Ad

میر تقی میر کے کلام میں تصور حسن و عشق

 میر تقی میر کے کلام میں تصور حسن و عشق

میر تقی میر کے کلام میں تصور حسن و عشق

آئیے اب میر کی غزلوں میں ابھرنے والی شعری دنیا میں نمایاں واقعات کی نشان دہی کریں ۔ اس دنیا میں ایک عشق پیشہ کردار ابھرتا ہے جومیر کی حقیقی زندگی میں عشق کی نا کامی کی یاد دلاتا ہے ۔ حقیقی زندگی میں انھوں نے ایک پری تمثال لڑ کی سے در پردہ عشق کیا تھا یا نہیں، جدید تحقیق نے اس کے بارے میں شکوک کو جنم دیا ہے ۔ تا ہم ان کی شاعری میں جذبہ عشق کا خوب اظہار ملتا ہے ۔ان کے جذبۂ عشق کے کئی پہلو ہیں ۔ وہ اس جذبے سے اپنے وجود کو گداز کر چکے تھے عشق نے ان کے تن بدن میں وہ آ گ لگائی ہے کہ ان کے استخواں کانپ کانپ جلتے ہیں ۔

استخواں کانپ کانپ جلتے ہیں

 عشق نے آگ یہ لگائی ہے


     ان کے عشقیہ اشعار میں حسن نسوانی کی دلکشیوں، محبوب کے بدن کی خواہش، کیف و صال اور کرب انتظار کی کیفیات ملتی ہیں ۔انھوں نے دل کے جانے کاذکر کیا ہے اوراسے’’ عجب سانحہ " قراردیا ہے ۔


مصائب اور تھے پر دل کا جانا

 عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے


     ان کے یہاں عشق زندگی کا ایک اہم اور سنجیدہ تجربہ ہے ۔ وہ اسے جنسی ابتذال کی پست سطح سے اٹھاتے ہیں اور روحانی رفعت اورفکری تب و تاب میں بدل دیتے ہیں۔ جذبۂ عشق ان میں خارجی دنیاسے بر گشتگی اور داخلیت پسندی کے رجحان کو تقویت دیتا ہے ۔عشق دنیا کی ساری زبانوں کی شاعری میں ایک بنیادی تجربے کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی مختلف صورتیں ابھرتی رہی ہیں ۔حافظ، غالب، اور اقبال کے یہاں عشق علامتی اہمیت رکھتا ہے ۔ عشق ان کے یہاں داخلیت، خودآ گہی، عرفان، تلاش اور جوش حیات کی علامت بن جاتا ہے ۔ اردواور فارسی میں ایسے عشقیہ اشعار بھی ملتے ہیں جو روایت اور تقلید کا پتہ دیتے ہیں ۔ ولی کے بعد مظہر جان جاناں اور سودا، درد اور میر سوز کے یہاں عشق کے روایتی موضوعات کی کمی نہیں ۔خودمیر کے دواوین میں بھی روایت غالب رہی ہے ۔ تا ہم میر کے چیدہ چیدہ اشعار میں عشقی تجربات کی تازگی اور سچائی کا پتہ ملتا ہے ۔

       ان کے یہاں عورت کا جو کردار ابھرتا ہے وہ غیر انسانی نہیں ۔ وہ خوب صورت عورت کی زندہ ، شوخ اور طرح دار شخصیت ہے ۔اس سے میر کے یہاں حسیات کی بیداری کا پتہ چلتا ہے ۔ حسیات کی تشفی جمالیاتی کیفیت کو جگاتی ہے ۔


بال (زلف) کھلے وہ شب (رات) کو شاید بستر ناز پر سوتا تھا

 آئی نسیم جو صبح سے ایدھر پھیلا عنبر سارا ہے


کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے 

اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے


نازکی اس کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے


ساعدِ سمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لاکر چھوڑ دیے 

بھول ہوئی جو اس کے قول و قسم پر ہائے خیالِ خام کیا 


      اس نوع کے عشقیہ اشعار میر کے جمالیاتی احساس کی نزاکت اور پاکیزگی کو ظاہر کرتے ہیں لیکن وہ اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ زندگی کی بھیانک حقیقت کا اشاریہ بھی بن جاتے ہیں ۔ محبوبہ عاشق کے دل پر مکمل تصرف پاتی ہے مگر خود نا قابل تسخیر رہتی ہے اور عاشق کو کرب، وحشت اور بے کسی سے آشنا کرتی ہے ۔ یہ اشعار دیکھیے ان میں محبوبہ ایک ساحرہ ہے جو عاشق کو مبہوت کرتی ہے:


مبہوت ہوگیا ہے جہاں اک نظر کیے 

جاتی نہیں ان آنکھوں کی جادو گری ہنوز


اس محبوب کی گلی میں عاشق کا جانا اس کی موت کا سبب بن جا تا ہے : 


(جادو)کیا بندھا ہے اس کے کوچہ (گلی)کا طلسم 

پھر نہ آیا جو کوئی اودھر گیا

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے