Ad

فانی بدایونی کی غزل گوئی

فانی بدایونی کی غزل گوئی

 


فانی بدایونی کی غزل گوئی

Fani badayuni shayri in urdu

فانی بدایونی نے 1890ء سے شعر کہنا شروع کیا ۔ ان کی زندگی میں ان کے کلام کے چار مجموئے دیوان فانی 1921 ء باقیات فانی 1922ء عرفانیات فانی 1938 ء اور وجدانیات فانی 1940 ء شائع ہوئے۔ فانی کی وفات کے پانچ سال بعد حیرت بدیوانی نے کلیات فانی مرتب کیا اور اس میں وہ کلام بھی شامل کیا جو مختلف رسالوں میں شائع ہوا تھا لیکن کسی مجموعے میں نہیں تھا ۔ راقم الحروف کو فانی کی مزید چند غزلیں رسائل میں ملیں اس کے علاوہ فانی کے ابتدائی کلام کی ایک بیاض دستیاب ہوئی اس میں زیادہ تر وہ کلام تھا جسے فانی نے ’’دیوان فانی‘‘ کی اشاعت کے وقت متروک کر دیا تھا۔ راقم الحروف نے دستیاب شدہ غزلوں اور بیاض کے کلام کا انتخاب اپنی مرتب کردہ کتاب ’’فانی کی نادر تحریر میں‘‘ میں شامل کیا ہے ۔ 

      امیر مینائی اور داغ دہلوی روایتی غزل کے آخری نمائندے تھے ۔ ان کے متبعین اور شاگردوں نے ان کے اندازِ غزل گوئی کو زندہ رکھنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔

     امیر اور داغ کے بعد حسرت موہانی، شاد عظیم آبادی، فانی بدیوانی، یگانہ چنگیزی، اصغر گونڈوی اور جگر مرادآبادی نے غزل کو حیات نو بخشی اور اسے نیا رنگ و آہنگ دیا ۔ 

     فانی ایک مفکر شاعر تھے ۔ حیات و کائنات کے بارے میں ایک مخصوص نظریہ رکھتے تھے جس کی تشکیل میں ان کی اپنی زندگی کی واردات، ان کے مشاہدات اورغور و فکر کا دخل تھا۔ فانی کی فکر کا اصل محور بقا کی خواہش اور تلاش ہے ۔ وہ زندگی اور کائنات میں ہر طرف فنا کی کار فرمائی دیکھتے ہیں۔

Fani badayuni ghazal 

بنیاد جہاں کیا ہے مجبور فنا ہونا 

سرمایۂ ہستی ہے محروم بقا ہونا


کیفیت ظہور فنا کے سوا نہیں 

ہستی کی اصطلاح میں دنیا کہیں جسے


بقا سے محروم زندگی بے معنی اور بے مقصد ہوتی ہے ۔ مدعائے حیات کے فقدان سے زندگی کے بارے میں جبر کا تصور ابھرتا ہے ۔اگر زندگی کا کوئی مقصد ہے تو انسان اس کے حصول کے لیے اپنے عمل میں آ زاد ہوگا۔ فانی زندگی میں تمام تر جبر کی کار فرمائی دیکھتے ہیں:

زندگی! جبر ہے، اور جبر کے، آثار نہیں

ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں

فانی نے اس جبر کے خلاف جا بہ جا طنز کیا ہے اور کبھی طنز احتجاج کی شکل اختیار کر گیا ہے۔


جسمِ مجبوری میں پھونکی تو نے آزادی کی روح

خیر جو چاہا کیا اب یہ بتا ہم کیا کریں

بخش دے جبرِ کل کے صدقے میں

ہر گنہہ میری بے گناہی کا 


فانی نے جبر کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ وہ ہستی کی ماہیت اور غایت معلوم کرنے کی جستجو میں رہے۔ صوفیہ، تقی کی ماہیت اور مقصد کی توجیہہ پیش کرتے ہوئے عام طور پر اس حدیثِ قدسی کا حوالہ دیتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ " ذات حق ایک چھپا ہوا خزانہ تھی اس نے چاہا کہ اسے پہچانا جائے سو اس نے پیدا کیا" 

    فانی نے ایک شعر میں اسے ذات حق کے جذبۂ خود نمائی اور تماشا طلبی سے تعبیر کیا ہے ؛

آئینہ بصد جلوہ و ہر جلوہ بہ صد رنگ

کیا کیا نہ کیا تیری تماشا طلبی نے 


قرآن کریم کی ایک آیت میں تخلیق کی غایت بتائی گئی ہے۔ " اور میں نے جو بنائے جن اور آدمی سو اپنی بندگی کو " فانی نے اس آیت کو یوں توجیہہ کی ہے:

حاصلِ خلقت ہے تعمیرِ جبینِ سجدہ ریز 

شانِ تکوین دو عالم غایتِ یک سجدہ ہے 


     فانی کی فکر میں ایک موڑ آتا ہے جب وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہیں کہ مخلوق اور خالق میں محض عبد و معبود کا رستہ نہیں ہے۔ دونوں میں فرق اصل و فرع کا ہے۔ تخلیق در اصل جدائی اور مہجوری ہے۔ مہجوری خواہش وصال پیدا کرتی ہے۔ جذبۂ عشق پیدا ہوتا ہے تو جبر، جبر نہیں رہتا، تسلیم و رضا بن جاتا ہے ۔ غم ذات اور غم ہستی، غم عشق میں مبدل ہو جاتے ہیں :

اسیر بندِ دل ہو کر غمِ دنیا سے فارغ ہوں

مری آزادیوں کا راز ہے مجبور ہو جانا


غم اس کی امانت ہے انعام محبت ہے 

بیگانگیِ غم کو محرومی غم کہیے 



  غم عشق، محبوب کے دیدار اور وصال کی خواہش سے نمو پاتا ہے۔ محبوب کی تلاش و جستجو میں عاشق سرگرداں رہتا ہے۔ اس تلاش و جستجو کی اظطراب آمیز کیفیات کو فانی نے اثر انگیز انداز میں پیش کیا ہے:

تو کہاں ہے کہ تیری راہ میں یہ کعبہ و دیر

نقش بن جاتے ہیں منزل نہیں ہو نے پاتے

ہر راہ سے گزر کر دل کی طرف چلا ہوں

کیا ہو جو ان کے گھر کی یہ راہ بھی نہ نکلے


قرآن میں کہا گیا ہے۔ " بصارتیں میرا ادراک نہیں کرسکتیں۔ یعنی ذات حق مرتبۂ احدیت میں ناقابل مشاہدہ ہے۔ فانی کی خواہش دید حجابات سے ٹکراکر رہ گئی۔

سنتے ہیں! حجاب ان، کا عرفان تمنا ہے

اب حرف تمنا کی، تعبیر کو، کیا کہیے

     محرومیِ دید کا یہ احساس اس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک کہ مجاز اور حقیقت کی دوئی قائم رہتی ہے۔ کسی وجدانی لمحے میں جب یہ عرفان حاصل ہوتا ہے کہیہ فرق اعتباری ہے نہ کہ حقیقی تو سارا عالم تجلیوں سے معمور دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس احساس کے ساتھ جذبۂ عشق کو نئی تخلیقی توانائی حاصل ہوتی ہے:

جس طرف دیکھ لیا، پھونک دیا، طورِ مجاز

یہ ترے دیکھنے والے وہ نظر رکھتے ہیں اب عشق میں انفعالیت کی جگہ شوریدگی، جوش اور ولولے نے لے لی۔ غم کا علاج فانی نے کبھی ترکِ آرزو میں تلاش کیا تھا اور نا کام رہے تھے 

روز بڑھتی ہی رہی اک آرزو

روز ترکِ آرزو کرتے رہے


اب وہ غم کو زندہ اور تابندہ رکھنے کے لئے نئے ارمان پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ عشق کا کاروبار چلتا رہے

غمِ شوریدگی عشق کی تکمیل بھی کر 

رنجِ نا کامیِ دل کے لئے ارمان بھی لا


اس طرح فانی کی شاعری میں فکر و احساس کی نئی دنیا آباد ہوجاتی ہے۔ عشق، زندگی کی کا یعنیت کے تصور کو مٹا دیتا ہے ۔ عشق کی بدولت بقا کا امکان بھی روشن ہوتا ہے ۔ فانی کے نزدیک بقا زندگی تقاضا ہے جس کا حصول عشق ہی کے ذریعے ممکن ہے 

حسن ہے جاودانِ بے آغاز

عشق آغازِ جاوداں انجام

Ugc net exam, ugc net urdu material, ugc net exam 2021, ugc net urdu book , ugc urdu notes, ugc net urdu syllabus

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے