Ad

شوکت علی فانی بدایونی کے حالات زندگی

شوکت علی فانی بدایونی کے حالات زندگی


     گذشتہ اکائی میں ہم نے مرزا خاں داغ کی حیات اور غزل گوئی کا جائز لیا۔ داغ کی چار غزلیں بھی پیش کیں اوران کی غزل گوئی پر تبصرہ کیا۔ ان کی غزل کے دو اشعار کی تشریح نمونے کے طور پر دی تا کہ آپ کو داغ کی غزلوں کو سمجھنے میں مدد ملے ۔ اس اکائی میں ہم فانی بدایونی کے حالات زندگی پیش کریں گے اور ان کی غزل گوئی کی خصوصیات کا جائزہ لیں گے ۔ فانی بدایونی کی چار غزلیں آپ کے مطالعے کے لیے دی گئی ہیں ۔ فانی کے دو اشعار کی تشریح کی جائے گی ۔ اس اکائی کا خلاصہ پیش کریں گے۔


fani badayuni biography in urdu

فانی بدایونی کے حالات زندگی

     فانی بدایونی کا نام شوکت علی خان تھا۔ ان کا خاندانی تعلق یوسف زئی افغانوں سے تھا۔ فانی بدایونی کے پڑ دادا نواب اکبر علی خان اور دادا غلام نبج خان تحصیل دار تھے ۔ ان کی بڑی زمین داری تھی ۔ ان کی جائیداد کا بڑا حصہ 1857 ء کے غدر کی شورش کے نذر ہو گیا ۔ امارت کا زوال ہوچکا تھا۔ ان کے والد نے مجبوراً پولیس کی ملازمت اختیار کرلی ۔ فانی بدایونی کی والدہ مصاحب بیگم ، تو اب بشارت خاں کی نواسی تھیں جو فانی بدایونی کے پڑ دادا نواب اکبر علی خان کے رشتے کے بھائی تھے۔

     شوکت علی خاں 13 ستمبر 1879ء کو بدایوں کے قصبے اسلام نگر میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد برسر خدمت تھے ۔ فانی جب پانچ برس کے ہوئے تو والد نے ان کے لیے گھر پر مکتب جمادیا ۔ مکتب کی تعلیم کے بعد انھیں گورنمنٹ ہائی اسکول بدایوں میں شریک کروا دیا گیا۔ 1897ء میں انھوں نے انٹرنس کا ماتحان کامیاب کیا اور اعلی تعلیم کے لیے بریلی کالج میں داخلہ لیا ۔ انگریزی ادب اور فلسفے کا مطالعہ کیا۔ 1901ء میں بی۔اے کی ڈگری لی ۔ قصبہِ ایکری کے زمین دار انتظار علی خان کی دختر شاہ زمانی بیگم سے ان کی شادی ہوئی ۔ وزیرآباد ہائی اسکول میں سکنڈ ماسٹر کی حیثیت سے ملازم ہوئے ۔ چند ماہ بعد ملازمت چھوڑ دی ۔ پھر ان کا تقرر اسلامیہ ہائی اسکول اٹاوہ میں ہوگیا ۔ کچھ عرصے بعد انھیں سب ڈپٹی انسپکٹر آف اسکول بنا کر گونڈہ بھیج دیا گیا ۔ یہ ملازمت بھی ان کے مزاج کے مطابق نہیں تھی اس لیے استعفی دے دیا اور علی گڑھ جا کر قانون کی تعلیم حاصل کی ۔ ایل۔ایل۔بی کرنے کے بعد بدایوں، لکھنؤ، اٹاوہ اور آگرہ میں وکالت کی لیکن اس پیشے سے بھی نہیں لگاؤ پیدا نہ ہوسکا ۔ ان کا زیادہ وقت شعر گوئی کی محفلوں میں گزرتا ۔ جوش ملیح کے الفاظ میں " ان کا ذوقِ سخن ابھرتا اور ان کا شیرازۂ وکالت بکھرتا چلا گیا اور اس غریب کو پتہ بھی نہ چل سکا کہ میری معیشت کا دھارا ایک بڑے ریگستان کی جانب بڑھتا جا رہا ہے " بالآخر انھوں نے وکالت کا کام چھوڑ دیا اور آ گرے میں مانی جائسی اور مخمور جالندھری کے ساتھ مل کر جنوری 1931ء میں ادبی ماہ نامہ " تسنیم " جاری کیا جو چند ماہ تک پابندی سے شائع ہوتا رہا لیکن خسارے کی بنا پر بند کر دیا گیا 

     جب روزگار کی کوئی صورت نہ رہی تو انھوں نے مہاراہ کشن پرشاد کا در کھٹکھٹایا جو ان کی شاعری کے مداح تھے ۔ مہاراجہ نے فانی بدایونی کو حیدرآباد آنے کی دعوت دی ۔ فانی بدایونی حیدرآباد پہنچے ۔ مہاراجہ نے اپنی جیب خاص سے ساڑھے تین سو روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیا ۔ فانی بدایونی مہاراجہ کی محفلوں میں شریک ہونے گے ۔ مہاراجہ نے کوشش کی کہ فانی کو کوئی مناسب ملازمت مل جائے۔ حکومت کی طرف سے غیر ملکیوں کے تقرر پر پابندی عائد تھی ۔کسی غیر ملکی کا تقرر اس صورت میں ہوسکتا تھا جب کہ کسی اسامی پر تقرر کے لیے مناسب قابلیت رکھنے والا ملکی امیدوار نہ ملے ۔ عام طور پر حیدرآباد شہر کے لوگ اضلاع پر ملازمت کرنا پسند نہیں کرتے تھے ۔ مہاراجہ نے کوشش کی کہ فانی بدایونی کا تقرر کسی تعلقے پر منصف کی حیثیت سے ہو جائے لیکن فانی حیدرآباد ہی میں رہنا چاہتے تھے ۔ مہاراجہ کی کوشش سے فانی کو ملکی ہونے کی شرط سے مستثنیٰ کردیا گیا اور دارالشفاء ہائی اسکول پر بہ حیثیت صدر مدرس ان کا تقرر ہو گیا ۔ چند ماہ بعد جوش کے ایما پر پرنس معظم نے انھیں اپنے دربار میں یاد کیا اورانھیں اپنا استاد مقرر کیا۔ ہر روز شام کو انھیں لینے کے لیے کار آجاتی اور وہ رات دیر گئے تین بجے کے قریب گھر لوٹتے، چند گھنٹے آرام کرنے کے بعد اسکول روانہ ہو جاتے ۔ ان شب بیداریوں کی وجہ سے وہ اپنی ملازمت کی زمہ داریوں کو ٹھیک طور پر انجام نہیں دے پا رہے تھے اور ان کی صحت بھی متاثر ہورہی تھی ۔ فانی نے پرنس سے درخواست کی کہ وہ اس ذمے داری سے انھیں سبک دوش کردیں اور اپنی بجائے اس خدمت کے لیے نجم آفندی کا نام تجویز کیا جسے پرنس نے منظور کرلیا۔ اس کے بعد بھی معظم جاہی کے دربار سے فانی کا تعلق برقرار رہا۔ وہ ہر جمرہ کو سواری بھیج کر فانی کو ڈنر اور مشاعرے میں شرکت کے لیے بلاتے۔ 

      مہاراجہ کا وظیفہ اور معظم جاہ کا مشاعرہ بند ہونے کے بعد فانی کی معاشی حالت بگڑتی گئی۔ فانی کے بعد حاسدین نے محکمۂ تعلیم کے ایک اعلیٰ عہدہ دار کو فانی کی مخالفت میں اپنا شریک بنالیا ۔ ان کا تبادلہ ناندیڑ کر دیا گیا۔ یہ ایک طرح کی قید تنہائی تھی۔ فانی نے ایک نظم میں اپنے غم تنہائی کی سر گذشت یوں بیان کی ہے :

سر گذشتِ غم تنہائی ناندیڑ نہ پوچھ 

میں وہاں ہوں کہ جہاں میں بھی ہوں کچھ آپ سے دور


جس طرف دیکھیے اک عالمِ ہو کی تصویر 

جس طرف جائیے وحشت سے فضائیں معمور 


صبح سے ، شامِ غریبی کی بلاؤں کا نزول 

شام سے گورِ غریباں کی خموشی کا ظہور


     چند ماہ بعد انھوں نے طویل رخصت لے لی۔ اس دوران ان کا تبادلہ ناندیڑ سے ورنگل اور ورنگل سے جگتیال کر دیا گیا فانی کسی بھی جگہ زیادہ دنوں تک نہیں۔ رہے ہر بار رخصت لے کر حیدرآباد آ جاتے ۔ انھیں رخصت کے الاؤنس کے طور پر آ دھی تنخواہ ملنے لگی ۔ 1939 ء میں وہ ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔ ان کی کل مدت ملازمت چھے سال تھی ۔ براۓ نام وظیفہ مقرر ہوا ۔ اب قرض پر ان کی گزر ہونے لگی ۔ ان دنوں ان کی بیوی کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئیں اور اگست 1940 میں وفات پا گئیں ۔ فانی کے پاس تجہیز وتکفین کے لیے بھی پیسے نہ تھے ۔ ایک جاگیردار دوست نے مدد کرنی چاہی تو فانی نے قبول نہیں کیا۔ تب انھوں نے ’’عرفانیات فانی‘‘ کی چند جلدیں خرید لیں، اس رقم سے تجہیز و تکفین کا انتظام ہوا۔ تدفین کے بعد گھر لوٹ رہے تھے تو فانی نے حیرت بدیوانی سے کہا کہ اب ہمارا بھی وقت آ گیا ہے اور اپنی وفات کا یہ قطعہ تاریخ سنایا ۔

اور از جہاں گذشت کہ آخر خدا نہ بود

او این چنین بہ زیست کہ گوئی خدا نہ داشت

طغیانِ ناز بیں کہ بہ لوحِ مزارِ او

ثبت است سالِ رحلتِ فانی " خدا نہ داشت" 

(1360ہجری)


( ترجمہ: وہ اس دنیا سے چلا گیا کہ آخر وہ خدا نہ تھا۔ اس نے اس طرح زندگی بسر کی کہ تو کہے کہ اس کا کوئی خدا نہ تھا۔ ناز کی طغیانی دیکھ کہ اس کی قبر

کے کتے پر اس کا سال وفات یوں لکھا ہے "خدانہ داشت " 1360ھ ) 

     8 ستمبر 1940 ء کو فانی کے محسن مہاراجہ کشن پرشاد انتقال کر گئے اور ان سے وہ سہارا بھی چھن گیا جس سے آخری امیدیں وابستہ تھیں ۔ ادھر قرض خواہ نے عدالت سے رجوع ہو کر قرقی کی ڈگری حاصل کرلی ۔ فانی کے چند احباب نے بہ حیثیت وکیل ہائی کورٹ فانی کا نام درج کرانے کے لیے کچھ رقم جمع کی تھی، وہی رقم ساہوکار کو دے کر کہا کہ فانی کو جیل بھیج کر اسے کوئی فائدہ نہ ہو گا الٹے جیل کے اخراجات بھی اسے برداشت کرنے ہوں گے اس لیے جو رقم مل رہی ہے اس پر اکتفا کرے۔ ساہو کار نے بات مان لی اور معاملہ رفع دفع ہو گیا ۔ گزربسر کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں تھا۔ ہائی کورٹ کے جج میر ہاشم علی خان نے انھیں کمیشنر مقرر کیا۔ کبھی کوئی مقدمہ ایسا آجاتا جس میں فریق کے گھر جا کر بیان قلم بند کرنا ہوتا ۔ مقدمے کی مالیت کے اعتبار سے اس کی فیس کمشنر کو مل جاتی ۔ ان دنوں فضل الرحمن نشر گاہ لاسلکی حیدرآباد کے ڈپٹی کنٹرولر تھے اور میر حسن پروگرام کے انچارج تھے ۔ ان حضرات کی وجہ سے فانی کو ہر ماہ پروگرام ملنے لگے ۔آمدنی کے ذریعے محدود اور غیر مستقل تھے اور گزر چسر کے لیے نا کافی تھے ۔ ایسے بھی دن آئے جب گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہ رہا اور فاقے کرنے پڑے ۔ وہ کسی دوست سے مدد لینا بھی گوارا نہیں کرتے تھے ۔ معاشی حالات کے ساتھ صحت بھی بگڑتی چلی گئی ۔ جولائی 1941ء میں وہ شد علیل ہوئے اور ایک ماہ بعد 27/ اگست 1941 ء کو ان کا انتقال ہو گیا ۔ احاطہ درگاہ یوسفین میں تدفین عمل میں آئی ۔ 

     فانی بدایونی کی تین اولاد ہوئیں ۔ سعادت علی خان (فیروز قدر) وجاہت علی خان ( ہمایوں قدر ) اور سلیمہ خاتون ۔ فانی اپنی شادی کے بعد زیادہ تر بدایوں سے باہر رہے اور اولاد کی تعلیم کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ آگرے کے زمانۂ قیام میں بیوی بچوں کو پاس بلالیا تھا ۔ فانی جب حیدرآباد آئے تو ان کے بیوی بچے آگرے میں تھے ۔ سلیمہ خاتون آ گرے ہی میں وفات پا گئیں ۔ بیوی اور دو لڑکے حیدرآباد آگئے ۔ سعادت علی خان کو بعض محکموں میں ملازمت دلائی گئی وہ کہیں جم کر نہیں رہے ۔ فانی کی وفات کے بعد گھر کا رہا سہا اثاثہ بیچ دیا ۔ آخر میں نان شبینہ کو محتاج ہوگئے اور کس مپرسی کے عالم میں نمبر 1962 ء میں وفات پائی ۔ وجاہت علی خان تھوڑا بہت طب جانتے تھے۔ اس پر گزر اوقات تھی ۔ 1948 میں ان کا انتقال ہوا۔


Ugc net exam, ugc net urdu material, ugc net exam 2021, ugc net urdu book , ugc urdu notes, ugc net urdu syllabus

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے