Ad

رامپور اور حیدرآباد میں قصیدہ نگاری

 

رامپور اور حیدرآباد میں قصیدہ نگاری


رامپور اور حیدرآباد میں قصیدہ نگاری

درباری سر پرستی نے اردو شاعری کو عموماً نقصان پہنچایا مگر یہ بھی سچ ہے کہ اردو شاعری اہل دربار کی منظور نظر رہی۔ دہلی ، لکھنؤ ، اودھ کے بعد رامپور اور حیدرآباد اردو شاعری کے عظیم مراکز رہے ۔ ان سلطنتوں کے فرمانرواؤں نے اردو شاعری کو پروان چڑھایا ۔ مغل حکمرانوں اور شاہان اودھ کی طرح نوابان رام پور کی سر زمین پر مرزا خاں داغ ، جلال تسنیم ، منیر ، خلیق ، شرف جیسے شعرا کا طوطی بولتا تھا ۔ امیر مینائی اور ان کے شاگرد جلیل حسین جلیل نے بھی شعر و شاعری کا بازار گرم رکھا تھا۔ نواب کلب علی خاں والئِ رامپور کے  وقت داغ را مپور کی فضا پر چھائے ہوئے تھے لیکن داغ کو یہاں کی کل راس نہ آئی ۔ وہ بہت جلد سلطنت آصفیہ سے رجوع ہوئے ۔ حیدرآباد میں اس وقت آصف جاہ سادس نواب میر محبوب علی خاں حکمراں تھے ۔انہوں نے داغ کو اپنا استاد مقرر کیا اور فصیح الملک بہادر کے خطاب سے سرفراز کیا۔ داغ کی ایما پر امیر مینائی بھی اپنے شاگرد جلیل کے ساتھ حیدرآباد پہنچے ، مگر قسمت نے یاوری نہ کی اور اعزاز و افتخار پانے سے پہلے ہی داعیِ اجل کو لبیک کہا جب کہ جلیل یہیں کے ہو کر رہ گئے ۔

رامپور میں اردو شاعری

         رامپور میں اردوشاعری کا ماحول بڑا ساز گار تھا شعرا غزل گوئی پر مائل ، اسی کے رسیا تھے ۔ مزاج و مرتبہ کے لحاظ سے ان میں قصیدہ گوئی کا رجحان کم ہی تھا گویا عملا قصیدہ نگاری زوال آمادہ ہو چکی تھی کیونکہ داد و دہش یا فیاضانہ انعام و اکرام کے طور طریقوں میں کمی آگئی تھی ۔ اس کے بر عکس سلاطین آصفیہ علم و فن کی قدر افزائی میں غیر معمولی شہرت حاصل کر چکے تھے ۔ اس سلطنت کے بانی نواب میر قمرالدین خاں آصف جاہ اول نے مبارز خاں کو شکست دے کر ایک خود مختار حکومت کی بنیاد رکھی ۔ ان کے ہمراہیوں میں شاعروں اور ادیوں کی ایک قابل لحاظ تعداد تھی ۔ ان میں محمد انور یکدل مرادآبادی ، میر عنایت اللہ جنیدی ، خواجہ بابا خاں بخاری شہرت رکھتے ہیں ۔ آصفیہ حکومت کا قیام دکن میں سقوط گولکنڈہ کے بعد ایک نئے دور کا آغاز تھا جہاں یک جہتی ، محبت یگانگت میل جول نیز شعر و نغمہ کی بہاریں تھیں ۔ آصف جاہ اول خود شاعر تھے آصف اور شاکر تخلص کرتے تھے ان کے عہد میں اقدس شوستری کے علاوہ عاشق علی ایما ، غضنفر حسینی غضنفر ، مرزا جان رسا ،  ترمبک نائک ذرہ مشہور شاعر گزرے ہیں ۔ آصف جاہ کے بعد ناصر جنگ شہید بھی اپنے والد کی طرح علم وفضل کے دلدادہ اور فراغ دست تھے ۔ ان کے دور کی اہم شخصیت غلام علی آزاد بلگرامی کی تھی جب کہ عاصی ، محرم اور ایجاد جیسے اہل علم دربار سے وابستہ تھے ۔ آصف جاہ اول ناصر جنگ شہید ، صلابت جنگ کے بعد نظام علی خاں آصف جاہ ثانی ( 1164 ھ تا 1280ھ ) کا عہد سلطنت آصفیہ کے لیے غیر معمولی رہا اورنگ آباد کی بجائے حیدرآباد دارالخلافہ قرار دیا گیا بقول رمن راج سکسینہ :


      1164 ھ سے 1200 ھ تک کا دور نظام علی خاں آصف جاہ ثانی اور ان کے امرا و وزرا کی سیاسی علمی و ادبی سرگرمیوں سے عبارت ہے (صفحہ 67 تذکر بہ دربار حیدر آباد )


     اس عہد میں بھی لچھمی نارائن شفیق کے علاو علی مردان خاں یکدل ، اسد علی خاں تمنا ، شیر حمد خاں ایمان , عبدالحی صارم ، گردهاری لال احقر ، نوازش علی خاں شیدا ، ماہ لقا بائی چندا اور معین الدین شاہ تجلی جیسے نامی گرامی اہل کمال موجود تھے ۔ 

     " نصیر الدین ہاشمی نے " دکن میں اردو " میں دکن کے ایسے متعد دشعرا کی نشاندہی کی ہے جن کے سرمایۂ سخن میں قصائد بھی شامل ہیں ، ان میں سے بعض کا ذیل میں تذکرہ کیا جاتا ہے۔ :


      نوازش علی خاں شیدا ایک پر گو شاعر تھے ۔ گر چہ وہ اپنی مثنویوں اور مراثی کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں لیکن ان کے یہاں نعتیہ قصائد ہونے کا بھی پتہ چلتا پے۔ گل رعنا اور چمنستان شعرا کے مصنف لالہ لچھمی نارائن شفیق دکن کے مشہور مصنف اور شاعر ہیں۔ ان کے والد آصف جاہ اول کے عہد میں ایک معزز عہدیدار تھے۔ شفیق کے یہاں بھی قصیدے کے نمونے ملتے ہیں ۔ شیر محمد خاں ایمان کا وطن حیدرآباد تھس۔ انہوں نے نظم و نثر میں کئی کتابیں لکھیں۔ انہیں قصائد ، مثنوی اور غزل میں اچھی مشق حاصل تھی۔ میر عباس علی خاں احسان ( متوفی 1230 ھ ) کے قصائد بھی مشہور ہیں اور انہوں نے ہجو گوئی میں بھی شہرت حاصل کی تھی ۔ محمد صدیق قیس المتوفی 1230 کا ضخیم دیوان کتب خانہ آصفیہ میں موجود ہے۔ جس میں اس کے قصائد بھی شامل ہیں۔ محمد خلیل خاں سحر نے حضرت آصف جاہ ثانی ، نواب ارسطو جاہ اور مہاراجہ چندو لال کی مدح میں کئی قصیدے لکھے ۔ ۔یر غلام مصطفیٰ سخن ( ولادت 1147 ھ ) نے بھی غزلوں کے ساتھ قصائد یادگار چھوڑے ہیں۔ میر حسن علی خاں جولان متوفی 1250 ء کا کلام لطافت و شیرینی کے لحاظ سے قابل تعریف ہے۔ انہوں نے چندو لال اور ارسطو جاہ کی مدح میں قصیدے بھی کہے ۔ رائے گلاب چند ہمدم ، غلام امام خاں ملک اور بدر الدین خاں تمیز کے کلام میں بھی قصائد شامل ہیں ۔ میر اسد علی اصفی ( 345 1 ھ 1271 ھ ) کے کلام میں مرثیہ ، سلام اور قصیدوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ علامہ علی حیدر طباطبائی کی نظم ( نظم طباطبائی ) گر چہ پیدا (1270 ھ لکھنؤ میں ہوۓ لیکن جب 1305 ھ میں حیدرآباد ائے تو یہیں کے ہور ہے ۔ یہیں 1352 ھ میں انتقال کیا ۔ ان کے کلام میں برجستگی ، روانی اور تازگی ہے۔ الفاظ کے خوبصورت اور بر محل استعمال پر قدرت رکھتے ہیں ۔ ان کے قصائد مشہور ہیں جوز یادہ تر سیرت النبی سے متعلق ہیں ۔ 

بقول نصیر الدین ہاشمی :

     " ان قصائد میں بلاغت ، تشبیہ و استعارات کا استعمال جس خوبی سے کیا گیا ہے وہ نہ صرف قابل تعریف ہے بلکہ اردو میں میر انیس کے بعد کسی نے نہیں لکھا ہے ۔ حقیقت میں وہ اعجاز ہے ۔ "

آصف جاہ ثانی کا عہد

آصف جاہ ثانی کی علمی و ادبی سر پرستی کے پہلو بہ پہلو ارسطو جاہ کی بھی نوازشیں جاری تھیں ۔ تنہا ارسطو جاہ نے کوئی ڈیڑھ سو شعرا کی کفالت کی تھی ۔ سیاسی اعتبار سے یہ عہد آصف جاہی ثانی کا عہد ہے لیکن شعری ادبی اور علمی اعتبار سے ڈاکٹر محی الدین قادری زور اس عہد کو ارسطو جاہ کا عہد کہتے ہیں ڈاکٹر زور لکھتے ہیں:


      " عہد ارسطو جاہ کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس دور سے حیدر آباد کے اردو شاعر اپنی زبان کو متروک سمجھنے لگے کیوں کہ اس وقت دہلی میں مظہر جان جاناں کی یہ تحریک کامیاب ہو چکی تھی کہ اب شمال کے اردو شاعروں کو دکنی زبان کی پیروی ترک کر کے اردوئے معلی شاہ جہاں آباد کا محاورہ اور روز مرہ اور فارسی ترکیبوں کو استعمال کرنا چاہیے وہ یہی زمانہ ہے جب سے حیدر آباد میں شمالی ہند کے شعرا کی آمد کا تانتا بندھ گیا ، مقامی شاعروں کے مقابلے میں بیرونی شعرا کی قدر ومنزلت زیادہ ہونے لگی ۔ ( داستان ادب حیدرآباد صفحہ 142 )


آصف جاہ ثالث کے بعد آصف جاہ اربع اور آصف جاہ خامس نواب فضل الدولہ کی حکومت نے اردو شعر و ادب میں چار چاند لگا دیے ۔ میر عالم اور مہاراجہ چندو لال شاداں جیسے قدر دانوں نے نیز شمس الامرا امیر کبیر خمس الدین جیسے دریا دل اصحاب کی وجہ سے اہل علم اقطاع عالم سے کھچ کر دکن میں جمع ہوگئے تھے ۔ چندو لال شاداں کے دربار میں شیخ حفیظ دہلوی ، مشتاق دہلوی موجود تھے جب کہ شفیع ابراہیم ذوق کو بھی یہاں آنے کی دعوت دی گئی تھی لیکن ذوق نے معذرت چاہی 

ذوق کا شعر ہے :

گر چہ ہے ملک دکن میں ان دنوں قدر سخن

کون جائے ذوق پر ، دلی کی گلیاں چھوڑ کر 


افضل الدولہ کے بعد آصف جاہ سادس نواب میر محبوب علی خاں کے عہد حکومت میں اردو شعر و ادب کو قابل لحاظ ترقی ہوئی۔ 

سلطنت آصفیہ

نصیر الدین ہاشمی لکھتے ہیں :

      "  سلطنت آصفیہ نے اس دور میں اردو زبان کی سر پرستی اس طرح فرمائی کہ ہندوستان کے مشہور شعر اور مصنفین کو اپنے یہاں طلب کر لیا ، ان کو ماہوار منصب جاری فرمادی تا کہ یہ ارباب کمال اردو خزانے کو مالا مال کرتے جائیں ۔ اس زمرہ میں سب سے پہلے جہاں استاد فصیح الملک بلبل ہندوستان مرزا داغ دہلوی ہیں جو دربار رامپور کو خیرآباد کہہ کے یہاں متوطن ہو جاتے ہی۔ ( دکن میں اردو صفحہ 610 )

      مرزا داغ دہلوی کے بعد امیر مینائی اور جلیل مانک پوری دکن چلے آئے ۔ ان کے علاوہ رتن ناتھ سرشار ، محسن الملک ، سید علی بلگرامی وغیرہ بھی یہاں موجود تھے جب کہ داغ سے پہلے شیخ ابراہیم ذوق کے استاد شاہ نصیر یہاں پیوند خاک ہوچکے تھے داغ کی آمد سے قبل مقامی شعرا میں حضرت شمس الدین فیضی کا طوطی بولتا تھا۔ ان کا اپنا ایک دبستان تھا ۔ نواب محبوب علی خاں خود شاعر تھے آصف تخلص کرتے۔ ان کے وزرا میں مہاراجہ کشن پرشاد شاد کے یہاں مشاعروں کا انعقاد عمل میں آتا تھا ۔ داغ دہلوی کے انتقال کے بعد آصف جاہ سادس سمیت مینائی کے شاگرد جلیل مانک پوری کو جشن دہلی کے مشاعرے میں قصیدہ پیش کرنے پر جلیل القدر کا لقب دیا اور استاد مقرر کیا۔ وہ شاہ دکن کے ہاں ہونے والی ہر چھوٹی بڑی تقریب پر قصیدہ کہتے اور انعام و اکرام پاتے تھے۔ مثلاً در مدح جشن جوبلی حضور نظام حیدرآباد دکن ایک طویل قصیدے کے اشعار دیکھیے :

جلیل مانک پوری

مزے کی آج جشنِ آصفی میں مدح خوانی ہے

ادھر سے گلفشانی ہے ادھر سے زر فشانی ہے


ادھر جوش عقیدت سے مبارک باد ہے لب پر

ادھر جوش عطا ہے رحمت ہے قدر دانی ہے 


اِدھر اظہار خوشنودی اُدھر آثار خوش بختی

اِدھر بھی شادمانی ہے اُدھر بھی شادمانی ہے


ادهر دست ادب میں نذر ہے اخلاص مندی کی

ادھر کھولے ہوئے آغوش چشم مہربانی ہے 


خدا کی دین ہے ظل خدا کا مہرباں ہونا

یہ پا بوسی کی عزت سرفرازی کی نشانی ہے


بھلا ہو جشن کا جس نے نکالے حوصلے دل کے

خوشی اس جشن کی سب سے سوا ہم کو منانی ہے


بہت سے جشن دیکھے ہیں بہت خوشیاں منائی ہیں

مگر اس جشن کے آ گے وہ سب قصہ کہانی ہے 


نہ کیوں بے مثل ہو یہ جشن ہے اس شاہ ذیشاں کا

جو اپنا آپ ہمتا ہے جو اپنا آپ ثانی ہے


اسی طرح آصف جاہ سادس کی سالگرہ کے موقع پر تہنیتی رباعیات کہی ہیں دو رباعیاں دیکھیے :

یہ سالگرہ خسروِ ذیشان کی ہے 

یہ سالگرہ رشک سلیمان کی ہے 


کیوں دور ر ہے نہ سال بھر اس کا جلیل

یہ سالگرہ آصف دوراں کی ہے


اللہ رے کس شان کی ہے سال گرہ 

ہے روکش جشن جم و کے سال گرہ


آنا ترا ان سے کوئی پوچھے جو لوگ

اک سال سے مشتاق تھے سے سال گرہ


یہی نہیں جلیل مہاراجہ کشن پرشاد شاد کو وزرات عظمی ملنے پر بطور تہنیت کئی رباعیات پیش کیں۔


رتبہ ہو صدارت کا مبارک سرکار

یہ فخر امارت کا مبارک ہو سرکار


نقاہ و نوبت سے یہ آتی ہے صدا

خلعت ہو وزرات کا مبارک سرکار 


سرکار سلامت رہیں ، آباد رہیں

سرو و سمنِ گلشنِ ایجاد رہیں


گزریں شب و روز شادمانی سے جلیل 

شاداں رہیں شادماں رہیں شاد رہیں 


     آصف سادس کے انتقال کے بعد آصف جاہ سابع نواب میر عثمان علی خاں کی شادی کے موقع پر سہرا بھی تحریر کیا تھا۔


سہرا بتقریب عقد ولی عہد نظام دکن 


سرِ نوشہ یہ کھلا خوب ہی بندھ کر سہرا

بن گیا حسن کے اڑ چلنے کو شہپر سہرا


آج گوہر میں جو ڈوبا ہے سراسر سہرا

آتش حسن سے جلتا نہیں رخ پہ سہرا 


شاہ محبوب نے باندھا جو سرِ نوشہ پر

بن گیا سایۂ اللہ و پیمبر سہرا


دامنِ دولت و اقبال کا گوہر نوشہ

گلشنِ عیش و مسرت کا گل تر سہرا

عہد عثمانی

عہد عثمانی میں جلیل نے موقع بہ موقع مبارکبادیاں اور تہنیتیں پیش کیں اور انعام و اکرام پائیں ۔ استاد سلطان ، اور پھر نواب فصاحت جنگ بہادر نیز امام الفن کے خطابات سے سرفراز کیا گیا ۔ انہوں نے تخت نشینی پر قصیدہ کہا مبارک باد دی اور تاریخ تخت نشینی کہی ہے :

اٹھ گئے چھ تو بہ فرمان خداوندش جلیل 

میر عثمان علی خاں ہوئے سلطان دکن 1911ء


    جلیل کی استادی کا زمانہ 1900 تا 1946 ء رہا۔ اس زمانے میں اردو شعر و ادب میں کیا کیا تبدیلیاں رو نما ہوئیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بیسویں صدی کے نصف اول تک قصیدہ نگاری کی روایت بھی کسی نہ کسی طور قائم و باقی رہی اور شاید جلیل اس صنف سخن کے آخری شاعر تھے۔


خلاصہ

اصناف شاعری میں قصیدہ ایک اہم صنف ہے اس میں مداح اور ممدوح کے رابط و تعلق کا اظہار ہوتا ہے ۔عموما بادشاہوں اور امیروں کی تعریف و توصیف صلہ و انعام و اکرام کی خاطر کی جاتی ہے جب کہ عقیدت و محبت سے بزرگان دین کی ثنا خوانی بھی کی جاتی ہے۔ اردو شعر و ادب میں اور اصناف سخن کی طرح یہ بھی فارسی سے اردو زبان میں در آئی ۔ ابتدا دکن کے شاعروں نے اس سنف سخن میں اپنا کمال دکھایا ۔ بعض شعرا نے مثنوی کے درمیان مدحیہ اشعار لکھے لیکن جلد ہی قصیدے کے اجزائے ترکیبی کا تعین ہوگیا ۔ تشبیب ، گریز ، مدح اور دعا کے قرینے واضح ہوگئے ۔ عہد بہمنی کے بعض شعرا نے بزرگان دین کی شان میں قصائد لکھے تھے ۔ اس کے بعد عادل شاہی اور قطب شاہی سلاطین کی سر پرستی ، علم پروری اور جود و سخا نے اس صنف سخن کو پروان چڑھایا۔ علی عادل شاہ ثانی شاہی اور اس کے دربار کے ملک الشعرا نصرتی نے کامیاب اور بلند پایہ قصیدے لکھے ۔ اسی طرح محد قلی قطب شاہ نے بھی مدحیہ نظمیں لکھیں ۔ اس کے بعد عبداللہ قطب شاہ اور غواصی وغیرہ نے قصائد لکھنے میں کمال و ندرت دکھائی ۔ اورنگ زیب عالمگیر کی دکنی مہم اور یہاں کی حکومتوں کے زوال کے بعد قصیدہ نگاری میں ولی دکنی اور سراج کا نام ملتا ہے ۔ ولی نے اپنے کلام سے شمالی ہند کے شاعروں کو متاثر کیا جس کی وجہ سے وہاں بھی اردو زبان میں شاعری کی گئی شعرا نے غزل اور مثنوی کے علاوہ قصیدہ کی جانب بھی توجہ کی ۔شاہ حاتم اور مرزا محمد رفیع سودا بلند پایہ قصیدہ نگار گزرے ہیں ۔ سودا کے معاصرین میں میر اور مصحفی انشاء نے بھی قصیدہ نگاری میں اپنے جوہر دکھائے۔ بعد ازاں ذوق غالب اور مومن نے اس میدان میں بڑے بڑے معرکے سر کئے ۔ خصوصیت سے ذوق کی قصیدہ نگاری بڑی اہمیت رکھتی ہے ۔ غالب نے اپنے مزاج کے لحاظ سے قصیدے لکھے ۔ غالب کے بعد داغ ، محسن کا کوروی ، امیر مینائی  اور جلیل مانک پوری کے نام قصیدہ نگاروں میں شامل ہوئے ہیں۔ حیدرآباد میں شاہی حکومت کے وجود نے ابھی قصیدہ نگاری کو باقی رکھا تھا اس حکومت کی ابتدا میں ارسطو جاہ چندو لال شاداں ، نظام دکن آصف جاہ سادس اور مہاراجہ سرکشن پرشاد شاد کے عہد میں داغ اور دوسرے شاعروں نے اس روایت کو سنبھالے رکھا بعد ازاں آصف جاہ سابع نواب میر عثمان کے زمانے میں امیر مینائی کے شاگرد جلیل مانک پوری نے اس صنف سخن کو بحسن و خوبی برتا اور شاید قصیدہ نگاری کا باب انہی پرختم ہوتا ہے کیوں کہ ہندوستان میں جمہوریت کے رجحانات نے دربار داری کا یکسر قلع قمع کر دیا۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے