Ad

نصرتی کی مثنویاں ، غزل ، رباعیاں اور مخمس

 

ملا نصرتی مثنویاں غزل رباعی اور مخمس



نصرتی کو ہر صنف سخن میں یکساں قدرت حاصل تھی۔ اس نے مثنویاں بھی لکھیں غزل، قصیدے اور رباعیاں بھی۔ اس کی تین مثنویاں جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے گلشن عشق ، علی نامہ ، اور تاریخ اسکندری ہیں ۔


1 - گلشن عشق

Gulshan e ishq

      گلشن عشق نصرتی کی پہلی مثنوی ہے ۔ یہ 1657ء میں لکھی گئی ۔ اس سے پہلے یہ قصہ شیخ منجھن نامی ایک شخص نے ہندی میں کنور و مد مالت کے نام سے لکھا تھا۔ اس قصے کو گلشن عشق سے تین سال قبل 1654 ء میں عاقل خاں رازی عالمگیر نے مہر و ماہ کے نام سے قلم بند کیا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قصہ اس زمانے میں بہت پسند کیا گیا اس لیے غالبا نصرتی نے اس قصے کو نظم کیا مگر اس میں چندر سین اور چنپاوتی کے قصے کا اضافہ کر کے دلچسپی پیدا کردی ۔ کہانی بڑی دلچسپ ہے جس میں قدیم داستانوں کے تمام لوازم سے استفادہ کیا گیا ہے ۔ مناظر قدرت کی تصویر کشی اور جذبات کی عکاسی بڑی مہارت سے کی گئی ہے۔

نصرتی کے حالات زندگی

2 - علی نامہ

Ali nama

       نصرتی نے مثنوی علی عادل شاہ ثانی کے عہد 1665 میں لکھی علی نامہ میں اس کے عہد کے ابتدائی دس سال کی تاریخ نظم کی گئی ۔ اسی مناسبت سے اس کا نامہ’علی نامہ‘رکھا۔اس میں کوئی عشقیہ قصہ نہیں ہے ۔ یا یک رزمیہ ہے جس میں علی عادل شاہ ثانی کی مغلوں اور مرہٹوں سے تابڑ تو ڑلڑائیوں اور کامرانیوں کا حال قلم بند کیا گیا ہے ۔ اس میں جنگ و جدال کے ساتھ بیجاپور کی سیاست در باری سجاوٹ بادشاہ کی بہادری عوام میں اس کی ہر دھز یز یہ ہے امر اوز را کے آداب در باز در بار میں بادشاہ کا جاہ وجلال اس کی جنگی فراست جنگ کے میدان سپہ سالاروں کی جاں بازی ہتیاروں کی جھنکار سپاہیوں حال لکھا ہے اور بادشاو کی زندگی میں لکھا ہے مگر بادشاہ کی مہ ۔ تملة مد کہی ۔ مسنی نهد کی جاں فروشی وغیرہ کو اس انداز میں لکھا گیا ہے کہ اس میں دکنی تہذیب بھی سمٹ کر آ گئی ہے ۔ نصرتی کا کمال یہ ہے کہ اس نے اپنے ہی دور کی لڑائیوں کا حال لکھا ہے اور بادشاہ کی زندگی میں لکھا ہے مگر بادشاہ کی محبت یا تملق میں کہیں تاریخ کو منسوخ ہونے نہیں دیا۔ تاریخی واقعات کی صحت کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ نصرتی کی اس مثنوی میں سات قصیدے بھی شامل ہیں۔ چونکہ یہ ایک رزمیہ ہے۔ شاعر نے اسی اعتبار سے اس کا اسلوب بھی اختیار کیا ہے جس میں فصاحت ہے بلاغت ہے ۔ گلشن عشق کی طرح اس مثنوی میں بھی شاعر نے ہندی اور فارسی اسلوب کا خوبصورت امتزاج ملحوظ رکھا ہے۔

نصرتی کے قصائد

3 - تاریخ اسکندری

Tarikhe e sikandari

     نصرتی کی یہ آخری مثنوی ہے ، جو عادل شاہ کے عہد میں لکھی گئی۔ اس مثنوی میں سکندر عادل شاہ کی فوجی مہمات کا حال ہے۔ یہ بھی رزمیہ ہے لیکن اس میں علی نامہ کی شان دبدبہ فصاحت و بلاغت نہیں۔ یہ مثنوی فنی اعتبار سے اس پائے کی نہیں جس پائے کی گلشن عشق اور علی نامہ ہے


غزل ، رباعیاں اور مخمس

      دکنی غزل کے ارتقا میں عادل شاہی دور کے شاعروں کی غزل گوئی اور کمال فن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس دور میں کئی غزل گو گزرے ہیں لیکن ان میں شاہ امین الدین علی اعلی ، شاہ معظم ، شغلی ، رستمی ، حسن شوقی ، شاہی ، ہاشمی ، اور نصرتی کے نام اہمیت رکھتے ہیں۔

      نصرتی کی غزل کا ماحول عورت ، شراب اور وصال سے معمور ہے۔ عشق و محبت کے جذبات و احساسات کا مردانہ وار اظہار ہے ۔ چند غزلیں ایسی جن میں تہذیبی روایت کی پاسداری میں عورت کی طرف سے عشق کے جذبات کا اظہار کیا ہے ۔ نصرتی کا عشق کبھی کبھی ہوس پرستی تک پہنچ جاتا ہے ۔ 


       نصرتی کی غزلوں میں نئی تراکیب اور اضافتوں کا پیش بہا خزانہ موجود ہے۔ تشبیہات و استعارات کا تو وہ بادشاہ ہے۔ 


       نصرتی نے قصیدے ، غزل اور مثنوی کے علاوہ رباعی پر بھی طبع آزمائی کی چند ایک رباعیاں حمد و نعت میں ہیں ، کچھ ناصحانہ و عاشقانہ ہیں۔ عام طور پر رباعی کی زبان بلیغ اور فارسی و عربی آمیز ہوتی ہے مگر نصرتی کی رباعیوں کی زبان غزلوں کی زبان کے مقابلے میں زیادہ صاف ہے۔


       نصرتی نے دو مخمس بھی لکھے ہیں۔ ایک میں محبوب کے حسن و ادا کی تعریف ہے تڑپ ہے کسک ہے ہلکا سا واسوختی انداز بھی ہے۔ ٹیپ کا مصرع ہے :

فریاد ہے اے شاہ ! دلا داد ہمارا


       دوسرا مخمس شاہی کی غزل کی تضمین ہے جس میں عشق ہی کو موضوعِ سخن بنایا گیا ہے۔ اس میں بھی نصرتی کی زبان معیاری دکنی ہے جسے نصرتی نے فارسی کی آب دے کر چمکایا ہے وہ خود بھی کہتا ہے۔

دکن کا کیا شعر جوں فارسی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے