Ad

فانی بدایونی کے کلام کا فن اور اسلوب

فانی کے کلام کا فن اور اسلوب

 

فانی بدایونی کے کلام کا فن اور اسلوب

     فانی ایک مفکر شاعر ہونے کے ساتھ بڑے فن کار بھی تھے ۔ فانی بدایونی نے غزل کی زبان کو اظہار کی نئ توانائی اور رعنائی بخشی ۔ انھوں نے غزل کے روایتی استعاروں کو نئے تلازموں سے آشنا کیا اوران کے ذریعے زندگی کی بے ثباتی، فنا پذیری ، جبر کے احساس ، وجود کے کرب ، اختیار ، آزادی ، بقا کی خواہش اور غم عشق کو موثر انداز میں پیش کیا ۔ برق و آشیاں کے پامال استعاروں کو لیجے اور دیکھیے کہ فانی نے انھیں کس طرح حیات نو بخشی ہے۔ برق کہیں تجلی حسن ہے ، کہیں تقدیر کا ظالم ہاتھ اور کہیی مرگ نا گہاں ہے :

اللہ یہ بجلیاں نہ کام آئیں گی 

آندھی ہی سے کیوں ہو آشیانہ بر باد


فانی نے اس شعر میں کش مکشِ حیات کی تصویر کھینچ دی ہے ۔ بجلی اک آن میں آشیانے کو خاکستر بنادیتی ہے اور مرگ نا گہاں کی کیفیت رکھتی ہے۔ اس کے مقابلے میں آندھی کے جھکڑ آشیانے کو بہ تدریج بر باد کرتے ہیں ۔ آناً فاناً جل جانے کے مقابلے میں برباد ہونے کی یہ صورت نہایت اذیت ناک ہے ۔ آشیاں زندگی اور تمنا کا استعارہ ہے ۔ دوسرے مصرع میں جبر تمنا اور جبر تدبیر کے ساتھ زندگی گزارنے کے کرب کو سمو دیا ہے ۔ برق و آشیاں کے علاوہ دیگر متعلقات چمن ، قفس ، صیاد ، بہار ، خزاں وغیرہ استعارے بھی فانی کی غزل میں محض کلیشے کے طور پر استعمال نہیں ہوئے ہیں بلکہ معانی کی نئی دنیا آباد کرتے ہیں ۔ فانی کی شاعری میں قتل اور اس کے متعلقات بھی گہری رمزیت کے حامل استعارے ہیں جن کے ذریعے جبر ہستی اور غمِ حیات کے بارے میں انھوں نے اپنے تصورات کو جذبے اور احساس میں ڈھال دیا ہے ۔ غالب کی طرح فانی کی شاعری میں بھی آئینے کا استعارہ مختلف تلازموں کے ساتھ بہ کثرت استعمال ہوا ہے ۔ اس طرح فانی نے دشت و صحرا ، موج و ساحل کے متعلقات اور دوسرے روایتی استعاروں کو بھی تخلیقی سطح پر برتا ہے۔ 

     استعاروں کے علاوہ فانی نے مجر مد تصورات سے بھی کام لیا ہے ۔ فلسفہ ، تصوف اور علم کلام کی لفظیات کا انھوں نے بے تکلف استعمال کیا ہے اور اپنے اظہار کا جزو بنالیا ہے ۔ جیسے:

حق ، باطل ، حقیقت ، مجاز ، عدم ، وجود ، نمود ، ظہور ، تسلیم ، رضا ، وحدت ، کثرت ، تعینات وغیرہ ۔ فانی کی فرہنگ شعر میں یہ الفاظ عام اور معلومہ مفہوم سے ہٹ کر اصطلاحی مفہوم کے حامل ہو گئے ہیں ۔ ان کی معنویت فانی کی فکر کے حوالے ہی سے اجاگر ہوسکتی ہے ۔ مثال کے طور پر فانی نے ہستی کے لیے ہوش کی اصطلاح استعمال کی ہے ۔ ہوش اپنے ہونے کا احساس ہے جو غیریت پیدا کرتا ہے اور فرد کو وجود کے کرب میں مبتلا کرتا ہے ۔ یہ شعر ملاحظہ کیجیے:


ہوش ہستی سے تو بیگانہ بنایا ہوتا 

کاش تو نے مجھے دیوانہ بنایا ہوتا


     رمزیت اور ایمائیت غزل کے آرٹ کے اہم عناصر ہیں ۔کم سے کم لفظوں میں ایک وسیع مفہوم کو ادا کرنے کے لیے شاعر بالعموم حذف و ایما کا طریقہ استعمال کرتے ہیں ۔ رمز و ایما کا ایک خاص طریقہ لفظوں کی الٹ پھیر اور تکرار اور معنی آفرینی کا ہے جسے فانی نے اکثر برتا ہے ۔ وہ شعر میں کم سے کم الفاظ استعمال کرتے ہیں اور ان کی تکرار سے خیال کا طلسم کدہ تعمیر کر دیتے ہیں ۔ جیسے:

ہم ہیں اس کے خیال کی تصویر 

جس کی تصویر ہے خیال اپنا


فانی کے اسلوب کا ایک اور وصف ڈرامائیت ہے جو حرکی و بصری محاکات ، تشخص اور مکالموں سے تشکیل پاتی ہے ۔مثلا :

دیکھ ! دل کی زمیں لرزرتی ہے 

یاد جاناں ! قدم سنبھال اپنا


      اس شعر کو پڑھتے ہوئے ہماری توجہ ایک عمل پر مرکوز ہو جاتی ہے ۔ یہ ڈرامائی عمل ہے ۔ یادِ جاناں گویا ایک شخص ہے جو دل کی زمین پر اپنا قدم بڑھا رہی ہے ۔ اسی لمحے دل کی زمین لرزنے لگی ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ گر پڑے اس لیے آ گاہ کیا جار ہا ہے کہ وہ قدم سنبھال کر رکھے۔ فانی کے بیش تر اشعار میں ڈرامائی کیفیت پائی جاتی ہے جس کا اظہار بالعموم مکالموں کی صورت میں ہوا ہے ۔ مکالمہ ڈرامائی عمل سے مر بوط نہ بھی ہوتو اس میں کسی عمل کی طرف اشارہ ضرور ملے گا۔ مکالمے کے پیرائے سے فانی نے حذف و ایما کا کام بھی لیا ہے ۔ مکالماتی اسلوب کے چند شعر دیکھیے :


اٹھ اے نگاهِ شوق اٹھ متاع جاں لیے ہوئے 

وہ دامنِ نگاہ میں ہیں بجلیاں لیے ہوئے


ترکِ غمِ ساحل کا حاصل نظر آتا ہے

لے ڈوبنے والے وہ ساحل نظر آتا ہے


تو مرے دل کی نہ سن ، یہ آئینہ ہے اس سے پوچھ

تیری صورت آشنا ، غم آشنا کیوں ہوگئے 


     فانی کے اظہار کی ایک منفرد خصوصیت استعباد یا قولِ محال کے استمعال میں نظر آتی ہے ۔ فانی نے استعباد کو انکشافِ حقیقت کا ذریعہ بنایا۔ وہ دو متضاد حالتوں کا مقابلہ کرتے اور اختلاف منظر کو نمایاں کرتے ہیں جس سے استعجاب کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔ بہ ظاہر اس میں تناقض نظر آتا ہے ۔ لیکن غور کر ے پر معلوم ہوتا ہے کہ جو بات کہی گئی ہے درست ہے ۔ چند شعر ملاحظہ ہوں :

کیفیتِ ظہورِ فنا کے سوا نہیں

ہستی کی اصطلاح میں دنیا کہیں جسے


بخش دے جبر کل کے صدقے میں 

ہر گنہہ میری بے گناہی کا 


مرتے ہی بن آتی ہے نہ جیتے ہی بن آئی

مارا مجھے قاتل کی مسیحا نفسی نے


     فانی کے اشعار میں بڑی نغمگی اور موسیقیت محسوس ہوتی یے۔ ان کے اشعار بہت رواں ہوتے ہیں ۔ اس کا ایک سبب لمبے مصوتوں کا زیادہ سے زیادہ استمعال ہے۔ اس کے علاوہ مختلف صنعتوں کے استمعال سے الفاظ کی تکرار بھی غنائی کیفیت پیدا کرتی ہے ۔ مثال کے طور پر یہ اشعار پیش ہیں :

تو نے سب اپنے کام بگڑ کر بنا لیے 

میری وفا وہ کام جو بن کر بگڑ گیا


دل کا اجڑنا سہل(آسان) سہی، بسنا سہل نہیں ظالم

باتیں بسنا کھیل نہیں ہے بستے بستے بستی میں


امید کہ دم سے ہے امید کے دم تک ہے

اربابِ تمنا پر احسان دل آزاری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے