیا ہے "

( دکنی رباعیاں ص 61 )


     دکنی رباعیوں پر تصوف کے بھی گہرے نقوش نمایاں ہیں ۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ سارے ہندوستان کی طرح یہاں پر بھی خانقاہی نظام قائم تھا اور صوفیانہ مسلک عوام و خواص کے رگ و پے میں بسا ہوا تھا جس کا اثر شعرا کے کلام پر پڑنا لازمی تھا ۔ اسی لیے دکن کے بیش تر تخلیقی کارناموں اور خصوصاً رباعیوں میں صوفیانہ رنگ نظر آتا ہے۔

      ابتدائی عہد کے صوفیا کے ہاں رباعی کا سراغ نہیں ملتا کیوں کہ ان کا مقصد اپنی شاعرانہ حیثیت کو منوانا نہیں تھا بلکہ اخلاق اور تصوف کی تلقین تھا۔ ڈاکٹر سید جعفر نے اپنی کتاب ’’دکنی رباعیاں‘‘ میں حضرت خواجہ بندہ نواز سے منسوب کی ایک رباعی درج کی ہے:

مشہور بہ حیرت ہو دگر پیچ ہے و اللہ

مرنے کے انگے مر کے ہو فانی فی اللہ

خناس کے وسواس سے تو ہو پامال

لاحول ولا قوۃ اللہ باللہ

     وجہی کے ہاں بھی رباعی ملتی ہے ۔ مولوی نصیر الدین ہاشمی نے اپنی کتاب ’’ دکن میں اردو ‘‘ میں وجہی کی ایک رباعی درج کی ہے جس میں تصوف کی چاشنی واضح طور پر محسوس ہوتی ہے ۔

تج یاد بنا ہور منجے کام نہیں

نس جاگتے جاتی ہے دن آرام نہیں

میں تو تجے منگتی ادکھ جیو والے

توں کیوں منجے منگتا سو کچ فام نہیں


اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر محمد قلی

اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ نے بھی صوفیانہ موضوعات پر رباعیاں لکھیں ۔ ایک رباعی پیش ہے:

تج حسن تھے تازہ ہے سدا حسن و جمال

تج یاد کی مستی اہے عشق کوں حال

توں ایک ہے تج سا نہیں دوجا کہیں

کیوں پاوے جگت صفحے میں کوئی تیرا مثال


ڈاکٹر سیدہ جعفر کے مرتبہ کلیات محمد قلی قطب شاہ میں اڑتیس رباعیاں ملتی ہیں جن میں آنحضرت ﷺ اور حضرت علی کی مدح کے علاوہ رندانہ موضوعات بھی ہیں ۔ ایک رباعی پیش ہے:


ہے پھول کا ہنگام مد سوں باراں حاضر اس وقت میں کیوں تو بہ کیا جاۓ نے


پھولاں کے نمن سارے ہیں یاراں حاضر


غواصی نے بھی رباعی کہہ کر اپنی فن کاری کا ثبوت دیا ہے ۔ایک رباعی درج کی جارہی ہے :


ہشیار کدھیں نا ہوے مستی میری

مئے سات رنگی گئی ہے یو ہستی میری

جیوں چاند ہور آفتاب عالم میں

مشہور ہے آج مئے پرستی میری


   غرض یہ کہ دکنی شعرا نے رباعی میں ہر طرح کے موضوعات کو برتا اور یہی روایت جب ولی تک پہنچی تو انھوں نے اس روایت کو مزید مضبوط کیا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے