Ad

نصرتی کے دیگر قصائد اور ان کا اسلوب

نصرتی کے دیگر قصائد اور ان کا اسلوب


نصرتی کے دیگر قصائد 

نصرتی کے دوسرے قصائد میں فتح بادشاہ غازی 55 اشعار پر محیط ہے ۔ ایک اور قصیدہ " بادشاہ غازی پور بیجاپور کو آنے کا " کے عنوان سے ہے۔ ایک اور قصیدہ فصل زمستاں کے موضوع پر لکھا گیا ہے۔ ٹھنڈ کی تعریف میں محمد قلی نے بھی نظم لکھی ہے اور شاہی نے بھی لیکن نصرتی کا یہ قصیدہ اپنے کینوس کے اعتبار سے ٹھنڈ کالے کی بھر پور تصویر کشی کرتا ہے۔ محمود الٰہی لکھتے ہیں کہ نصرتی کا یہ قصیدہ سعدی کے بہاریہ قصیدوں کے مقابل رکھا جا سکتا ہے۔ علی نامہ میں ایک قصیدہ " بادشاہ بیجاپور کوں آ کر جشن کیے سو " ہے۔ یہ قصیدہ بھی خاصا طویل ہے۔ اس قصیدے میں درباری شان و شوکت شہر کی آئینہ بندی ، محلات و مکانات و دکانات کی آرائش ، نقش و نگار کی بھر پور عکاسی کی ہے۔ اس قصیدے میں تہذیبی عناصر کے واضح تصویریں ملتی ہیں۔ 

      نصرتی اردو کا پہلا شاعر ہے جس نے ہجویہ قصائد لکھے۔ اپنے مدحیہ قصائد میں بھی اس بادشاہ کے مخالفین اور حریفوں کی ہجو کی ہے جس میں مخالف کے لئے رکیک اور متبذل الفاظ استمعال کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ 


نصرتی کا اسلوب

Nusrati ka asloob

       نصرتی کے قصیدے مربوط اور مسلسل ہیں۔ بعض قصیدے خاصے طویل ہیں جیسے فتح ملناڑ کی فتح پر ، اس نے 220 اشعار کا قصیدہ لکھا ہے اس طوالت کے باوجود کمال یہ ہے کہ اس میں تسلسل کہیں ٹوٹنے نہیں پاتا۔

       نصرتی کے قصائد کی زبان پر شکوہ ہے اس کی مثنویاں میں زبان عمدہ سادہ اور سلیس ہے لیکن قصائد میں اس نے بلیغ و پر شکوہ الفاظ استمعال کیے ہیں۔ ہندی الفاظ ، تلمیحات ، صنمیات اور اساطیر کے ساتھ عربی اور فارسی الفاظ کا برجستہ اور بر محل استمعال کیا گیا ہے۔ ایک قصیدے کے صرف تین شعر یہاں پیش کیے جاتے ہیں ۔ جن سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ الفاظ کی نشست سے وہ کس طرح کام لیتا ہے۔ 


صاحبِ دنیا و دیں ، مالکِ ملک و ملل

عالمِ علم و عمل ، عاملِ نص و سنن


معدنِ جود و سخا ، منبعِ لطف و عطا

حامیِ دیں ، با وفا ماحیِ کفر کہن 


صاحبِ فضل و ہنر ، صف شکنِ بحر و بر

ملجاءِ فتح و ظفر ، ہادئ ِ شمشیر و زن


      نصرتی کو اپنے ممدوح سے بے پناہ محبت تھی ۔ ہر صنف سخن میں وہ اس کے ذکر اور اس کی تعریف کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ۔ قصیدہ " عاشور کے بیان میں " مدح شاہی کا موقع نہیں تھا لیکن وہ اپنے عجز سخن کا اظہار کرتے ہوئے بادشاہ کی سخن فہمی اور سخن سنجی کی تعریف کا موقع نکال ہی لیتا ہے۔

      نصرتی نے دکنی قصائد کو فارسی قصائد کے ہم پلہ بناکر پیش کیا ہے۔ قصائد میں دیگر اصناف سے زیادہ اسے اپنی جولانیاں دکھانے کا موقع ملا ہے۔ زبان و بیان پر اسکی قدرت کھل کر سامنے آتی ہے۔ اس کے فکر کی گہرائی اور گیرائی اپنا حسن بکھیرتی ہے۔

      صنائع اور بدائع اس کے اشعار میں موتی کی طرح جڑے ہوئے ہیں ، الفاظ کا دریا ہے کہ بہا جارہا ہے ۔ ان تمام اوصاف کی وجہ سے اس کے قصائد میں دریا کی سی روانی آگئی ہے۔ اس لئے نصرتی کے قصائد دکنی کے شاہکار قصائد شمار کیے جاتے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے