Ad

نصرتی کے قصائد

 

نصرتی کے قصائد


نصرتی کے قصائد 

قصیدے قطب شاہی دور میں بھی لکھے گئے لیکن بیجاپور کے شاعروں نے اس فن کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ عادل شاہی عہد میں مقیمی ، شوقی ، صنعتی ، ملک خوشنود ، رستمی ، علی عادل شاہ ثانی شاہی اور نصرتی نے قصائد لکھ کر اس صنف کو فن کا درجۂ عطا کیا مگر ان شاعروں میں نصرتی کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا ۔ نصرتی نے جملہ بارہ (12) قصائد لکھے. علی نامہ میں اس کے قصائد اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ گئے ہیں۔ یہ وہ قصائد ہے جو فارسی زبان کے بہترین قصائد کے معیار کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ علی نامہ میں سات قصائد شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ پانچ اور قصائد ملتے ہیں جن میں دو ہجویہ قصیدے ہیں۔ 

نصرتی کے مثنویاں، رباعیاں

      نصرتی کے زمانے میں سیاسی انتشار و بد نظمی عام ہوگئی تھی۔ ایک طرف سے مغلیہ سلطنت کا استبداد اور دوسری طرف شیواجی کے حملے دکنی سلطنتوں کو کمزور کر رہے تھے۔ نصرتی نے اپنے قصیدوں میں اس زمانے کی تاریخ قلم بند کردی ۔ تاریخ ، تہذیب اور شعر کا اتنا اچھا اور خوبصورت امتزاج اردو قصیدوں میں کم ہی ملتا ہے۔


قصیدہ پنالہ گڑ

Qasida panal garh

       شیواجی کے مقابل صلابت خاں کی غداری نے بیجاپور کو بہت کمزور کردیا تھا لیکن بادشاہ ( علی عادل شاہ ثانی ) اور اس کی فوج کے آگے شیواجی ٹک نہ سکا، راہ فرار اختیار کی ( 1600 ) اور قلعہ پنا ، بادشاہ کے قبضے میں آ گیا۔ اس فتح کے موقع پر نصرتی نے " علی نامہ " میں ایک قصیدہ لکھا ہے اس قصیدہ میں 155 اشعار ہے۔ اس میں تشبیب نہیں ہے قصیدہ راست علی عادل شاہ ثانی کی مدح سے شروع ہوتا ہے ، نو شعر کے بعد مطلع ثانی ہے۔ یہیں سے نصرتی گریز کر کے شیواجی کو مذمت کرتا ہے ۔ شیواجی چونکہ خود نصرتی کے مربی و محسن بادشاہ کا حریف تھا اس لیے نصرتی نے جہاں بھی شیواجی کا ذکر کیا ہے نفرت انگیز الفاظ استمعال کیے ہیں۔ 


اس قصیدے کا مطلع ہے۔

جب تے جھلک دیکھیا آدم سورج تری تروار کا

جب تے لگیا تھر کانپنے ہو پر عرق یکبار کا


مطلع ثانی میں شیواجی کا ذکر جس طرح کرتا ہے اس کا صرف ایک نمونہ پیش ہے :

روبہ تے کم بن شیر نر کھاویں دغاتس مکر میں

دل کا تو گیدڑ تے کچا پن نسل کے کفار کا


اپنی فوج کے سپاہیوں کی جاں بازی اور بہادری کو اس طرح سراہتا ہے :

جب یا علی کی بانی سوں گھوڑے اچھائے جول سوں

ہر دل کا بت خانہ ڈھل یا ہر کافر فجار کا


کھڑگاں کھناکھن سوز دھر سوراں کے یوں بجنے لگا

زہرا کا زہرا گل رھیا آواز سن جھنکار کا


      علی نامہ کے تمام قصائد میں اور رزم کی تمام کیفیات کی تفصیل سے عکاسی کی ہے ۔ رزمیہ شاعری میں ہتیار کا کس کس طرح سے استمعال ہوا ہے وہ بھی اہمیت رکھتا ہے ۔ نصرتی نے جنگ میں کھڑگ ( تلوار ) گرز ، گوپن اور تیروں سے زخمی اور ہلاک ہونے والوں کے حال زار کی تصویر کھینچی ہے۔ 

ہر گھٹ میں دل کا دھاک سوں رہئی تھی کتک کیچ ہو

ہر رک کے گل تے تھا عیاں فوارہ لھو کی دھار کا


چکتیاں سراں کیاں تیرتے دستیاں کنول کے پھول سیاں

پنجہ جھڑیا سو ڈنڈ تھا ہر تس ڈنڈل کے سار کا


لھو میں رنگے جا سب کنکر یاقوت ریزے ہور ہے

جوں ماکیاں دسنے لگے رنگیں ہو چورا گار کا


نصرتی نے قلعہ پنالہ کی تصویر کشی کچھ اس طرح کی ہے کہ اس قلعے کی عظمت ، مضبوطی اور بلندی کا سکہ دلوں پر بیٹھ جاتا ہے ۔


پونچے پون پیری میں جا کر گر جوانی میں چڑی

انپڑے نہ دو جی عمر لگ تس پر قیاس یکبار کا


اس قصیدے میں نصرتی نے یہ اعتراف کیا ہے کہ وہ شاہ کا شاگرد ہے :

استاد عالم کا جو میں شاگرد تھا کر کمتریں

بولیاں ہوں جیوں تیوں بڑی میری سنت مقدار کا


یک حرف کہتے شہہ تھے ہوتے ہیں کئی معنی سمج 

اے شاہ عارف اس اپر واقف ہو سب اسرار کا

نصرتی کے دیگر قصائد اور ان کا اسلوب

قصیدہ فتح ملناڑ

Qasida fateh malnad

       فتح ملناڑ ( 1666ء) پر نصرتی نے ایک طویل قصیدہ کہا ہے۔ ی نامہ کے قصائد میں نصرتی فارسی کے مشہور قصیدہ نگاروں کی ہمسری کرتا نظر آتا ہے۔ عنصری اور فرخی ، غزنوی دور کے بلند پایہ قصیدہ نگار تھے۔ ان کے اکثر قصیدے ایسے ہیں جن میں محمود غزنوی کی مدح کی گئی ہے۔ مدح کے ساتھ اس کی فتح کا بھی تفصیل سے ذکر آیا ہے۔ جس طرح فرخی نے اپنے قصائد میں واقعی نگاری کی ہے اسی طرح نصرتی نے بیجاپور کی تہذیبی تاریخ اور عادل شاہوں کی تدبیر ، شجاعت ، ملک و دولت ، جنگ و آلاتِ حرب اور فتوحات ، پھر مغلوں اور مرہٹوں کی چالبازیوں اور ناکامیوں کی وہ تفصیلات قصائد میں قلم بند کردی ہے جو تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتیں۔ نصرتی نے اپنے تفصیلات کے بیان کرنے میں شاعرانہ کمالات کا مکمل استمعال کیا ہے۔ اس کی جولانی طبع نے میدان جنگ میں سپہ سالاروں اور سپاہیوں کی جواں مردی ، بہادری اور جاں سپاری کو اس طرح گرفت میں لیا ہے جیسے شاعر خود جنگ میں شریک رہا ہو۔ فتح ملناڑ کے قصیدے کو ان ہی خصوصیات کی بنا پر خود شاعر نے " بے بدل " قصیدہ کہا ہے۔


سنو یک فتح کا شہہ کے قصیدہ بے بدل یارو

کہ ہر یک مختصر مضمون دھرے معنی مطول کا


اس قصیدے میں بھی شاعر نے دوسرا مطلع کہا۔ تشبیب اس قصیدے میں بھی نہیں ہے۔ راست مدح سے قصیدہ شروع ہوا۔ 


ہوا ہے کون عالم کے شہاں میں شہہ ترے بل کا

سچا توں ناؤں کاری ہے وصی ہے شاہِ مرسل کا


دوسرا مطلع بہاریہ ہے جس میں کسی باغ کی تعریف میں 29 شعر کہے ہیں ۔ گریز اس طرح کرتا ہے۔

نت اس آرام گہہ میانے ہوا تھا شاہ کا گمنا

گمت جس دیک دنیا کوں لگے دھیان بلبل کا


       تزئین و آرائش ، باغ کی تعریف دکن کے شاعروں کا خاص موضوع رہا ہے۔ اس کے باندھنے میں انہوں نے بڑے شاعرانہ جتن کیے ہیں۔ خوب صورت و نادر تشبیہات اور صنائع و بدائع سے اپنے کلام کو سنوارا ہے۔ بعد میں یہی خوبیاں ہمیں میر حسن اور نسیم کے یہاں بھی نظر آتی ہیں۔ اس قصیدے میں آلات جنگ ، دشمنوں کی پسپائی ، فتح ہر بادشاہ کی سرشاری کی کامیاب منظر نگاری کی ہے۔ مقطع کے بعد اور دعا سے پہلے شاعر نے اپنے اس قصیدے کی خوبیوں پر خود بھی روشنی ڈالی ہے۔ کہتا ہے یہ خوبیاں بادشاہ کی عالی نظر سے پیدا ہوئی ہیں۔


تری عالی نظر تے ہوئے ترقی اس کے طالع کی

دست وے آج کچ کا کچ نہ تھا کچ بل جسے کل کا


مری بخت آزمائی شہہ یو شعر ایسا لکھیا ہوں میں

نظر تیری و طالع منج ، غرض کیا عرض اطول کا


       نصرتی کے قصائد میں منظر نگاری کے بہترین نمونے ملتے ہیں۔ اس کا ایک مختصر سا قصیدہ " فصل زمستان " کی تعریف میں ملتا ہے۔ اس قصیدے میں تخیل کی بلندی ، تراکیب کی شان و شوکت اور حقیقت نگاری ، مقامی رنگ کی چمک دمک نے چار چاند لگا دیے ہیں۔


قصیدہ " عاشور کے بیان میں "

Qasida aashura ke bayaan me

      نصرتی نہ صرف اعلیٰ پایہ کا شاعر تھا بلکہ اس کا تاریخی شعور بھی بڑا پختہ اور تیز تھا۔ تاریخ میں عموماً روح عصر کو نظر انداز کردیا جاتا ہے جس سے اکتاہٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ نصرتی نے اپنے عصر کی تہذیب کے ایک ایک پہلو پر گہری نظر رکھی ہے۔ نصرتی کا ایک قصیدہ " عاشورہ کے بیان میں " ملتا ہے ۔ یہ موضوع بھی قصیدے کے لئے عجیب ہے۔ اس موضوع پر ایک بہترین مرثیہ لکھنا آسان ہے لیکن قصیدہ لکھنا مشکل کام ہے۔ اس قصیدے میں نصرتی نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں محرم کا مہینہ کس طرح منایا جاتا تھا۔ حکمراں طبقہ اور رعایا دونوں اس میں کتنی دلچسپی لیتے تھے۔ مجلسیں کہا اور کس طرح منعقد ہوا کرتی تھیں۔ مرثیہ خوانی کے کیا آداب تھے ، علم کے کر آگ میں سے کس طرح گزرا جاتا تھا۔ ( یہ رسم آج بھی دہن میں رائج ہے ) قصیدے کا آغاز یعنی تشبیب میں حمد ، نعت اور منقبتِ علی ، فاطمہ ، حسنین کریمین کو بڑی خوبی سے سمو دیا ہے۔ پورا قصیدہ حسن بیان کا مرقع ہے۔ تشبیہات اور استعاروں میں بلا کی جدت اور مقامی رنگ شامل ہے۔ مثال کے طور پر عَلم لے کر ماتم کرتے ہوئے کس طرح آگ پر گزرا جاتا ہے اس کی مثال دی ہے کہ ایسی آسانی سے گزرتے ہیں جیسے کوئی " لال ماٹی " سے گزرتا ہے۔


ماتم میں جلتیاں کوں جنم پھرتیں علاوہ ہر گھڑی

تھا لال ماٹی تے بی کم کھندلات تیز انگار کا


      نصرتی کا یہ قصیدہ اس زمانے کے مذہبی اور سماجی تصورات کا آئینہ دار ہے۔ نصرتی نے شہادت کے بیان میں اپنی قادرالکلامی سے صنمیات اور اساطیر سے بھی استفادہ کیا ہے


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے