Ad

فانی بدایونی کی غزلیں تشریح و خلاصہ

فانی بدایونی کی غزلیں مع تشریح و خلاصہ

 


فانی بدایونی کی غزلیں تشریح و خلاصہ

آپ نے فانی بدایونی کے حالات زندگی سے واقفیت حاصل کی اور ان کی غزل گوئی کی خصوصیات کا مطالعہ کیا۔ ذیل میں فانی کی چار غزلیں دی جارہی ہیں اور ان غزلوں سے دو اشعار کی تشریح نمونے کے طور پر دی جارہی ہے۔

غزل 1

اک معما ہے ! سمجھنے کا، نہ سمجھانے کا

زندگی ! کا ہے کو ہے ، خواب ہے ، دیوانے کا


مختصر قصۂ غم، یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں

راز کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا


اب اسے دار پہ لے جاکر سلادے ساقی

یوں بہکنا نہیں اچھّا ترے مستانے کا


ہر نفس ، عمرِ گذشتہ کی ہے، میت فانی

زندگی نام ہے مر مر کے ، جیے جانے کا


غزل 2

کیا چھپاتے کسی سے حال اپنا 

جی ہی جب ہوگیا نڈھال اپنا


ہم ہیں اس کے خیال کی تصویر

جس کی تصویر ہے خیال اپنا


وہ بھی اب، غم کو ، غم ! سمجھتے ہیں

دور پہنچا مگر ملال اپنا


دیکھ دل کی زمیں لرزتی ہے

یادِ جاناں قدم سنبھال اپنا


موت بھی تو نہ مل سکی فانی 

کس سے پورا ہوا سوال اپنا


غزل 3

!نہ ابتدا ! کی خبر ہے، نہ انتہا معلوم

رہا یہ وہم کہ ہم ہیں! سو وہ بھی کیا معلوم


ہو نہ راز رضا فاش وہ تو یہ کہیے

مرے نصیب میں تھی ورنہ سعی نا معلوم


کچھ ان کے رحم پہ تھی یوں بھی زندگی موقوف

کہ ان کو راز محبت بھی ہوگیا معلوم


ترے خیال کے اسرار، بے خودی میں، کھلے

ہمیں چھپا نہ سکے، ورنہ دل کو کیا معلوم


یہ زندگی کی ہے رودادِ مختصر فانی

وجود درد مسلم ، علاج نا معلوم


غزل 4

تہہ خنجر بھی جو ، بسمل نہیں ہونے پاتے

مر کے، شرمندۂ قاتل، نہیں ہونے پاتے


حرم و دیر کی گلیوں میں، پڑے پھرتے ہیں 

بزم رنداں میں، جو شامل نہیں ہونے پاتے


موج نے ، ڈوبنے والوں کو ، بہت کچھ پلٹا

رخ مگر، جانب ساحل ، نہیں ہونے پاتے 


تو کہاں ہے کہ تیری راہ میں یہ کعبہ و دیر

نقش بن جاتے ہیں ، منزل نہیں، ہونے پاتے


خود تجلی کو نہیں اذن حضوری فانی

آئینے ان کے مقابل نہیں ہونے پاتے


فانی بدایونی کے اشعار کی تشریح (دو اشعار)

ہم ہیں اس کے خیال کی تصویر

جس کی تصویر ہے خیال اپنا

     یہ شعر فانی بدایونی کے خاص اسلوب کی نمائندگی کرتا ہے ۔ اس شعر میں صنعت قلب کا انداز ہے ۔ یعنی لفظوں کومنقلب کر دیا گیا ہے اور اس سے معنی آفرینی کی ہے ۔ پہلے مصرع میں ’’خیال کی تصویر " لفظوں کو الٹ کر دوسرے مصرع میں ’’ تصویر ہے خیال’‘ بنادیا گیا ہے ۔ پہلے مصرع میں کہا گیا ہے کہ ہمارا وجود محض تصویر کا سا ہے ۔ یہ تصور بھی خیالی ہے ۔ یعنی خیال میں بنی ہوئی ہے ۔ قرآن کریم کی ایک آیت ہے’’هو الاول و هو الآخر هو الظاهر و هو الباطن و هو على كل شي محیط ‘‘ ینی ذات حق ہر شے پر محیط ہے ۔ وہی اول ہے ۔ وہی آخر وہی ظاہر ہے اور وہی باطن میں ہے ۔ بعض علما 

نے اسے عالم خیال قرار دیا ہے ۔ ہر شے اس کے خیال میں بنی ہوئی ہے کسی شئے کا کوئی خارجی وجود نہیں ہے ۔ دوسرے مصرع میں لفظ تصویر کے معنی ہیں مثال ۔ یعنی جس کی مثال ہمارا خیال ہے جب ہم اپنے خیال میں کسی شئے کو لاتے ہیں تو اس شے کو ہم ہر طرف سے دیکھتے ہیں ۔ اس کے ظاہر اور باطن کو بھی ہم اپنے خیال کی آ نکھ سے دیکھ لیتے ہیں ۔ اس کے اول و آخر اور ظاہر و باطن میں ہم ہی ہوتے ہیں ۔ یہ شعر فانی کی فن کاری کا عمدہ نمونہ ہے۔ چندلفظوں کی الٹ پھیر سے ایک وسیع مضمون کو پیش کر دیا گیا ہے ۔ الفاظ کی تکرار سے شعر میں نغمگی پیدا ہوگئی ہے ۔


تہہ خبر بھی ، جو بسمل نہیں، ہونے پاتے

مر کے شرمندۂ قاتل نہیں ہونے پاتے


       اس شعر میں فانی نے متعلقات قتل کے روایتی استعارے خنجر ، بسمل اور قاتل استعمال کیے ہیں ۔ فانی کی لغات شعر میں قتل سے مراد قتل آ رزو ہے۔ قاتل کا استعارہ بہ یک وقت محبوب اور اللہ سے ہے ۔ قاتل کے خنجر کے نیچے جو مقتول تڑپتے نہیں اور مر جاتے ہیں انھیں قاتل سے شرمندگی نہیں ہوتی ۔ اگر بسمل بن کر تڑپتے تو انھیں شرمندہ ہونا پڑ تا کہ مرنا انھیں قبول نہیں تھا۔ انھوں نے جی داری کے ساتھ موت کو قبول کیا اور قاتل سے شرمندہ نہیں ہوئے۔ قتل سے مراد قتل آرزو لیں تو مطلب یہ ہوگا ک محبوب نے یا اللہ نے آرزو پوری نہیں کی ۔ عاشق نے اسے صبر سے برداشت کر لیا ۔اسے محبوب سے یا اللہ سے شرمندگی نہیں ہوئی ۔


خلاصہ

     اس اکائی میں آپ کو فانی بدیوانی کے حالات زندگی کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا ہے ۔ شوکت علی خان فانی 13/ ستمبر 1879 ء کو بدایون میں پیدا ہوئے ۔ بریلی کالج سے بی ۔اے کرنے کے بعد بہ حیثیت مدرس کام کرتے رہے ۔ سب ڈپٹی انسپکٹر آف اسکولس بنے ۔ یہ ملازمت ترک کر کے علی گڑھ جاکر قانون کی ڈگری لی اور بدایوں لکھنو، اٹاوہ اور آگرے میں وکالت کرتے رہے ۔ وکالت چھوڑ کر ‘‘ماہ نامہ تسنیم‘‘ جاری کیا۔ یہ رسالہ چل نہ سکا۔ آگرے سے مہاراجہ کشن پرشاد کی دعوت پر حیدرآباد آئے۔ صدر مدرسی پر ان کا تقرر ہوا۔ شہرادہ معظم جاہ کے شاعری میں استاد مقرر ہوئے لیکن جلد ہی انھوں نے یہ کام چھوڑ دیا۔ ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد ان کی معاشی حالت بگڑ گئی اور بڑی کس مپرسی کی حالت میں 27/اگست 1941 کو وفات پاگئے ۔بفانی ایک مفکر شاعر تھے۔ ان کے تصور حیات پر ہم نے روشنی ڈالی ہے ۔ وہ ایک با کمال فن کار تھے ، اس اکائی میں ان کے اسلوب کا تفصیل سے جائز ہ لیا گیا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے