Ad

نصرتی کا عہد اور عادل شاہی دور

 

نصرتی کا عہد اور عادل شاہی دور




دکن میں قصائد کا آغاز محمد قلی قطب شاہ سے ہوتا ہے ۔ غواصی دبستان گولکنڈہ کا وہ پہلا شاعر ہے جس نے قصیدے کی روایت کو مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھایا۔ تا ہم بہ حیثیت مجموعی گولکنڈ میں کیفیت و کمیت کے لحاظ سے ایسے قصیدے نہیں ملتے جیسے کہ بیجاپور کے دبستان میں ملتے ہیں ۔ عاشق دکنی اس دبستان کا پہلا شاعر ہے جس کے یہاں اپنے پیر طریقت شاہ صبغتہ اللہ حسینی کی مدح میں قصیدہ ملتا ہے۔ بیجاپور کے قصیدہ نگاروں میں علی عادل شاہ ثانی ، شاہی ، نصرتی اور ہاشمی نے اعلی پایہ کے قصیدے لکھے ۔ نصرتی ، علی عادل شاہ ثانی کے دربار کا ملک الشعرا تھا۔ اس نے ہر صنف میں طبع آزمائی کی ۔ نصرتی نے غزلیں بھی کہیں اور رباعیات بھی لیکن نصرتی کا نام اس کی مثنوی اور قصائد کی وجہ سے دکنی ادب میں ہمیشہ زندہ رہے گا ۔

نصرتی کے حالات زندگی

 نصرتی کا عہد اور عادل شاہی دور

      نصرتی عادل شاہی دور کا نامور شاعر تھا۔ عادل شاہی سلطنت کے تمام بادشاہ علم و ادب کے سر پرست تھے۔ خود بھی شاعری سے دلچسپی رکھتے تھے ، شعر کہتے تھے اور خوب کہتے تھے ۔ ان بادشاہوں کے دربار میں ایران سے آئے ہوئے علماء و فضلا کی بڑی قدر و منزلت تھی ۔ ابراہیم عادل شاہ ثانی( 1580 - 1627 ) کو موسیقی میں قدرت کاملہ حاصل تھی ۔ فارسی خوب جانتا تھا۔ علوم متداولہ پر عبور حاصل تھا ، شعر کہتا تھا ، تاریخ سے خاص دلچسپی تھی ۔ اس کی علمی دلچسپی اور علمی قدر دانی کا شہرہ دور دور تک پہنچ چکا تھا ۔ مشہور مؤرخ محمد قاسم فرشتہ اسی کے دربار سے وابسطہ تھا ۔ اس کے علاوہ رفیع الدین شیرازی ، ملا ظہور ابو طالب کلیم اور ملک قمی و شاہ صبغتہ اللہ مختلف مقامات سے آکر دربار سے وابستہ ہوگئے ۔ " کتاب نورس " ابراہیم عادل شاہ ثانی کے ذوقِ موسیقی اور شاعری کی ترجمان ہے ۔

   

     ابراہیم عادل شاہ ثانی کے بیٹے سلطان محمد عادل شاہ ( 1627 تا 1656ء ) نے تقریباً تیس سال حکومت کی اور اپنی سلطنت کی علمی و ادبی روایات کو آگے بڑھایا ۔ اس کے زمانے میں صنعتی ، رستمی ، ملک خوشنود ، حسن شوقی ، شاہ امین الدین علی اعلی ، مرزا مقیم اور مقیمی جیسے شاعروں کے چرچے تھے ۔ ایران سے آئے ہوئے عالموں اور ادیبوں کی وجہ سے مقامی زبان متاثر ہو رہی تھی جس پر فارسی کے اثرات صاف طور پر نظر آ رہے تھے ۔ نصرتی کی نشو و نما اس بادشاہ کے زمانے میں ہوئی ۔ یہ دہلی میں شاہ جہاں کا زمانہ تھا اور گولکنڈے میں عبداللہ قطب شاہ کی حکومت تھی ۔ گولکنڈ ہ اور بیجاپور کے تعلقات نہایت خوشگوار تھے عبداللہ قطب شاہ کی بہن خدیجہ سلطان کی جب علی عادل شاہ سے شادی ہوئی ان تعلقات میں اور مضبوطی آ گئی ۔ اس شادی کا اثر یہاں کے ادبی ماحول پر پڑنے لگا۔ ملکہ خدیجہ کے جہیز میں ملک خوشنود بھی آیا تھا جس نے بعد میں فارسی کی مشہور مثنوی ہشت بہشت کا دکنی میں ’’ جنت سنگار ‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا۔ یہی ملک خوشنود بیجاپور سے سفیر بن کر گولکنڈہ گیا تو اس کی واپسی پر سفارتی آداب کو ملحوظ ر کھتے ہوئے عبداللہ قطب شاہ نے اپنے ملک الشعرا غواصی کو ملک خوشنود کے ساتھ بیجاپور روانہ کیا غواصی کی شاعری اورخصوصاً اس کی مثنوی’’ سیف الملوک و بدیع الجمال‘‘ کے چر چ غواصی سے پہلے بیجاپور پہنچ چکے تھے ۔ شعری محفلوں میں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا غواصی کے زیرِ اثر یہاں غزل اور مثنوی نگاری کی طرف خاص توجہ دی جانے لگی ۔ اس زمانے میں مقیمی کی چندر بدن و مہیار ، محمد بن احمد عاجز کی دو مثنویاں یوسف زلیخا اور لیلی مجنوں لکھی گئیں ۔ ملک خوشنود کی مثنوی’’ جنت سنگار ‘‘ 1640 میں مکمل ہوئی ۔ ملکہ خدیجہ کی ہی ترغیب سے کمال خاں رستمی نے دیڑھ سال کے عرصے میں بائیس ہزار سے زائد اشعار کی ایک مثنوی " خاور نامہ " لکھی جو فارسی سے ترجمہ ہے۔ صنعتی نے " قصۂ بے نظیر " کے نام سے ایک مثنوی لکھی ۔ اسی دور میں حسن شوقی جیسا شاعر غزل گوئی میں منفرد مقام پیدا کر لیتا ہے ۔حسن شوقی در اصل نظام شاہی سلطنت کا شاعر تھا۔ 1600 میں جب اس سلطنت کا خاتمہ ہوا تو وہ بیجاپور چلا آیا اور سلطان محمد عادل شاہ کے دربار سے وابستہ ہو گیا۔اس نے دو مثنویاں فتح نامہ نظام شاہ اور میزبانی نامہ لکھیں ۔ لیکن حسن شوقی کا نام اس کی غزلوں کی وجہ سے زندہ رہے گا۔ 

         اس دور میں صوفیائے کرام کی خدمت کو بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتا ۔ شاہ برہان الدین جانم کے دو مریدان خاص شیخ داول و شیخ محمود خوش دہاں ، اور برہان الدین جانم کے پوتے شاہ امین الدین علی اعلی نے مذہبی رسائل لکھے۔ شیخ داول کی چہار شہادت ، کشف الانوار ، کشف الوجود اور ناری نامہ ، شیخ محمود خوش دہاں کا رسالہ معرفت السلوک اور شاہ امین الدین علی اعلی کے کئی رسائل اہمیت رکھتے ہیں جن میں محب نامہ ، رموز السالکین ، وجودیہ اور کلمتہ الاسرار قابل ذکر ہیں ۔ یہ رسالے صوفیانہ مسائل پر ضرور لکھے گئے ہیں مگر ان کی وجہ سے دکنی زبان کو ایک نئی توانائی ملی اور لفظیات میں گراں بہا اضافہ ہوا۔ 

        سلطان محمد عادل شاہ کے انتقال کے بعد 1656 میں اس کا اکلوتا بیٹا علی عادل شاہ ثانی شاہی تخت نشین ہوا جس کی تربیت خدیجہ سلطان کی نگرانی میں ہوئی تھی ۔ اسے مختلف علوم ، ادب و شعر ، فنون سپاہ گری اور موسیقی میں کمال حاصل تھا اس لئے " استاد عالم " کہلایا ۔ اس کے دربار سے بھی کئی عالم و فاضل شخصیتیں شاعر اور مؤرخ وابستہ تھے۔ شاہی خود بھی شاعر تھا۔ اس نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ، قصیدے ، مثنویاں ، غزلیں ، رباعی اور گیت لکھے ۔ ملک الشعراء نصرتی کے علاوہ ایاغی ، شغلی ، ہاشمی اور مرزا کے کمالات سخن کے چرچے تھے ۔ مرثیے میں مرزا نے ایک جدا گانہ مقام پیدا کر لیا تھا۔ نصرتی کی تربیت اور شعری مزاج کے بنانے میں علی عادل شاہ ثانی شاہی کی سر پرستی کا بڑا دخل رہا ہے۔ اس کا ذکر اپنی مثنوی " گلشن عشق " میں خود نصرتی کرتا ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے